طارق شاہ
محفلین
جس رات کے خواب آئے وہ خوابوں کی رات آئی
شرما کے جُھکی نظریں ہونٹوں پہ وہ بات آئی
پیغام بہاروں کا، آخر مِرے نام آیا
پُھولوں نے دُعائیں دیں، تاروں کا سلام آیا
آپ آئے تو محفل میں، نغموں کی برات آئی
جس رات کے خواب آئے وہ خوابوں کی رات آئی
یہ مہکی ہُوئی زُلفیں، یہ بہکی ہُوئی سانسیں
نیندوں کو چُرالیں گی یہ نیند بھری آنکھیں
تقدیر مِری جاگی، جنّت مِرے ہاتھ آیا
جس رات کے خواب آئے وہ خوابوں کی رات آئی
چہرے پہ تبسّم نے اِک نُور سا چمکایا
کیا کام چراغوں کا ، جب چاند نکل آیا
جو آج دُلھن بن کے پہلو میں حیات آئی
جس رات کے خواب آئے وہ خوابوں کی رات آئی
علی سردارجعفری