طارق شاہ

محفلین
عید مبارک ہو
آپ سب کو!
الله کرے یہ عید، ہم سب کے لئے سلامتی، محبّت و اخوّت ، صحت اور شادمانی کا پیامبر ہو
آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مِلے تو کیسے مِلے منزلِ خزِینۂ خواب
کہاں دمشقِ مُقدّر، کہاں مَدِینۂ خواب

سِیاہ خانۂ خوف و ہَراس میں اِک شخص
سُنا رہا ہے مُسلسل حدیثِ زینۂ خواب

یقیں کا وِرد و وظیفہ، نہ اسمِ اعظمِ عشق
تو پھر یہ کیسے کھُلے گا طلسمِ سینۂ خواب

جہاں جہاں کی بھی مٹّی ہمیں پسند آئی
وہاں وہاں پہ امانت کِیا دفینۂ خواب

خروشِ گریۂ بےاختیار ایسا تھا
تَرخ کے ٹُوٹ گیا رات، آبگینۂ خواب

شکستِ خوابِ گُزشتہ پہ نوحہ خوانی ہُوئی
پھر اُس کے بعد، سَجی محفلِ شبینۂ خواب

میسّر آئی ہے توفیقِ شعر، خوش ہو لیں
نہ پھر یہ سیلِ رَواں ہے، نہ یہ سفینۂ خواب

انِیس و آتش و اِقبال سے، مُسلسل ہے
یہ سادہ کاری، صناعی، یہ سب نگینۂ خواب

افتخار عارف
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
عید مبارک ہو
آپ سب کو!
الله کرے یہ عید، ہم سب کے لئے سلامتی، محبّت و اخوّت ، صحت اور شادمانی کا پیامبر ہو
آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مِلے تو کیسے مِلے منزلِ خزِینۂ خواب
کہاں دمشقِ مُقدّر، کہاں مَدِینۂ خواب

سِیاہ خانۂ خوف و ہَراس میں اِک شخص
سُنا رہا ہے مُسلسل حدیثِ زینۂ خواب

یقیں کا وِرد و وظیفہ، نہ اسمِ اعظمِ عشق
تو پھر یہ کیسے کھُلے گا طلسمِ سینۂ خواب

جہاں جہاں کی بھی مٹّی ہمیں پسند آئی
وہاں وہاں پہ امانت کِیا دفینۂ خواب

خروشِ گریۂ بےاختیار ایسا تھا
تَرخ کے ٹُوٹ گیا رات، آبگینۂ خواب

شکستِ خوابِ گُزشتہ پہ نوحہ خوانی ہُوئی
پھر اُس کے بعد، سَجی محفلِ شبینۂ خواب

میسّر آئی ہے توفیقِ شعر، خوش ہو لیں
نہ پھر یہ سیلِ رَواں ہے، نہ یہ سفینۂ خواب

انِیس و آتش و اِقبال سے، مُسلسل ہے
یہ سادہ کاری، صناعی، یہ سب نگینۂ خواب

افتخار عارف
آپ کو بھی عید مبارک :)
تَرخ کے ٹُوٹ گیا رات، آبگینۂ خواب
تَرخ کہ تَڑخ؟
 

طارق شاہ

محفلین

کِس ماہِ لقا کے عشق میں یُوں بے چین ہیں ہم، بے تاب ہیں ہم
کرنوں کی طرح آوارہ ہیں ہم، تاروں کی طرح بے خواب ہیں ہم

اختر شیرانی
 

طارق شاہ

محفلین

یہ جو تنہائی ہے شاید مِری تنہائی نہ ہو
فہمیدہ ریاض

................

یہ جو تنہائی ہے شاید مِری تنہائی نہ ہو

گونجتا ہو نہ سماعت میں سکوت !
اور شب و روز کی نعش
میری دہلیز پہ ایّام نے دفنائی نہ ہو

اَن گِنت پُھول کہیں کِھلتے ہوں
اِک شجر مولسِری کا ہو کہیں، جس کے تَلے
یار، اغیّار گلے مِلتے ہوں
آن پہنچے ہوں خوشی کے موسم
راہ تکتے ہوں مِری
اور مجھ تک کسی باعث یہ خبر آئی نہ ہو

ہو کے خوش ہنستے ہوں احباب تمام
بھیجتے ہوں مجھے کب سے پیغام
ڈھونڈتے ہوں مجھے بےتابانہ
راہ تکتے ہوں مِری
اور مجھ تک، کسی باعث یہ خبر آئی نہ ہو

فہمیدہ ریاض
 

طارق شاہ

محفلین


دن ڈھلے گھر مِرے شام آئی ہے
پھر دریچے پہ چمکنے لگا زہرہ کا جمال
کوئی دم جاتا ہے رات آئے گی کھولے ہُوے بال
ایک لمحے کی جو فرصت ہے تو میں بھی جی لوں
نیلگوں شام کو آنکھوں میں سمو کر پی لوں
ساعتیں اُبھری چلی آتی ہیں تاروں کی طرح
اور اندیشہ و اُمّید ، نظاروں کی طرح
دن کے ساحل سے پلٹتی ہوئی موجوں کی قطار
حاصلِ عُمْر کا کرتی ہے شُمار
اور خیال آتا ہے
جب بھی دل خُون ہُوا
کِھل اُٹھا ہے وہیں حیرت کا اُفق رنگ کنول
جیسے اُس لمحے سے اِنکار کیا ہے میں نے
ہاں کسی بات پہ اصرار کیا ہے میں نے
زندگی تجھ سے بہت پیار کیا ہے میں نے

اور اِس پیار میں تم سب کی مہک شامِل ہے
کون ہو جانے کہاں رہتے ہو
لیکن اِک حرف محبّت میں ہے کیسا جادُو
ایک لمحے میں فراموش ہوئے سود و زیاں
پھر ہُوا شوق جواں
جیسے اِک اشکِ محبّت میں ڈھلا سارا جہاں

اِس ڈھلی شام کا حاصِل کیا ہے ؟
دانشِ دل کیا ہے ؟
کیسے انسان کو دِلدار کِیا اِنساں نے
عجب اِقرار، کہ ہر بار کِیا اِنساں نے
زندگی تجھ سے بہت پیار کِیا اِنساں نے

فہمیدہ ریاض
 
آخری تدوین:
Top