جانے اُس نے کیا دیکھا شہر کے منارے میں
پھر سے ہوگیا شامِل زندگی کے دھارے میں
اسم بُھول بیٹھے ہم ، جسم بھول بیٹھے ہم !
وہ مجھے مِلی یارو رات اِک ستارے میں
اپنے اپنے گھر جا کر سُکھ کی نیند سو جائیں
تو نہیں خسارے میں ، میں نہیں خسارے میں
میں نے دس برس پہلے، جس کا نام رکھا تھا
کام کر رہی ہوگی جانے کِس ادارے میں
موت کے درندے میں اِک کشِش تو ہے ثروت !
لوگ کچھ بھی کہتے ہوں، خودکشی کے بارے میں
ثروت حسین