اب تو ہم گھر سے نکلتے ہیں تو رکھ دیتے ہیں
طاق پہ عزت سادات بھی دستار کے ساتھ
اک تو تم خواب لیے پھرتے ہو گلیوں گلیوں
اس پہ تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ
ہم کو اس شہر میں جینے کا سودا ہے جہاں
لوگ معمار کو چن دیتے ہیں دیوار کے ساتھ
خوف اتنا ہے تیرے شہر کی گلیوں میں فراز
چھاپ سنتے ہیں تو لگ جاتے ہیں دیوار کے ساتھ
مجھ کو مطلوب جو بد نامی تری ہوجاتی
تیری تصویر سجا رکھتا میں دیوار کے ساتھ