طارق شاہ

محفلین

گو یہ دن ہیں فرق و ملال کے، مگررکھیں خود میں سنبھال کے
وہ بھی یاد جس سے میسّراب، رہیں لمحے اُس کے وصال کے

شفیق خلش
 

طارق شاہ

محفلین

یُوں خِرام جیسے نسسیم سے کوئی شاخِ گُل ہو ہِلا ہُوا
ترے ناز و ناپ کا ہر قدم، رہے دِل کو میرے اُچھال کے

شفیق خلش
 

عندلیب

محفلین
تو خاباں میں آئے تو میں ہڑبڑا کو
آندھیرے میں اٹھ اٹھ کو دھابا پو آتوں
میں بھرکاتوں بنڈے میں سیٹیاں بجاتوں
سندوری کے سانداں سے آنکھیاں لگاتوں
تو آنکھیاں کو نئیں دستی کرکو روتوں
میں اپنیچ رونے پو ہنس ہنس کو مرتوں
تو گمت ہے گمت ہماری پڑوسن
میں چھلے کا کنکر بنا کو رکھوں گا
میں انکھیاں پو اپنے بٹھا کو رکھوں گا
کلیجے کے اندر چھپا کر رکھوں گا
اندھارے کی چمنی بنا کو رکھوں گا
 

طارق شاہ

محفلین

ہم دُنیا کو چَلانے والے
اور ہَمِیں پامال، یہ کیا ہے ؟
ہم دُنیا کو بچانے والے
اور اِتنے بدحال، یہ کیا ہے؟

فراق گورکھپوری
 

طارق شاہ

محفلین

ہم کو بُھوکا رکھ کر ہم سے
دھن کبیر کا کام لِیا ہے
اپنی دشا سوچ کر اکثر
ہم نے کلیجہ تھام لِیا ہے

فراق گورکھپوری
 

طارق شاہ

محفلین

کوئی خوش خیالی کی حد بھی ہے، کہ دِکھائے منظراُسی طرح
جو تھے پیش پہلے نظر کے سب، بُجھے منظروں کو اُجال کے

شفیق خلش
 

طارق شاہ

محفلین

ہے عجیب جلوۂ زیست اب، نہ یقین ہو، نہ گُماں ہے سب
تھے ہُنر سے پُر یہی اِس نگر اُٹھے ہاتھ سارے سوال کے

شفیق خلش
 

سید عاطف علی

لائبریرین
لوٹ آئے جتنے فرزانے گئے
تا بہ منزل صرف دیوانے

مستند رستے وہی مانے گئے
جن سے ہو کر تیرے دیوانے گئے

آہ کو نسبت ہے کچھ عشاق سے
آہ نکلی اور پہچانے گئے
 
Top