بوسے کا نیل عارضِ جاناں میں رہ گیا
سوسن کا پھول کِھل کے گلستاں میں رہ گیا
عباس(۱۸۵۷ میں پھانسی دیئے گئے) مجھے پورا نام یاد نہیں
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
ضعف سے نقشِ پئے مور، ہے طوقِ گردن
ترے کوچے سے کہاں طاقتِ رم ہے ہم کو

سر اڑانے کے جو وعدے کو مکرّر چاہا
ہنس کے بولے کہ "ترے سر کی قسم ہے ہم کو!"

تم وہ نازک کہ خموشی کو فغاں کہتے ہو
ہم وہ عاجز کہ تغافل بھی ستم ہے ہم کو

ق

لکھنؤ آنے کا باعث نہیں کھلتا یعنی
ہوسِ سیر و تماشا، سو وہ کم ہے ہم کو

لیے جاتی ہے کہیں ایک توقّع غالبؔ
جادۂ رہ کششِ کافِ کرم ہے ہم کو

ابر روتا ہے کہ بزمِ طرب آمادی کرو
برق ہنستی ہے کہ فرصت کوئی دم ہے ہم کو

طاقتِ رنجِ سفر بھی نہیں پاتے اتنی
ہجرِ یارانِ وطن کا بھی الم ہے ہم کو

اسد اللہ خاں غالب
 

نظام الدین

محفلین
عشق ہر رنگ میں ہے اپنی حقیقت کی دلیل!
یہ وہ دعویٰ ہی نہیں ہے کہ جو باطل ہوجائے
(جگر مراد آبادی)
 
Top