طارق شاہ

محفلین
ہم اُس کےطرزِعمل سے ہوئے نہ یُوں عاجز
کہ جان جاں تو ہے اپنا، وہ تُند خُو ہی سہی
خلِش یہ دل نہ ہو مائل کسی بھی مہوش پر
مشابہت میں ہواُس کی وہ ہُوبَہُو ہی سہی
شفیق خلش
 

طارق شاہ

محفلین
پڑی تھیں عنْبریں زُلفیں کِسی کے شانے پر!
کِسی کی زُلف میں ہاتھوں کا اپنے شانا تھا

گھُلِی ہوئی تھیں صداؤں میں کچھ مدُھر تانیں
ہنْسی کے لحْن میں پایل کا چھنچھنانا تھا

ہم اہلِ ہوش کی انجُم جو لے اُڑا نیندیں!
کسی حَسِین کا غفلت میں کسمسانا تھا

حُسین انجُم
 

طارق شاہ

محفلین
یونہی حیراں پریشاں روز صبح و شام کرتے ہیں
جنونِ عِشق کے مارے کہیں آرام کرتے ہیں

ہجومِ آرزُو، شوقِ فراواں، دردِ بیتابی
وہ جس پہ چاہتے ہیں اُس پہ یوں اکرام کرتے ہیں

جگرمُراد آبادی
 

طارق شاہ

محفلین
اِک جگہ بیٹھ کے پی لوُں، مِرا دستوُر نہیں
میکدہ تنگ بنا دُوں، مُجھے منظوُر نہیں

قیدِ آدابِ محبّت مُجھے منظوُر نہیں
عِشق دستوُر ہے خود، عِشق کا دستوُر نہیں

برقِ غیرت مِری ہستی کو جَلادے، تسلیم!
چُھپ کے پردہ میں رہے حُسن، یہ منظوُر نہیں

کیا انالحق کا ترانہ کہ اب اِس دُنیا میں
رسن و دار رہیں شِبلی و منصُور نہیں

جگرمُراد آبادی
 

طارق شاہ

محفلین
ترکِ مُدّعا کردے، عینِ مُدّعا ہوجا
شانِ عبد پیدا کر، مظہرِ خُدا ہوجا

اُس کی راہ میں مِٹ کر بے نیازِ خلقت بَن
حُسن پر فِدا ہوکر حُسن کی ادا ہوجا

اصغرگونڈوی
 

طارق شاہ

محفلین
برگِ گُل کے دامن پر رنگ بن کر جمنا کیا
اِس فضائے گُلشن میں موجۂ صبا ہوجا

تُو ہے جب پیام اُس کا پھر پیام کیا تیرا
تُو ہے جب صدا اُس کی، آپ بے صدا ہوجا

اصغرگونڈوی
 

طارق شاہ

محفلین
نہ کوئی نام ہے میرا، نہ کوئی صُورت ہے
کچھ اِس طرح ہمہ تن دِید ہوگیا ہُوں میں

تِرا جمال ہے، تیرا خیال ہے، تُو ہے!
مجھے یہ فرصتِ کاوش کہاں کہ، کیا ہُوں میں

اصغرگونڈوی
 

طارق شاہ

محفلین
خودی کی شوخی و تندی ميں کبر و ناز نہيں
جو ناز ہو بھی، تو بے لذّتِ نياز نہيں

نِگاہِ عِشق دلِ زندہ کی تلاش ميں ہے
شِکارِ مُردہ سزاوارِ شاہباز نہيں

علامہ محمد اقبال
 

طارق شاہ

محفلین
ہُوئی نہ عام جہاں ميں کبھی حکومتِ عِشق
سبب يہ ہے کہ محبّت زمانہ ساز نہيں


اِک اِضطراب مُسلسل غياب ہو، کہ حضُور
ميں خود کہوں تو مِری داستاں دِراز نہيں


علامہ محمد اقبال
 

طارق شاہ

محفلین
تا دیر آسمان و زمیں گوُنجتے رہے
پا زیب اِس لٹک سے بَجا کر چَلی گئی

دانِش کدے کی مشعَلِ عالم فروز کو
اِک لرزِشِ نَظر سے بُجھا کر چلی گئی
جوش ملیح آبادی
 

طارق شاہ

محفلین
رشتے باہم بڑھتے ہیں، کم چلنے والی گلیوں میں
شہر میں جتنی بِھیڑ بھروگے اُتنی ہی تنہائی ہوگی

ضمیر جعفری
 
Top