اِک جگہ بیٹھ کے پی لوُں، مِرا دستوُر نہیں
میکدہ تنگ بنا دُوں، مُجھے منظوُر نہیں
قیدِ آدابِ محبّت مُجھے منظوُر نہیں
عِشق دستوُر ہے خود، عِشق کا دستوُر نہیں
برقِ غیرت مِری ہستی کو جَلادے، تسلیم!
چُھپ کے پردہ میں رہے حُسن، یہ منظوُر نہیں
کیا انالحق کا ترانہ کہ اب اِس دُنیا میں
رسن و دار رہیں شِبلی و منصُور نہیں
جگرمُراد آبادی