فرقان احمد

محفلین
ہم بھی مہر و ماہ سے باتیں کریں
ہم بھی ۔۔۔۔۔ عکسِ جلوۂ جانانہ ہیں

شب جو تھے محوِ طوافِ شمعِ ناز
صبح دم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خاکسترِ پروانہ ہیں
 

کاشفی

محفلین
آج تک ان کی خدائی سے ہے انکار مجھے
میں تو اک عمر سے کافر ہوں صنم جانتے ہیں

(عرفان صدیقی - لکھنؤ)
 

کاشفی

محفلین
مولیٰ، پھر مرے صحرا سے بن برسے بادل لوٹ گئے
خیر شکایت کوئی نہیں ہے اگلے برس برسا دینا

(عرفان صدیقی - لکھنؤ)
 
محسوس ہوا یہ کہ اب اس صحن چمن میں
جو پھول کھلیں گے وہ پریشاں ہی رہیں گے

اُگتا ہی رہے گا درو دیوار سے سبزہ
آثارِ جنوں گھر سے نمایاں ہی رہیں گے
 
Top