فراق گورکھپوری کی غزل سے منتخب اشعار
اب دور آسماں ہے نہ دور حیات ہے
اے درد ہجر تو ہی بتا کتنی رات ہے
ہر کائنات سے یہ الگ کائنات ہے
حیرت سرائے عشق میں دن ہے نہ رات ہے
جینا جو آ گیا تو اجل بھی حیات ہے
اور یوں تو عمر خضر بھی کیا بے ثبات ہے
کیوں انتہائے ہوش کو کہتے ہیں بے خودی
خورشید ہی کی آخری منزل تو رات ہے
ہستی کو جس نے زلزلہ ساماں بنا دیا
وہ دل قرار پائے مقدر کی بات ہے
توڑا ہے لا مکاں کی حدوں کو بھی عشق نے
زندان عقل تیری تو کیا کائنات ہے