گردآلود دریدہ چہرہ یوں ہے ماہ و سال کے بعد
جیسے فلک بارش سے پہلے جیسے زمیں بھونچال کے بعد
مردہ لوگوں کی بستی میں سنتا ہوں آوازیں سی
جیسے مقتل کا سناٹا بولے عام قتال کے بعد
ہجر تو پہلے بھی آیا تھا لیکن اب وحشت ہے اور
چلتی ہوا سے لڑتے ہیں ہم ایک پری تمثال کے بعد
بھر جائیں گی جس دم شاخیں سبز مہکتے پتوں سے
جوگی آتے جاتے موسم لوٹیں گے پھر سال کے بعد
رات بدن یوں لو دیتے تھے جیسے صندل جلتا ہو
لیکن دل دیوانہ چاہے اور بھی کچھ ہو وصال کے بعد
گر سوچیں تو ہجر زدوں نے یوں بھی پائی عمر بڑی
اٹھے دل میں درد سے پہلے بیٹھے گرد ملال کے بعد
کون سے دکھ کو پلے باندھیں کس غم کو تحریر کریں
یاں تو درد سوا ہوتا ہے اور بھی عرض حال کے بعد
(توصیف تبسم)