واہمہ ہوگا یہاں کوئی نہ آیا ہوگا
میرا سایہ ہی مرے جسم سے لپٹا ہوگا
چاند کی طرف نگاہوں میں لئے خواب طرب
اور اک عمر ابھی خاک پہ سونا ہوگا
اشک آئے ہیں تو یہ سیر چراغاں بھی سہی
اس سے آگے تو وہی خون کا دریا ہوگا
گر کبھی ٹوٹی بدلتی ہوئی رت کی زنجیر
ایک اک پھول یہاں خود کو ترستا ہوگا
ہم تو وابستہ رہے تجھ سے کہ ہے خوئے وفا
تو نے کیا سوچ کے اے غم ہمیں چاہا ہوگا
شوق تعمیر بسائے گا خرابے کیا کیا
آدمی ہے تو ہر اک شہر میں صحرا ہوگا
سائے مہکے ہوئے گوشوں میں سمٹ جائیں گے
چاند نکلے گا تو یہ شہر اکیلا ہوگا
یاد آئیں گی بہت نیند سے بوجھل پلکیں
شام کے ساتھ یہ دکھ اور گھنیرا ہوگا
اس کو آنکھوں میں چھپاؤگے بتاؤ کب تک
کیا کرو گے جو وہی دیکھنے والا ہو گا
(توصیف تبسم)