فرقان احمد

محفلین
تھا پس مژگان‌ِ تر اک حشر برپا اور بھی
میں اگر یہ جانتا شاید، تو روتا اور بھی!

پاؤں کی زنجیر گردابِ بلا ہوتی اگر
ڈوبتے تو سطح پر اک نقش بنتا اور بھی

آندھیوں نے کر دیےسارے شجر بے برگ و بار
ورنہ جب پتے کھڑکتے ۔۔۔۔۔۔۔ دِل لرزتا اور بھی

روزن در سے ہوا کی سسکیاں سنتے رہو
یہ نہ دیکھو ہے کوئی یاں آبلہ پا اور بھی

ہر طرف آواز کے ٹوٹے ہوئے گرداب ہیں
روشنی کم ہے مگر ۔۔۔۔۔ چلتا ہے دریا اور بھی

صرف تو ہوتا تو تیرا وصل کچھ مشکل نہ تھا
کیا کریں تیرے سوا کچھ ہم نے چاہا اور بھی

آرزو شب کی مسافت ہے تو تنہا کاٹیے
دن کے محشر میں تو ہو جائیں گے تنہا اور بھی

(ڈاکٹر توصیف تبسم)
 

فرقان احمد

محفلین

مل گئی آپ کو فرصت کیسے
یاد آئی مری صورت کیسے

پوچھ ان سے جو بچھڑ جاتے ہیں
ٹوٹ پڑتی ہے قیامت کیسے

تیری خاطر تو یہ آنکھیں پائیں
میں بھلا دوں تری صورت کیسے

اب تو سب کچھ ہی میسر ہے اسے
اب اسے میری ضرورت کیسے

تجھ سے اب کوئی تعلق ہی نہیں
تجھ سے اب کوئی شکایت کیسے

کاش ہم کو بھی بتا دے کوئی
لوگ کرتے ہیں محبت کیسے

تیرے دل میں مری یادیں تڑپیں
اتنی اچھی مری قسمت کیسے

وہ تو خود اپنی تمنا ہے عدیم
اس کے دل میں کوئی چاہت کیسے


عدیم ہاشمی
(اس غزل کو پی ٹی وی اسلام آباد کے ڈرامہ سیریل آغوش میں بطور ٹائٹل سانگ کافی شہرت ملی تھی؛ کوئی بیس بار تو چلائی گئی ہو گی یہ غزل تاہم پورے ڈرامے میں ایک بار بھی یہ غزل مکمل طور پر نہ چلائی گئی جس پر ہمیں خاصی حیرت ہے۔)
 
آخری تدوین:
پوچھ ان سے جو بچھڑ جاتے ہیں
ٹوٹ پڑتی ہے قیامت کیسے

تیری خاطر تو یہ آنکھیں پائیں
میں بھلا دوں تیری صورت کیسے

اب تو سب کچھ ہی میسر ہے اسے
اب اسے میری ضرورت کیسے

تجھ سے اب کوئی تعلق ہی نہیں
تجھ سے اب کوئی شکایت کیسے

کاش ہم کو بھی بتا دے کوئی
لوگ کرتے ہیں محبت کیسے

تیرے دل میں میری یادیں تڑپیں
اتنی اچھی میری قسمت کیسے

وہ تو خود اپنی تمنا ہے عدیم
اس کے دل میں کوئی چاہت کیسے

عدیم ہاشمی (اس غزل کو پی ٹی وی اسلام آباد کے ڈرامہ سیریل آغوش کے باعث کافی شہرت ملی تھی؛ کوئی بیس بار تو چلائی گئی ہو گی یہ غزل ٹائٹل سانگ کے طور پر؛ تاہم پورے ڈرامے میں ایک بار بھی یہ غزل مکمل طور پر نہ چلائی گئی جس پر ہمیں خاصی حیرت ہے۔)
بہت خوب غزل۔۔
 
Top