واہہر رگِ خوں میں پھر چراغاں ہو
سامنے پھر وہ بے نقاب آئے
فیض احمد فیض
خوبتری خاطر تو یہ آنکھیں پائیں
میں بھلادوں تری صورت کیسے
پھر سے شکریہ جی
خوبدل تا جگر کہ ساحلِ دریائے خوں ہے اب
اس رہگزر میں جلوۂ گُل، آگے گرد تھا
غالب
واہ واہ سر جی کمالدل تا جگر کہ ساحلِ دریائے خوں ہے اب
اس رہگزر میں جلوۂ گُل، آگے گرد تھا
غالب
واہ ۔۔۔عمدہنہ اقلیمِ ہنر میں عظمتِ غالب سلامت
نہ اعجازِ کلامِ میر رہنے کے لئے ہے
افتخار عارف
بہت خوب غزل۔۔پوچھ ان سے جو بچھڑ جاتے ہیں
ٹوٹ پڑتی ہے قیامت کیسے
تیری خاطر تو یہ آنکھیں پائیں
میں بھلا دوں تیری صورت کیسے
اب تو سب کچھ ہی میسر ہے اسے
اب اسے میری ضرورت کیسے
تجھ سے اب کوئی تعلق ہی نہیں
تجھ سے اب کوئی شکایت کیسے
کاش ہم کو بھی بتا دے کوئی
لوگ کرتے ہیں محبت کیسے
تیرے دل میں میری یادیں تڑپیں
اتنی اچھی میری قسمت کیسے
وہ تو خود اپنی تمنا ہے عدیم
اس کے دل میں کوئی چاہت کیسے
عدیم ہاشمی (اس غزل کو پی ٹی وی اسلام آباد کے ڈرامہ سیریل آغوش کے باعث کافی شہرت ملی تھی؛ کوئی بیس بار تو چلائی گئی ہو گی یہ غزل ٹائٹل سانگ کے طور پر؛ تاہم پورے ڈرامے میں ایک بار بھی یہ غزل مکمل طور پر نہ چلائی گئی جس پر ہمیں خاصی حیرت ہے۔)
لاجواب!پاسِ ناموسِ عشق تھا ورنہ
کتنے آنسو پلک تک آئے تھے
میر