زیرک

محفلین
تم یہ کہتے ہو کہ میں غیر ہوں پھر بھی شاید
نکل آئے کوئی پہچان، ذرا دیکھ تو لو
جاوید اختر​
 

زیرک

محفلین
آنے نہ دیتے تھے کبھی ہم دل میں آرزو
پر کیا کریں کہ لے کے تیرا نام آ گئی
جاوید اختر​
 

زیرک

محفلین
جب تک ماتھا چوم کے رخصت کرنے والی زندہ تھی
دروازے کے باہر تک بھی منہ میں لقمہ ہوتا تھا
اظہر فراغ​
 

زیرک

محفلین
یوں دیکھتا ہے تیرگیِ آب و گِل میں کیا
شعلوں سے کھیل دل کو جلا اور جلا کے دیکھ
فانی بدایونی​
 

زیرک

محفلین
ہزار سمتوں سے آئے پتھر، مگر جو دل کے مکیں نے پھینکا
اسی کو خلوت میں چومتا ہوں، کہ لاکھ سجدوں کا یہ صلہ ہے​
 

زیرک

محفلین
ملبے سے نکل آتا ہے آسیب کی مانند
لوگوں کی طرح خوف بھی مر کیوں نہیں جاتا
عباس تابش​
 

زیرک

محفلین
نامہ بر ان کی زباں کے تو یہ الفاظ نہیں
راستے میں کہیں پیغام بدل جاتا ہے
قمر جلالوی​
 
Top