فرخ منظور

لائبریرین
یہ داغ ایک لفظ ہے مرہم بھی ایک لفظ
چارہ گری بھی، زخمِ نہانی بھی جھوٹ ہے

ہرزہ سرائی ہیں یہ محبت کے معجزے
الفت نئی بھی مکر، پرانی بھی جھوٹ ہے

(بہزاد برہم)
 

زارا آریان

محفلین
نام سُنتے ہو جِس کا ویرانہ
وہی سودائیوں کی بستی ہے

✍ جوششؔ عظیم آبادی ( شیخ محمد روشن )
عظیم آباد، بھارت | ۱۷۳۷–۱۸۰۱
دیوانِ جوششؔ
 

زارا آریان

محفلین
جو کچھ گزر گئی ہے خُدا سے کہیں نہ ہم
ہم ماجرائے غم بُتِ کافر سے کیا کہیں

✍ مرزا محمد تقی بیگ مائلؔ دہلوی
دہلی مٹیا محل | ۱۸۵۰ – ۱۹۳۱
کُلیاتِ مائلؔ حِصّہ اول
 

زارا آریان

محفلین
گرد جھاڑی پیرِ میخانہ نے اپنے ہاتھ سے
دامنِ دُردی کشاں رشکِ مصلّیٰ ہو گیا

✍ مرزا محمد تقی بیگ مائلؔ دہلوی
دہلی مٹیا محل | ۱۸۵۰ – ۱۹۳۱
کُلیاتِ مائلؔ حِصّہ اول
 

زارا آریان

محفلین
اب اور کس کو بتاؤں کہ مُجھ پہ کیا گزری
مجھے تو میرا خُدا بھی اُداس ملتا ہے

✍ امیرؔ قزلباش ( امیر آغا قزلباش )
دہلی | ۱۹۴۳ – ۲۰۰۳
انکار
 

زارا آریان

محفلین
زندگی اور بندگی گزری
اُلٹے سیدھے نباہ نے مارا
۱۹۴۵ء

پنڈت جگموہن ناتھ رینا شوق
شاہ جہاں پور، بھارت | ۱۸۶۳
پیامِ شوق حصّہ دوم
 

زارا آریان

محفلین
تعمیر دیر و کعبہ سے مٹی ہماری کچھ
باقی جو رہ گئی تھی سو پیمانہ بن گیا

✍ مرزا محمد تقی بیگ مائلؔ دہلوی
دہلی مٹیا محل | ۱۸۵۰ – ۱۹۳۱
کُلیاتِ مائلؔ حِصّہ اول
 

زارا آریان

محفلین
نگاہِ شوق سے پوچھو کہ کیا گزری ترے دم پر
کسی نے منہ چُھپایا جب سرِ دیوار دامن سے

✍ مرزا محمد تقی بیگ مائلؔ دہلوی
دہلی مٹیا محل | ۱۸۵۰ – ۱۹۳۱
کُلیاتِ مائلؔ حصہ اول
 

زارا آریان

محفلین
دیوانگی میں اکثر اِک لُطف دے گیا ہے
پہروں خموش رہ کر زانوں پہ سَر جُھکانا

✍ مرزا علی رضا ضیاؔ عظیم آبادی
ریاضِ شاداب ۱۳۱۹ ھ
 

زارا آریان

محفلین
سُنا ہے اب تو اُن کی بزم میں بھی ذِکر ہوتا ہے
مرے کام آ گیا آخر مرا بد نام ہو جانا

✍ حامد اللہ افسرؔ
لکھنؤ، بھارت | ۱۸۹۵–۱۹۷۴
پیامِ رُوح
 
Top