جب رات کو تارے باری باری جاگتے ہیں
کئی ڈوبے ہوئے تاروں کی ندا کچھ کہتی ہے

کبھی بھور بھئے کبھی شام پڑے کبھی رات گئے
ہر آن بدلتی رت کی ہوا کچھ کہتی ہے

بیدار رہو بیدار رہو بیدار رہو
اے ہم سفرو آواز درا کچھ کہتی ہے

ناصر کاظمی
 
آنکھوں میں کٹی پہاڑ سی رات
سو جا دلِ بے قرار کچھ دیر

تکلیفِ غمِ فراق دائم
تقریبِ وصالِ یار کچھ دیر

یہ غنچہ و گل ہیں سب مسافر
ہے قافلۂ بہار کچھ دیر

دنیا تو سدا رہے گی ناصر
ہم لوگ ہیں یادگار کچھ دیر

ناصر کاظمی
 
دن کے ہنگاموں کو بیکار نہ جان
شب کے پردوں میں ہے کیا غور سے سن

دل تڑپ اٹھتا ہے کیوں آخر شب
دو گھڑی کان لگا غور سے سن

کیا گزرتی ہے کسی کے دل پر
تو بھی اے جانِ وفا غور سے سن

دل سے ہر وقت کوئی کہتا ہے
میں نہیں تجھ سے جدا غور سے سن

ہر قدم راہ طلب میں ناصرؔ
جرس دل کی صدا غور سے سن

ناصر کاظمی
 
بھر جائیں گے جب زخم تو آؤں گا دوبارا
میں ہار گیا جنگ مگر دل نہیں ہارا

اپنے لیے تجویز کی شمشیرِ برہنہ
اور اس کے لیے شاخ سے اک پھول اتارا

کچھ سیکھ لو لفظوں کو برتنے کا سلیقہ
اس شغل میں گزرا ہے بہت وقت ہمارا

ثروتؔ حسین
 
کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلا
اور ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلا

ہے شوقِ سفر ایسا اک عمر سے یاروں نے
منزل بھی نہیں پائی رستہ بھی نہیں بدلا

بے سمت ہواؤں نے ہر لہر سے سازش کی
خوابوں کے جزیرے کا نقشہ بھی نہیں بدلا

غلام محمد قاصر
 

شمشاد

لائبریرین
ہمارا کوہ غم کیا سنگ خارا ہے جو کٹ جاتا
اگر مر مر کے زندہ کوہ کن ہوتا تو کیا ہوتا
افسر الہ آبادی
 
Top