کبھی یہ بات بھی سوچی کہ منتظر آنکھیں
غبار رہ گزر میں اجڑ گئی ہو ں گی
نظر سے ٹوٹ چکے ہوں گے خواب کے رشتے
وہ ماہتاب سی نیندیں بچھڑ گئی ہوں گی
( مصطفی زیدی)
نہ ربط ہے نہ معانی، کہیں تو کس سے کہیں!
ہم اپنے غم کی کہانی، کہیں تو کس سے کہیں!
سلیں ہیں برف کی سینوں میں اب دلوں کی جگہ
یہ سوز درد نہانی ، کہیں تو کس سے کہیں!
( امجد اسلام امجد)
اپنا مطلب کھودیتی ہے دل میں رکھی بات
رونا ہے تو کھل کے رو اور جلنا ہے تو،جل
لمحوں کی پہچان یہی ہے، اڑتے جاتے ہیں
آنکھوں کی دہلیز پہ کیسے ٹھہر گیا ، وہ پل
( امجد اسلام امجد)
مجھ کو معلوم نہ تھی ، ھجر کی یہ رَمز ، کہ تُو
جب میرے پاس نہ ھو گا ، تو ھر سُو ھو گا
اِس توقّع پہ میں ، اب حشر کے دن گِنتا ھُوں
حشر میں، اور کوئی ھو کہ نہ ھو ، تُو ھو گا