فلک شیر بھائی ، یہاں خوشبو رسد کی وجہ سے دُور کی نہیں ،کب تک چلے گی دور کی خوشبو سے دوستی
دنیا اجاڑ ہوتی ہے جس دن ہوا نہ ہو
ظفر اقبال
شاہ صاحب! دور کی خوشبو تو دور ہی کی ہے.......مگر ہوا سے ہی امید ہے ظفر صاحب کو کہ اس کا شمہ قطرہ دامن میں ڈال دے گی........عدم تعاون کی صورت مین انہیں کل عالم ہی اندھیر دکھائی پڑتا ہے......ہجر میں یاس کا عالم ہے اور مصرعہ ثانی اس کی خوبصورت لفظی تصویر ہے......فلک شیر بھائی ، یہاں خوشبو رسد کی وجہ سے دُور کی نہیں ،
دوسری بات جب آپ" دور کی خوشبو" کی دوستی، کہیں گے تو قریب جانے پر بھی وہ دور ہی کی خوشبو رہے گی
یعنی اس مد میں کوشش یا پیش رفت بیکار ہے ، والی بات نظر آتی ہے ۔ میرے خیال میں ظفر صاحب کچھ یوں کہنا چاہتے تھے کہ:
دنیا اُجاڑ دے، نہ یہ دُوری کی دوستی !
خوشبو کہاں سے پہنچی گی جس دن ہوا نہ ہو
آپ کے ذوق کو دیکھ کر تبادلہ خیال کا سوجھا ، ورنہ کوئی اہم بات نہیں
اشعار شامل کرتے رہئے گا تو خوشی ہوگی
بہت خوش رہیں جناب
فلک شیر صاحب!شاہ صاحب! دور کی خوشبو تو دور ہی کی ہے.......مگر ہوا سے ہی امید ہے ظفر صاحب کو کہ اس کا شمہ قطرہ دامن میں ڈال دے گی........عدم تعاون کی صورت مین انہیں کل عالم ہی اندھیر دکھائی پڑتا ہے......ہجر میں یاس کا عالم ہے اور مصرعہ ثانی اس کی خوبصورت لفظی تصویر ہے......
آپ کا تصرف بڑا عمدہ ہے.......اور اگر مبالغہ نہ شمار ہو ، تو مجھے آپ کے مضمون اور ظفر صاحب کے مضمون میں کوئی فرق دکھائی نہیں پڑتا.....ہاں یہ ضرور کہ ظفر کے شعر میں بات تھوڑی رمز میں ہے .....جب کہ آپ کے بیت میں ترتیب بھی بدل گئی ہے اورسریت سے تھوڑا اعلانیہ کی طرف معاملہ چلا گیا ہے.......
لفظیاتِ ظفر کا یہی تو خاصہ ہے شاہ صاحب..... روایتی ڈکشن میں لفظ جو معانی دیتا ہے.....ظفر اسے اس کی مزید لسانی تشکیلات کے توسط سے نئے معانی دینے کے لیے ہمہ دم تیار رہتا ہے ......بلکہ شائق دکھائی پڑتا ہے......نیچے دیے گئے اشعار ملاحظہ کیجیے......فلک شیر صاحب!
تشکّر جواب کے لئے ، دراصل دُور (distance) کا، اِس اصطلاح میں استعمال میں نے نہیں دیکھا
ہمیشہ اسے object یا کسی relations کو ظاہر (define ) کرنے میں مستعمل دیکھا ہے، جیسے دُور کا دوست ، دُور کا عزیز
دُور کے ڈھول ، دُور کی بات وغیرہ ۔
دُور اس طرح استعمال کرنے کا مقصد اِس کے فی الفور تاثر کو کم کرنا ، اس کی اہمیت اور افادیت کو گھٹانا مقصود ہوتا ہے،یا یوں کہیں کہ ایسا لکھنا یوں ظاہر کرتا ہے ،
ظفر صاحب کے شعر سے اُن کے کہنے کا مقصد یا وہ مفہوم جو وہ کہنا چاہتے تھے
ظاہر ہے ! میری سمجھ میں آ تو گیا تھا اور تب ہی میں نے اِسے کسی اور طرز و بستگی سے ظاہر کیا ۔
ایسا کرنے میں ، میرا مقصد ان تمام عوامل یا صورتوں کا سدباب بھی کرنا تھا جو اِس قسم کی بندش سے میرے ذہن میں آئے یا ابُھرے
جو محض مابین گفتگو میں اپنا نکتہ نظر ظاہر کرنے کے سِوا کچھ نہ تھا ۔ دیگر صورت یا مفہوم کے لئے ہر لفظ کی نشت و برخاست
کو بغور دیکھنا ہوگا جیسے
: کب تک ، دور کی خوشبو، ہوتی ہے ، جس دن: وغیرہ
کب تک !
آپ نے شاید شعر کے اِس خفی پہلو پر غور نہیں کیا ، جس کی وجہ سے شاعر پر frustrated ہونےکاگمان یا شبہ ہوتاہے،کہ: "کب تک"
کب تک چلے گی دور کی خوشبو سے دوستی؟
یعنی اس سے یہ مفہوم بھی اخذ ہوتا ہے کہ متمنی اختمام ہے شاعر،
کہ بس ختم ہونا چاہیے، بہت ہو چکا ، کب تک ۔ till when
۔۔۔ اِس خیال کو دوسرا مصرع اور تقویت دیتا دکھائی دیتا ہے کہ
اس میں اس frustration کی وجہ صاف دکھائی گئی ہے یا نظر آتی ہے کہ :
دنیا اجاڑ ہوتی ہے جس دن ہوا نہ ہو
یعنی اس کیفیت یا مصیبت سےدوچار ہوئے ہیں، ہوتے ہیں، جب جب ہوا نہیں (چلتی) ہوتی ہے
، اور اب تلخ تجربہ ہونے پر ، ہوا نہ چلنے پر، اپنی دنیا کے اجڑنے پر سوچنے پر مجبور ہیں کہ :
کب تک ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
آپ کا بے حد ممنون ہوں کہ آپ نے جواب سے نوازہ اور تبادلہ خیال کیا
جو کہ ایک صحت مندانہ عمل ہے دیگر احباب اور لکھنے والوں کے لئے
تشکر ، بہت نوازش صاحب
آپ سے بات کر کے اچھا لگا
جناب فلک شیر صاحب!لفظیاتِ ظفر کا یہی تو خاصہ ہے شاہ صاحب..... روایتی ڈکشن میں لفظ جو معانی دیتا ہے.....ظفر اسے اس کی مزید لسانی تشکیلات کے توسط سے نئے معانی دینے کے لیے ہمہ دم تیار رہتا ہے ......بلکہ شائق دکھائی پڑتا ہے......نیچے دیے گئے اشعار ملاحظہ کیجیے......
لفظ پتوں کی طرح اڑنے لگے چاروں طرف
کیا ہوا چلتی رہی آج مرے چاروں طرف
پہلے تو ایک طرف بیٹھ گیا وہ آ کر
اور پھر ایک طرف اس نے کیے چاروں طرف
کوئی اطراف کی اب فکر اُسے کیا ہو گی
ساتھ ہی ساتھ جو پھرتا ہے لیے چاروں طرف
آسماں پر کوئی تصویر بناتا ہوں، ظفر
کہ رہے ایک طرف اور لگے چاروں طرف
سبحان اللہ......
رہی دوسری بات کہ frustrationہے اور کب تک کا رویہ .......تو یہ تو عصر حاضر کا خاصہ ہے......مجھے تو ظفر یہاں اپنے عہد کا نمائندہ دکھائی دیتا ہے........اوپر کی امثلہ میں "طرف " کا متعدد تناظرات اور معانی میں استعمال بھی میری نظر میں ظفر ہی کا کمال ہے۔
آپکی محبت کے لیے بے حد شکرگزار ہوں محترم شاہ صاحب
محترم شاہ صاحب......میں نے قطعاً آپ کی بات کا کوئی غلط تاثر نہیں لیا.........اور ایکک دو دھاگوں میں جو میں نے ظفر اقبا؛ پہ تنقید کرنے والوں کے بارے میں چند باتیں لکھی ہیں.......تو حاشا و کلا آپ کے متعلق نہیں......یہ آپ نے سوچا بھی کیسے.....جناب فلک شیر صاحب!
تشکّر جواب کے لئے، اور معذرت خواہ ہوں جو میرے لکھے یا کسی بات نے آپ کو یہ تاثر دیا کہ
جناب ظفر اقبال کی شاعری اچھی نہیں ہے یا مجھے پسند نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے ان کی کوئی
کتاب تاحال نہیں پڑھی ہے۔ انٹر نیٹ پر ہی اُنکی، کسی نے لگائی یا شیئر کردہ ایک آدھ تخلیق ہی ایک
نشت میں پڑھی ہوگی۔ سومیں انکے رنگ یا طرزِتحریر سے واقف نہیں۔
میں نے اپنا خیال یا محسوسات، صرف آپ کے لگائے اُن کے ایک شعر پرہی ظاہر کیا اور آپ کے جواب پر
مزید اس شعر پر اپنے ترردد کی وجوہات لکھیں ۔ جو کہ کلُی اس شعر پر ہی تھیں ۔اور صرف اسی تک ہی محدود تھیں
بالا آپ کے لکھے، جناب ظفر اقبال کے اشعار بہت اچھے اور خوب ہیں اور اس میں کوئی ایسی بات نہیں جو سمجھ نہ آ سکے
الفاظ ، تراکیب، اصطلاح، کچھ بھی، بظاہر یا خواندگی میں ایسا، یا ایسے نہیں کہ جس سے کچھ اور مطلب نکلتا یا نکلتے ہوں
تشکّر جواب اور اشعار شیئر کرنے پر ۔
ایک بار پھر میری معذرت قبول کیجئے اگر اس سے آپ نے کوئی اور تاثر لِیا
یا بات محسوس کی ۔
بہت خوش رہیں صاحب اور لکھتے رہیں
تشکّر فلک شیر صاحب!محترم شاہ صاحب......میں نے قطعاً آپ کی بات کا کوئی غلط تاثر نہیں لیا.........اور ایکک دو دھاگوں میں جو میں نے ظفر اقبا؛ پہ تنقید کرنے والوں کے بارے میں چند باتیں لکھی ہیں.......تو حاشا و کلا آپ کے متعلق نہیں......یہ آپ نے سوچا بھی کیسے.....
آپ جیسے ادب پرور اور انتہائی محترم دوستوں کے لیے یہ فقیر چشم براہ اور فرش راہ ہے..........
یہ معذرت والا لفظ آپ کو واپس لینا پڑے گا........
جناااااااااااااب سیدِ منتشکّر فلک شیر صاحب!
آپ خوش تو میں خوش ، آپ رنجیدہ تو میں آپ سے زیادہ
الله تعالیٰ ہم سب کو آپ کی طرح فراخ دل کرے، اور ہم پر اپنی رحمتیں قائم رکھے ۔
بہت خوش رہیں