وعلیکم السلام شاہ صاحب۔محترمی جناب سید عاطف علی صاحب!
السلام علیکم !
۔۔۔۔۔
ہم اردو والے روزمرہ میں اِسے دال موقوف کے ساتھ (پروردْ گار ) نہ بولتے ہیں نہ لکھتے ہیں
ہمارے استعمال میں یہ کسرہ کے ساتھ ہی ہے، محمد رفیع کا مشہور گانا "پروردِگارِ عالم تیرا ہی ہے سہارا " یا
آن لائن اردو لغت میں بھی اِسے پروردِگار ہی دِکھایا گیا ہے ، ہاں الگ سے یعنی گار ملائے بغیر ،صرف پروردْ کی
دال موقوف ہی دکھائی گئی ہے
یہاں کلک کر کے اردو لغت کا عکس دیکھیں
بہت خوش رہیں ۔۔۔
چلیے میرا ایک شعر سنیے آپ کی محبت کی نذر ۔تشکّر جواب کے لئے سید صاحب !
خورونوش کبھی بھی اردو میں رائج یا درست نہیں ہوگا، کیونکہ یہ اصل یعنی خورد و نوش کا ہم وزن نہیں
اس لئے شاعری میں اس کا خرد و نوش کا بدل ہونا یا متبادل لفظ رائج ہونا ممکن نہیں
تنباکو کی جگہ تمباکو ، اسی طرح سے
پروَردْ گار بدل کر پروَردِگار
یوں ہُوا کہ ہم وزن ہیں اِس لئے اِس رعایت سے آخرالذکر رائج ہوئے کہ بحر پر کوئی فرق نہیں پڑتا
تشکّر
بہت خوش رہیں
http://www.urduweb.org/mehfil/members/محمد-اسامہ-سَرسَری.6976/
وعلیکم السلام شاہ صاحب۔
شکریہ آپ کی وضاحت کا ۔ میرے خیال میں اردو لغت آنلائن کی سند درست نہیں ۔وہاں بھی فارسی پروردن اور گار کے لاحقے کا ذکر کیا گیا ہے لیکن د پر کسرہ لگادیا گیا ہے۔ ا سے بھی کوئی اہل علم درست کرکے ایڈٹ کر دے تو اس کا بھلا ہو۔مجھے یہ غلط لگتا ہے اگرچہ عوام میں رائج یہی ہے۔آپ اسے ذاتی رائے سمجھ کر نظر انداز بھی کر سکتے ہیں۔
باقی رفیع کے گانے کی سند کےبارے میں خاموشی اختیار کرتا ہوں۔ کہ میں نے قراءت کی روانی میں اسے مرزا رفیع سودا کا مصرع سمجھا ۔۔۔ ویسے آج کل جیو نیوز کے پڑھنے والے اشاء خورد و نوش کی "دال " کھا کر ۔اشیاء خورو نوش کہہ رہے ہیں کہیں یہ بھی آنے والی نسلوں میں رائج نہ ہو جائے۔اور انہیں کھانے کے لیے دال نہ ملے۔
اہل علم کی رائے بھی لے لی جائے ۔
محمد یعقوب آسی @محمد اسامہ سرسری @ الف عین اور دیگر اصحاب
جناب وہاں تو زلزلہ متاثرین کے لیے اشیائے خورو نوش کا ذکر ہے۔آہا، سید صاحب! ان بے چاروں کو ’’دال‘‘ تو کھا لینے دیجئے۔ پانی تو اپنی مرضی کا ڈال سکتے ہیں۔
ویسے لسانی اور لفظیاتی اعتبار سے ’’خور و نوش‘‘ درست ہے۔تاہم اس کا معنٰی ہو گا: کھاؤ اور پیو۔ (دونوں فعل امر)
’’پروردِگار‘‘ کی ساخت میں ’’دال‘‘ پر کسرہ اگر اہلِ فارس کے ہاں ہے تو وہ درست ہو گا۔http://www.urduweb.org/mehfil/members/محمد-اسامہ-سَرسَری.6976/
وعلیکم السلام شاہ صاحب۔
شکریہ آپ کی وضاحت کا ۔ میرے خیال میں اردو لغت آنلائن کی سند درست نہیں ۔وہاں بھی فارسی پروردن اور گار کے لاحقے کا ذکر کیا گیا ہے لیکن د پر کسرہ لگادیا گیا ہے۔ ا سے بھی کوئی اہل علم درست کرکے ایڈٹ کر دے تو اس کا بھلا ہو۔مجھے یہ غلط لگتا ہے اگرچہ عوام میں رائج یہی ہے۔آپ اسے ذاتی رائے سمجھ کر نظر انداز بھی کر سکتے ہیں۔
باقی رفیع کے گانے کی سند کےبارے میں خاموشی اختیار کرتا ہوں۔ کہ میں نے قراءت کی روانی میں اسے مرزا رفیع سودا کا مصرع سمجھا ۔۔۔ ویسے آج کل جیو نیوز کے پڑھنے والے اشاء خورد و نوش کی "دال " کھا کر ۔اشیاء خورو نوش کہہ رہے ہیں کہیں یہ بھی آنے والی نسلوں میں رائج نہ ہو جائے۔اور انہیں کھانے کے لیے دال نہ ملے۔
اہل علم کی رائے بھی لے لی جائے ۔
محمد یعقوب آسی @محمد اسامہ سرسری @ الف عین اور دیگر اصحاب
میرے خیال میں تو اہل فارس کا کسرہ ان کے علاقائی لہجات کے تابعاور متغیر ہوتا ہے۔ مثلا" ریحانہ کا لہجہ ریحاؤنے خا نہ کا لہجہ خاؤنے ۔کی طرح کاسا ہو تا ہے۔۔۔۔جان کو کچھ ایرانی۔ جون ۔۔۔مہینے والا جون ۔۔۔ ۔اور خانم کو خونم بھی کہتے ہیں لیکن لکھا الف کے ساتھ ہی جاتا ہے۔۔۔۔۔۔(میرے ایرانی کلاس فیلو ایسے ہی کہا کرتے تھے) ۔۔۔۔ اسے کسرہ غالبا" نہیں کہا جاسکتا البتہ آدھے زیر کی حرکت بہ حالت مجبوری کہہ لیا جائے تو اور بات ہے۔۔۔۔۔درست لفظ کو اصل سے ہی جانچا جائے گا۔۔۔یہاں مذکورہ لفظ میں گار کا لاحقہ ۔۔پروردہ۔۔ پر نہیں بلکہ۔۔ پرورد۔۔ کے ساتھ لگا ہے لہذا کسرہ کی گجنائش نہیں بنتی ۔ ۔۔۔’’پروردِگار‘‘ کی ساخت میں ’’دال‘‘ پر کسرہ اگر اہلِ فارس کے ہاں ہے تو وہ درست ہو گا۔
دلیل یہ ہے کہ: اردو میں ہم مثال کے طور پر ’’کردہ، گزشتہ، رفتہ، ستارہ، شہزادہ، وغیرہ حرف ماقبل ہائے آخر مفتوح کے ساتھ بولتے ہیں ان کو فارسی والے حرف ماقبل ہائے آخر مکسور کے ساتھ بولتے ہیں۔ وہ ’’پروردَہ‘‘ نہیں ’’پروردِہ ‘‘ کہیں گے، اور اس رعایت سے ہائے آخر کی جگہ گاف آ جانے سے ’’پروردِگار، پروردِگان‘‘ فارس کے لہجے کے مطابق درست ہے۔
بہتر ہے فارسی والے کسی دوست کی رائے لے لی جائے۔ یہ بھی درست ہے کہ اردو والے یہاں فتحہ بولتے ہیں۔
غالبا خورد و نوش دونوں حاصل مصدر ہیں اور حاصل مصدر جیسے امر کے واحد حاضر کے وزن پر آتا ہے ویسے ہی ماضی کے واحد غائب کے وزن پر بھی بنتا ہے۔آہا، سید صاحب! ان بے چاروں کو ’’دال‘‘ تو کھا لینے دیجئے۔ پانی تو اپنی مرضی کا ڈال سکتے ہیں۔
ویسے لسانی اور لفظیاتی اعتبار سے ’’خور و نوش‘‘ درست ہے۔تاہم اس کا معنٰی ہو گا: کھاؤ اور پیو۔ (دونوں فعل امر)