طارق شاہ

محفلین

بَھلا ہُوا کہ، ہَمَیں یوں بھی کوئی کام نہ تھا
جو ہاتھ ٹُوٹ گئے، ٹُوٹنے کے قابِل تھے


ناصر کاظمی
 

طارق شاہ

محفلین

کبھی روئے ، کبھی تُجھ کو پُکارا
شبِ فُرقت بڑی مُشکل سے گزُری


ہوائے صُبْح نے چونْکا دِیا، یُوں !
تِری آواز جیسے دِل سے گزُری

ناصر کاظمی

 

ماہی احمد

لائبریرین
رات یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئی۔۔۔
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے۔۔۔
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم۔۔۔
جیسے بیمار کو بےوجہ قرار آجائے۔۔۔
(فیض)
 

طارق شاہ

محفلین

ہوگا سُکوں بھی ہوتے ہوتے
سو جاؤں گا، روتے روتے

آخر دِل ہے، ٹھہر جائے گا
شام و سحر کے ہوتے ہوتے


تابش دہلوی
 

طارق شاہ

محفلین

بزمِ عالم کو فرصتِ انجام !
میری نیّت میں انقلاب ہے آج

متغیّر ہےعالمِ جذبات
کون اِس دل میں باریاب ہے آج


سیماب اکبرآبادی
 

طارق شاہ

محفلین

زندگی جس میں سانس لیتی تھی
وہ زمانہ خیال و خواب ہے آج

مِٹ گئے دِل کے وَلوَلے سیماب
ختم افسانۂ شباب ہے آج

سیماب اکبرآبادی
 

طارق شاہ

محفلین

مِری فِطرت وفا ہے، دے رہا ہُوں اِمتحاں پھر بھی
وہ فطرت آشنا ہے، اور مجھ سے بدگماں پھر بھی


سیماب اکبر آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

بہت دِلچسپ ہے سیماب! شامِ وادئ غُربت
وطن کی صبح میں، کچھ اور تھیں رنگینیاں پھر بھی


سیماب اکبر آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

گُل سے افزوں مِری آنکھوں میں ہیں دل جُو کانٹے
پُھول رکھتے ہیں تِری بُو، تو تِری خُو کانٹے


حیدرعلی آتش
 

طارق شاہ

محفلین
اور آجکل کی موسمی صورت حال کو دیکھ کر یہ شعر کہ :

نہ تو بُلبُل نظر آتا ہے چمن میں، نہ تو گُل
اِک طرف برگِ خزاں ڈھیر ہیں اِک سُو کانٹے


حیدرعلی آتش
 

طارق شاہ

محفلین

کوئی یار جاں سے گزُرا، کوئی ہوش سے نہ گزُرا
یہ ندیمِ یک دو ساغر، مِرے حال تک نہ پہنچے


فیض احمد
فیض
 
Top