طارق شاہ

محفلین

دل نا اُمید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے
لبمی ہے غم کی شام، مگر شام ہی تو ہے

دستِ فلک میں گردشِ تقدیر تو نہیں
دستِ فلک میں گردشِ ایّام ہی تو ہے


فیض احمد
فیض
 

طارق شاہ

محفلین

رنگِ بہار، نظمِ چمن، ہم سے ہی رہا
پھر بھی ہمِیں سے اہلِ چمن بدگماں رہے

ایسا بھی ایک دور رہا، میری زیست کا !
ذرّے بھی اِس جہاں کے مِرے ہم زباں رہے


انورخاں انورجالنوی
 

طارق شاہ

محفلین

سُناؤں کیا کِسی کو میں، سُنے گا کوئی کیا میری
نہ وہ عالم ہے اب میرا، نہ وہ دل بستگی میری

تمہیں تو ایک ساعت کے لئے بُھولا نہیں ہُوں میں
مگر کہیے، تمہیں بھی یاد ، کیا آئی کبھی میری


شمس مینائی
 

طارق شاہ

محفلین

وہی دورِ زماں ہے اور میں ہوں
وہی رسمِ فُغاں ہے اور میں ہوں

فریبِ رنگ و بُو ہے اور تم ہو
بہارِ صد خزاں ہے اور میں ہوں


مجید امجد
 

طارق شاہ

محفلین

دل سے ہر گزُری بات گزُری ہے
کِس قیامت کی، رات گزُری ہے

چاندنی، ۔۔ نیم وا دریچہ، سکوت
آنکھوں آنکھوں میں رات گزُری ہے

مجید امجد
 

طارق شاہ

محفلین

اے تِیرگیوں کی گُھومتی رَو ، کوئی تو رسیلی صُبْح
اے روشنیوں کی ڈولتی لو ، اِک شام ، نشیلی شام


مجید امجد
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

نہ شاخِ گُل پہ نشیمن، نہ رازِ گُل کی خبر !
وہ کیا رہا ، جو جہاں میں، ۔ قللندرانہ ۔ رہا


مجید امجد
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین


رہے یوں ناز اپنے ذہن پر، لاحق غموں میں بھی !
خوشی کا اِک نہ اِک پہلو یہ تاہم ڈھونڈ لیتا ہے

خیالِ یار ہی درماں غمِ فرقت کی زخموں کا !
کہ بیتے ساتھ لمحوں سے یہ مرہم ڈھونڈ لیتا ہے


شفیق خلش
 

طارق شاہ

محفلین

یہ ہرایک سمت مسافتوں میں گندھی پڑی ہیں جو ساعتیں!
تِری زندگی، مِری زندگی، اِنهی موسموں کی شمیم ہے

مجید امجد
 

طارق شاہ

محفلین

کہِیں محْملوں کا غبار اُڑے، کہیں منزلوں کے دِیے جلیں
خَمِ آسماں، رہِ کارواں ! نہ مُقام ہے، نہ مقیم ہے

مجید امجد
 

طارق شاہ

محفلین

حرم اور دِیر فسانہ ہے، یہی جلتی سانس زمانہ ہے!
یہی گوشۂ دلِ نا صبور ہی، کنُجِ باغِ نعیم ہے

مجید امجد
 

طارق شاہ

محفلین

خِزاں کے دور میں لُطفِ بہار لیتا ہُوں
غمِ حیات کو، ہنس کر گزُار لیتا ہُوں

گُلوں سے رنگ، سِتاروں سے روشنی لے کر
جمالِ یار کا نقشہ اُتار لیتا ہُوں


ساغر صدیقی
 

طارق شاہ

محفلین

وہ تو بس وعدۂ دِیدار سے بہلانا تھا
ہم کوآنا تھا یقیں، اُن کو مُکر جانا تھا

لاکھ ٹُھکرایا ہمیں تُو نے، مگر ہم نہ ٹلے
تیرے قدموں سےالگ ہو کےکہاں جانا تھا

نصیر احمد نصیر
 

طارق شاہ

محفلین

جن سے نیکی کی توقع ہو، وُہی نام دھریں
ایک یہ وقت بھی، قسمت میں مِری آنا تھا

بے سبب ترکِ تعلق کا بڑا رنج ہُوا !
لاکھ رنجش سہی، اِک عمر کا یارانہ تھا

نصیر احمد نصیر
 
Top