طارق شاہ

محفلین

خیالِ یار میں مرنا وصال سمجھا ہُوں
زبان بند ہُوئی وصل کی دُعا کرکے

مِلی ہے دولتِ دیدار دل کے صدقے میں
رہیں گے آج تو ہم جان بھی فدا کرکے

بیخود دہلوی
 

طارق شاہ

محفلین

عطا ہو یا نہ ہو کُچھ ، ہم کو اِس سے کیا مطلب
غرور ہم کو مِٹانا ہے التجا کرکے

غرورِ کبر نے آخر گناہگار کیا
ڈبو دیا مجھے مشہور پارسا کرکے


بیخود دہلوی
 

طارق شاہ

محفلین

کیا عجب بات ہو گئی سائیں
نفی اثبات ہو گئی سائیں

دل ہراِک امتحاں میں جیت گیا
عقل کو مات ہو گئی سائیں

آپ ہم کو نصیب کیا ہوتے
کچھ کرامات ہوگئی سائیں

باقر زیدی
 

طارق شاہ

محفلین

حالِ دل نا سازگار بھی تو نہیں
پر دِلوں کو قرار بھی تو نہیں

کوئی کچّے گھڑے پہ کیا تیرے
عشق دریا کے پار بھی تو نہیں

ہارنا چاہتے ہیں دل اپنا
اپنی قسمت میں ہار بھی تو نہیں


باقر زیدی
 

طارق شاہ

محفلین

اپنی مٹّی کو چھوڑنے والے
بے سبب بے دیار بھی تو نہیں

مرگِ انبوہ جشنِ عام بنا
اب کوئی سوگوار بھی تو نہیں

باقر زیدی
 
Top