طارق شاہ

محفلین

اِن دنوں بخت نارسا ہے کُچھ !
چاہتا کُچھ ہوں ہو رہا ہے کُچھ


یہ زمین مصحفی کی اچھی ہے
کُچھ کی تکرار میں مزہ ہے کُچھ
باقر زیدی
 

طارق شاہ

محفلین

دِلوں میں حوصلہ اب بھی ہے ٹوٹ جانے کا
مزاجِ یار میں اگلا سا بانکپن تو رہے

باقر زیدی
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

بالیں پہ کہیں رات ڈھل رہی ہے
اک سُخن مطربِ زیبا کہ سلگ اُٹھے بدن
جرس گُل کی صدا
فرشِ نو میدئ دیدار
ٹوٹی جہاں جہاں پہ کمند



بالیں پہ کہیں رات ڈھل رہی ہے
یا شمع پگھل رہی ہے
پہلو میں کوئی چیز جل رہی ہے
تم ہو کہ مری جاں نکل رہی ہے

فیض احمد فیض
 

طارق شاہ

محفلین

نسخۂ الفت میرا
اگر کسی طور، ہراِک الفتِ جاناں کا خیال
شعر میں ڈھل کے ثنائے رُخِ جانانہ بنے
پھر تو یُوں ہو کہ مِرے شعر وسُخن کا دفتر
طول میں طولِ شبِ ہجر کا افسانہ بنے
ہے بہت تشنہ مگر نسخۂ اُلفت میرا
اس سبب سے کہ ہر اک لمحۂ فرصت میرا
دل یہ کہتا ہے کہ ہو قربتِ جاناں میں بسر

فیض احمد فیض
 

طارق شاہ

محفلین

تھم تھم کے اُن کے کان میں پہنچی صدائے دل
اُڑ اُڑ کے رنگِ چہرہ مِرا نامہ بر ہُوا

سِینے میں پھر بھڑکنے لگی آتشِ فراق
دامن میں پھر مُعاملۂ چشمِ تر ہُوا

رگ رگ نے صدقے کر دیا سرمایۂ شکیب
اللہ ، کِس کا خانۂ دل میں گزُر ہُوا

جگرمُراد آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

فریاد کیسی ، کِس کی شکایت ، کہاں کا حشر
دنیا اُدھر کی ٹوٹ پڑی وہ جدھر ہُوا

حسرت اُس ایک طائرِ بے کس پر ، اے جگر
جو فصلِ گل کے آتے ہی بے بال و پر ہُوا

جگرمُراد آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

پُر ہے تیرے ذکر سے اپنی حدیثِ زندگی
اِس میں بُھولے سے اگر دل کا بھی نام آیا تو کیا

آنند نرائن ملّا
 

طارق شاہ

محفلین

ہم آہنگی بھی تیری، دُورئ قربت نُما نِکلی
کہ تجھ سے مِل کے بھی تجھ سے مُلاقاتیں نہیں ہوتیں

فراق گورکھپوری
 
Top