"متفق" کی ریٹنگ کے لئے بہت شکریہ جناب
سلمان دانش جی
مشتاق عاجز کی کتاب "سمپورن" میرے نزدیک دوہے کا ایک مؤقر مجموعہ ہے۔ اس کا اسلوب پوربی اور اردو کا امتزاج ہے؛ ہماری متداول اردو کہیں غالب نہیں ہے االبتہ پوربی کا اثر نمایاں ہے؛ اور غالباً یہی اس کے حسنِ بیان کا بنیادی عنصر بھی ہے (دوہا اصلاً پورب سے پھوٹا ہے)؛ اپنی روایت کے ساتھ جڑی ہوئی شاعری کی اپنی ایک چاشنی ہوتی ہے۔ کتاب میں شامل دوہوں کی چال (اوزان) کا مطالعہ بھی کئے لیتے ہیں۔
سَکھیاں پوچھیں روگ جیا کا، اکھیاں کھولیں بھید
چپ سادھوں تو آہیں نکلیں سینے میں سو چھید
نیر بہاؤں پیاس بجھاؤں دیکھوں پی کی باٹ
چولھا چوکا چھوڑ کے بیٹھی دوار بچھائی کھاٹ
ماتھے بندیا آن سجاؤ، مانگ بھرو سیندور
جھولا آن جلاؤ متوا، امبوا لاگا بور
کتاب میں شامل سارے عروض کے قریب ترین وزن "فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن مفعولات" پر ہیں، جن کے آخر میں ہجائے کوتاہ کا اہتمام دکھائی دے رہا ہے۔ اس وقت کتاب میرے سامنے نہیں (ایک دوست مانگ کر لے گئے ہیں، دعا کیجئے کہ واپس بھی کر دیں)۔ میرے مضمون
"امبوا لاگا بور" میں کچھ دوہے ایسے بھی شامل ہیں جن کے آخر میں ہجائے بلند (سببِ خفیف) واقع ہوا ہے "فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن مفعولن"۔
ماٹی کو گلزار بنا لے، بیج لگن کا بو
آنکھوں سے برسا وہ برکھا ماٹی جل تھل ہو
بھور بھئے گھر آنگن چھوڑا جا نکلا کت جا
سونا آنگن باٹ نہارے سانجھ بھئی گھر آ
منوا چاہے یوں ہو جائے پی چاہے یوں ہو
جو پی چاہے سو ہو جائے من چاہا کیوں ہو
بابل کا گھر چھوڑ کے گوری سنگ پیا کے جا
پریتم توہے لینے آئے پریت کی ریت نبھا
۔۔۔۔ جاری ہے