بہت شکریہ ٹیگ کرنے کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ میری پہلی کوشش ہے ۔۔ اس کو دیکھئے اگر درست ہوا تو اور لکھوں گی ان شاء اللہ


میں جوگن سرکار کی ، ذات کی میں ہوں نیچ
وصف تیرا کیسے ہو بیاں ،رب تیرا ممددوح

نور​
صاحبہ دوہے کے دونوں مصرعوں میں اختتام میں ہم قافیہ الفاظ ضروری ہیں
 

نور وجدان

لائبریرین
بہت شکریہ ٹیگ کرنے کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ میری پہلی کوشش ہے ۔۔ اس کو دیکھئے اگر درست ہوا تو اور لکھوں گی ان شاء اللہ



میں جوگن سرکار کی،نیچی میری ذات
وصف ان کا کیسےہوبیاں،میری کیا اوقات
نور​
 
آخری تدوین:
دوہے کے اوزان پر میرا کوئی مطالعہ ہے ہی نہیں، کیا عرض کروں۔
یہ ضرور ہے کہ پنجاب سے ماہیا اور بولی، پورب سے دوہا اردو میں مقبول ہونے والی اصناف میں سرِفہرست ہیں۔ ان اصناف کو چھند اور پنگل پر پرکھیں تو عروض کی نسبت آسان ہو گا۔ ایک ایک یا جتنی بھی چالیں حاصل ہوتی ہیں یا مقبول یا مانوس قرار پاتی ہیں، ان کے نزدیک ترین عروضی اوزان اپنا لئے جائیں۔ مطلب یہ ہے کہ لوک اصناف میں علاقائی لب و لہجہ کے زیرِ اثر ایک سے زائد چالیں رواج پا چکی ہوتی ہیں۔ اور ہم کسی کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے۔
ایسی اصناف میں براہِ راست عروضی مباحث کسی قدر مشکل ہو سکتے ہیں، جیسے المعروف "میر کی بحر" کا معاملہ ہے۔
قبلہ آسی صاحب! جناب عبید صاحب کے اعتراض کے مطابق دوہے کے اختتامی حرف کا ساکن ہونا شرط ہے۔ جبکہ میں نے اس حوالے سے جمیل الدین عالی، بھگت کبیر اور دوسرے شعرا کے دوہوں کی مثالیں پیش کی ہیں کہ آخری حرف ساکن ہونا ضروری نہیں ان کو اختتامی "ی" ، "یے" اور "ئیں" گرا کر جلائیں، کہلائے، دکھائیں، آئی، دکھائی ، کھلائے، آئے جیسے الفاظ پر بھی ختم کیا جا سکتا ہے۔ ریفرنس کیلئے اس لنک پر جمیل الدین عالی مرحوم کے دوہے موجود ہیں۔ اس "آخری حرف" کے بارے آپ کی رائے درکار ہے
https://rekhta.org/ebooks/dohe-jameeluddin-aali-ebooks?lang=Ur
 
قبلہ آسی صاحب! جناب عبید صاحب کے اعتراض کے مطابق دوہے کے اختتامی حرف کا ساکن ہونا شرط ہے۔ جبکہ میں نے اس حوالے سے جمیل الدین عالی، بھگت کبیر اور دوسرے شعرا کے دوہوں کی مثالیں پیش کی ہیں کہ آخری حرف ساکن ہونا ضروری نہیں ان کو اختتامی "ی" ، "یے" اور "ئیں" گرا کر جلائیں، کہلائے، دکھائیں، آئی، دکھائی ، کھلائے، آئے جیسے الفاظ پر بھی ختم کیا جا سکتا ہے۔ ریفرنس کیلئے اس لنک پر جمیل الدین عالی مرحوم کے دوہے موجود ہیں۔ اس "آخری حرف" کے بارے آپ کی رائے درکار ہے
https://rekhta.org/ebooks/dohe-jameeluddin-aali-ebooks?lang=Ur

عرض کر چکا ہوں کہ
دوہے کے اوزان پر میرا کوئی مطالعہ ہے ہی نہیں، کیا عرض کروں۔
یاد آوری کے لئے ممنون ہوں۔ دعاؤں میں بھی یاد رکھئے گا۔
 

نور وجدان

لائبریرین
ایک اور کاوش نظر فرمائیں ۔۔۔

احمد فلک کا نور ہیں ، چاند سبھی تاروں کے
تقسیم رحمت ہوتی ہے ان کے اشاروں سے
 
آخری تدوین:
"آخری حرف ساکن" سے کیا مراد ہے؟ آپ شاید "آخری حرف ہجائے کوتاہ" کہنا چاہ رہے ہیں؟
قبلہ آسی صاحب آپ علوم عروض اور زبان و بیان کا وہ سمندر ہیں جس سے مجھ جیسے ہزاروں پیاسے دشت سیراب ہوتے ہیں۔ مجھ جیسا نوآموز بچونگڑا کیا جانے ان اوکھی شوکھی اصطلاحات کو۔ مجھے آپ سے صرف اس بارے رائے مطلوب ہے کہ میرے ان مصرعوں میں سوالی ( فعول -121) اور عالی ( فاع-12) کو درست باندھا گیا یا غلط۔ قبلہ عبید صاحب کا غالبا کہنا ہے کہ دوہا میں سوال اور عال درست ہے سوالی اور عالی نہیں باندھ سکتے، یعنی آخری لفظ کی "ی" گرانا درست نہیں۔ جبکہ جمیل الدین عالی، بھگت کبیر، رتن سنگھ اور دوسرے نامور شعرا نے آخری "ی"۔ "یے" گرا کر ، کیاری، دلاری، مالی، جائے، آئے، پائے، آئی، منائی، مناؤں، پاؤں، جیسے تمام الفاظ استعمال کئے۔
در در بھیک وہ مانگے کیوں ، جو تیرا ہے سوالی
بعد از مالک ِ دو جہاں ، تو دو جگ میں ہے عالی​
میں سمجھتا ہوں کہ عروض کے جو قوانین غزل، نظم اور گیت کیلیے ہیں وہی دوہے کیلیے بھی ہیں۔ کیونکہ تمام جانے پہچانے دوہا نگاروں نے ایسے ہی لکھا ہے
میں آپ کو اور عبید صاحب کو شاعری کی علوم کے حوالے سے ایک اتھارٹی مانتا ہوں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ آپ سمیت ہمارے سینئر اساتذہ نے دوہا پر کوئی زیادہ شفقت نہیں فرمائی ۔ اس حوالے سے یہ سہرہ شاکر القادری صاحب کے سر بندھتا ہے کہ انہوں نعتیہ سخن کے فروغ کے ساتھ ساتھ دوہا کے علوم کو بھی جگانے کی سعی فرمائی ہے۔ آپ کا بھلا ہو ، اس عالمِ پیری میں بھی شیر جوان بنے علم بانٹتے رہیں۔
 
"آخری حرف ساکن" سے کیا مراد ہے؟ آپ شاید "آخری حرف ہجائے کوتاہ" کہنا چاہ رہے ہیں؟
"متفق" کی ریٹنگ کے لئے بہت شکریہ جناب سلمان دانش جی

مشتاق عاجز کی کتاب "سمپورن" میرے نزدیک دوہے کا ایک مؤقر مجموعہ ہے۔ اس کا اسلوب پوربی اور اردو کا امتزاج ہے؛ ہماری متداول اردو کہیں غالب نہیں ہے االبتہ پوربی کا اثر نمایاں ہے؛ اور غالباً یہی اس کے حسنِ بیان کا بنیادی عنصر بھی ہے (دوہا اصلاً پورب سے پھوٹا ہے)؛ اپنی روایت کے ساتھ جڑی ہوئی شاعری کی اپنی ایک چاشنی ہوتی ہے۔ کتاب میں شامل دوہوں کی چال (اوزان) کا مطالعہ بھی کئے لیتے ہیں۔
سَکھیاں پوچھیں روگ جیا کا، اکھیاں کھولیں بھید
چپ سادھوں تو آہیں نکلیں سینے میں سو چھید
نیر بہاؤں پیاس بجھاؤں دیکھوں پی کی باٹ
چولھا چوکا چھوڑ کے بیٹھی دوار بچھائی کھاٹ
ماتھے بندیا آن سجاؤ، مانگ بھرو سیندور
جھولا آن جلاؤ متوا، امبوا لاگا بور
کتاب میں شامل سارے عروض کے قریب ترین وزن "فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن مفعولات" پر ہیں، جن کے آخر میں ہجائے کوتاہ کا اہتمام دکھائی دے رہا ہے۔ اس وقت کتاب میرے سامنے نہیں (ایک دوست مانگ کر لے گئے ہیں، دعا کیجئے کہ واپس بھی کر دیں)۔ میرے مضمون "امبوا لاگا بور" میں کچھ دوہے ایسے بھی شامل ہیں جن کے آخر میں ہجائے بلند (سببِ خفیف) واقع ہوا ہے "فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن مفعولن"۔
ماٹی کو گلزار بنا لے، بیج لگن کا بو
آنکھوں سے برسا وہ برکھا ماٹی جل تھل ہو
بھور بھئے گھر آنگن چھوڑا جا نکلا کت جا
سونا آنگن باٹ نہارے سانجھ بھئی گھر آ
منوا چاہے یوں ہو جائے پی چاہے یوں ہو
جو پی چاہے سو ہو جائے من چاہا کیوں ہو
بابل کا گھر چھوڑ کے گوری سنگ پیا کے جا
پریتم توہے لینے آئے پریت کی ریت نبھا
۔۔۔۔ جاری ہے​
 
مجھ جیسا نوآموز بچونگڑا کیا جانے ان اوکھی شوکھی اصطلاحات کو۔ مجھے آپ سے صرف اس بارے رائے مطلوب ہے کہ میرے ان مصرعوں میں سوالی ( فعول -121) اور عالی ( فاع-12) کو درست باندھا گیا یا غلط۔
مطالعہ بہت ضروری ہے بھائی! اور یہ ہم سب کی علمی مجبوری ہے۔ مطالعے کا کوئی بدل نہیں ہے نہ علم میں شارٹ کٹ ہوتے ہیں۔ آپ کا یہ صرف محلِ نظر ہے۔
 

ہندوستانی لہجہ کہہ لیجئے یا مقامی لہجہ کہہ لیجئے؛ یا سیدھا سیدھا پنجابی اور پوربی کہہ لیجئے۔ اس میں وہ لچک بھی ہوتی ہے جسے اردو کا رسمی عروض قبول نہیں کرتا یا اگر کرتا ہے تو مستثنیات اور زحافات کے حساب میں لے کر قبول کرتا ہے۔ یہ جو آخری ایک آزاد ہجا (ہجائے کوتاہ) کا فرق میں نے اوپر بیان کیا ہے، اس کے پیچھے وہی لچک کا عنصر بھی کار فرما ہے۔ صرف مصرعے کے آخر میں نہیں، مصرعے کے اندر بھی اس کی بہت مثالیں میسر ہیں۔ ہیر وارث شاہ اور سیف الملوک کا مطالعہ کیجئے، پنجابی کے ماہئے اور بولی کا مطالعہ کیجئے تو بہت کچھ کھلتا ہے۔ چھند اور پنگل میں اس لچک کی جگہ عنصری طور پر موجود ہے۔ عروض میں بھی ہے مگر شاذ ہے۔ بحرِ مزدوج (پروفیسر غضنفر) اس کی بہت عمدہ مثال ہے۔ مگر اس کا کیا علاج کہ پروفیسر غضنفر کو تو یار لوگوں نے "باغی" قرار دے دیا!

آپ کے سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ دو اوزان جو میں نے اوپر نقل کئے ہیں، یہ تو دوہے میں مروج ہیں۔ سو، دونوں کو اعتبار دیجئے۔

۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے​
 

دوہے کا ایک اور وزن میرے علم میں ہے۔ کسی نے کہا یہ امیر خسرو کا ہے، کسی نے کہا یہ میراں بائی کا ہے۔ جس کا بھی ہے نقل کئے دیتا ہوں:
کاگا سب تن کھائیو چن چن کھائیو ماس
دو نیناں مت کھائیو انہیں پیا ملن کی آس​
"وسرام" کی گنجائش سے قطع نظر اس کا قریب ترین عروضی وزن ہے: "فعلن فعلن فاعلن فعلن مفعولات" جو مشتاق عاجز کے دوہوں سے خاصا مختلف ہے۔ شروع میں ایک دوست نے دوہے کے کچھ "عروضی" اوزان لکھے ہیں۔ امید کرنی چاہئے کہ وہ سارے درست ہیں اور کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی وزن مستعمل ہے یا رہا ہے۔
قاعدہ: ایک بات اگر میرے علم میں نہیں تو اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ "وہ بات ہے ہی نہیں"!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دعاؤں کا طالب رہا کرتا ہوں۔
 
"متفق" کی ریٹنگ کے لئے بہت شکریہ جناب سلمان دانش جی

مشتاق عاجز کی کتاب "سمپورن" میرے نزدیک دوہے کا ایک مؤقر مجموعہ ہے۔ اس کا اسلوب پوربی اور اردو کا امتزاج ہے؛ ہماری متداول اردو کہیں غالب نہیں ہے االبتہ پوربی کا اثر نمایاں ہے؛ اور غالباً یہی اس کے حسنِ بیان کا بنیادی عنصر بھی ہے (دوہا اصلاً پورب سے پھوٹا ہے)؛ اپنی روایت کے ساتھ جڑی ہوئی شاعری کی اپنی ایک چاشنی ہوتی ہے۔ کتاب میں شامل دوہوں کی چال (اوزان) کا مطالعہ بھی کئے لیتے ہیں۔
سَکھیاں پوچھیں روگ جیا کا، اکھیاں کھولیں بھید
چپ سادھوں تو آہیں نکلیں سینے میں سو چھید
نیر بہاؤں پیاس بجھاؤں دیکھوں پی کی باٹ
چولھا چوکا چھوڑ کے بیٹھی دوار بچھائی کھاٹ
ماتھے بندیا آن سجاؤ، مانگ بھرو سیندور
جھولا آن جلاؤ متوا، امبوا لاگا بور
کتاب میں شامل سارے عروض کے قریب ترین وزن "فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن مفعولات" پر ہیں، جن کے آخر میں ہجائے کوتاہ کا اہتمام دکھائی دے رہا ہے۔ اس وقت کتاب میرے سامنے نہیں (ایک دوست مانگ کر لے گئے ہیں، دعا کیجئے کہ واپس بھی کر دیں)۔ میرے مضمون "امبوا لاگا بور" میں کچھ دوہے ایسے بھی شامل ہیں جن کے آخر میں ہجائے بلند (سببِ خفیف) واقع ہوا ہے "فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن مفعولن"۔
ماٹی کو گلزار بنا لے، بیج لگن کا بو
آنکھوں سے برسا وہ برکھا ماٹی جل تھل ہو
بھور بھئے گھر آنگن چھوڑا جا نکلا کت جا
سونا آنگن باٹ نہارے سانجھ بھئی گھر آ
منوا چاہے یوں ہو جائے پی چاہے یوں ہو
جو پی چاہے سو ہو جائے من چاہا کیوں ہو
بابل کا گھر چھوڑ کے گوری سنگ پیا کے جا
پریتم توہے لینے آئے پریت کی ریت نبھا
۔۔۔۔ جاری ہے​
بنگلہ نار
جمیل الدین عالی - ( ۱۹۵۹ )

باتیں بہت سنیں عالیؔ کی، اب سُن لو یہ بانی
جس نے بنگلہ نار نہ دیکھی، وہ نہیں پاکستانی

ہولے ہولے نوکا ڈولے، گائے ندی بھٹیالی
گیت کِنارے، دوہے لہریں، اب کیا کہوے عالیؔ

پیچھے ناچیں ڈاب کے پیڑ، اور آگے پان سُپاری
اِنھی ناچوں کی تھاپ سے اُبھرے سانوری بنگلہ ناری

سانوری بنگلہ ناری جس کی آنکھیں پریم کٹورے
پریم کٹورے جن کے اندر کِن کِن دُکھوں کے ڈورے

دُکھوں کے ڈورے مِٹ جائیں گے جب کوئی پیار سے چومے
لیکن پیار سے چُومنے والا دریا دریا گھُومے

دریا دریا گھُومے مانجھی، پیٹ کی آگ بجھا نے
پیٹ کی آگ میں جلنے والا کِس کِس کو پہچانے ؟

کِس کِس کو پہچانے مانجھی، نینوں کا رَس سُوکھا
نینوں کا رس سوکھتا جائے، مانجھی سوئے بھوکا !

بھوکی نیندوں والے مانجھی، ہم پچھّم سیلانی
ہم پچھّم سیلانی مانگیں سبزہ رُوپ جوانی

سبزہ رُوپ جوانی ہو، اور سُندر بن کی چھایا
سُندر بن کی چھایا میں چھپ جائے جیون مایا

ہم پچھّم سیلانی، مانجھی، آنے جانے والے
کب ہُوئے آنے جانے والے روگ مٹانے والے؟

یہ تری لوہا لاٹ سی بانہیں، جن سے ڈریں منجدھاریں
اِن باہوں کو چار طرف سے کتنے دھیان پکاریں

او مانجھی سُن دھیان پکاریں، آ پہنچے وہ کنارے
اِک ترے من میں جوت جگے تو چھَٹ جائیں اندھیارے!

او مانجھی تو اپنے ہی من میں دھیان کی جوت جگَا لے
کب ہوئے آنے جانے والے روگ مٹانے والے؟
 
اس مضمون میں ڈاکٹر سید ہارون اور امین خیال کا ذکر آیا ہے۔ ان دونوں اصحاب کے تفصیلی رشحات کتاب "سمپورن" میں شامل ہیں۔ ان میں دوہے کی چال (عروض کی زبان میں: اوزان) پر بھی معلوماتی اور عالمانہ گفتگو شامل ہے۔ مطالعہ فرمائیے گا۔
 
بنگلہ نار
جمیل الدین عالی - ( ۱۹۵۹ )

باتیں بہت سنیں عالیؔ کی، اب سُن لو یہ بانی
جس نے بنگلہ نار نہ دیکھی، وہ نہیں پاکستانی

شروع میں ایک دوست نے دوہے کے کچھ "عروضی" اوزان لکھے ہیں۔ امید کرنی چاہئے کہ وہ سارے درست ہیں اور کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی وزن مستعمل ہے یا رہا ہے۔

قاعدہ: ایک بات اگر میرے علم میں نہیں تو اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ "وہ بات ہے ہی نہیں"!
آداب
 
جناب آسی صاحب مجھے قبلہ شاکر صاحب کی طرف سے دئے گئے اوزان پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ جناب عبید صاحب نے میرے الفاظ " سوالی اور عالی" پر اعتراض کیا تھا۔ جس کے جواب میں میں نے تمام معتبر دوہا نگاروں کے حوالہ جات پیش کیے ہیں۔ اسی حوالے سے جناب سے میرا بھی سوال صرف یہ کہ دوہا میں آخری فاع اور فعول کی "ی" "یے" گرانا کیسے غلط ہو سکتا ہے جبکہ تمام بڑے دوہا نگاروں نے ایسا ہی کیا ہے۔ آپ نے جو دوہے پیش کئے ہیں یہ کیسز تمام اختتامی حرف والے ہیں۔ میں پچاس ہزار ایسی مثالیں پیش کر سکتا ہوں جن میں آخری لفظ کی ی ، یے، ئ گرائی گئی ہیں۔میرا سوال اور موقف دونوں بڑے سیدھے سے ہیں۔ کہ جب تمام بڑے دوہا نگاروں نے آخری حرف کے حوالے سے وہی عمومی اصول اپنائے جو غزل اور نظم کیلیے ہیں تو پھر یہ کہاں سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ دوہا کے ہر آخری حرف کا ساکت ہونا شرط ہے۔ آسی صاحب اگر میں غزل میں نظم میں یا نعت میں سوالی کو فعول میں باندھ سکتا ہوں تو میرے صاحب ! دوہے میں کیوں نہیں ؟۔ اور صاحب یہ میری ذاتی زبردستی نہیں یہ تو سب بڑے بڑے دوہا نگاروں نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ کیا بیسیوں نامور شعرا کی کتابوں سے ان تمام دوہوں کو دوہوں کی کیٹیگری سے نکال کر باہر پھینک دیں گے جن کے اختتام میں آئے ، جائے، کیاری، گالی، گائیں ، وغیرہ وغیرہ جیسے ایست جفت ہیں جن میں ی، ے گرا کر فاع یا فعول میں باندھا گیا۔
 
یہ بھی جمیل الدین عالی صاحب کے دوہے ہیں ، محمد وارث صاحب کے بلاگ پر شائع ہیں ۔ کیا کہیں گے ان میں شامل ٹھکرائے، جلائے، سکھلائیں جیسے الفاظ کے بارے،
میں جمیل الدین عالی مرحوم ہی نہیں ایسے بیسیوں دوہا نگاروں کے حوالہ جات پیش کر سکتا ہوں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دوہا میں بھی غزل اور نظم کی طرح آخری " ی، ے، ئ " گرانے کی اجازت ہے۔ گو رباعی اور دوہا کی اپنی مخصوص بحریں ہیں ۔ لیکن عروض کے بنیادی تمام اصنافِ سخن کیلیے ایک جیسے ہیں۔ بس اس کے ساتھ ہی اپنا مقدمہ ختم۔ اللہ حافظ
دوہے کبت کہہ کہہ کر عالی من کی آگ بجھائے
من کی آگ بجھی نہ کسی سے، اسے یہ کون بتائے
--------
لئے پھریں دُکھ اپنے اپنے، راجہ میر فقیر
کڑیاں لاکھ ہیں رنگ برنگی، ایک مگر زنجیر
--------
عمر گنوا کر پیت میں ہم کو اتنی ہوئی پہچان
چڑھی ندی اور اُتر گئی، پر گھر ہو گئے ویران
--------
نا مرے سر کوئی طُرہ کلغی، نا کیسے میں چھدام
ساتھ میں ہے اک ناری سانوری اور اللہ کا نام
--------
بیتے دنوں کی یاد ہے کیسی ناگن کی پھنکار
پہلا وار ہے زہر بھرا اور دُوجا امرت دھار
--------
تہ میں بھی ہے حال وہی جو تہ کے اوپر حال
مچھلی بچ کر جائے کہاں جب جَل ہی سارا جال
--------
عالی اب کے کٹھن پڑا دیوالی کا تیوہار
ہم تو گئے تھے چھیلا بن کر، بھیّا کہہ گئی نار
--------
حیدر آباد کا شہر تھا بھیّا، اِندَر کا دربار
ایک ایک گھر میں سو سو کمرے، ہر کمرے میں نار
--------
اُودا اُودا بادل، گہری کالی گھٹا بن جائے
اس کے دھرم میں فرق ہے، جو اس موسم کو ٹھکرائے
--------
کوئی کہے مجھے نانک پنتھی کوئی کبیر کا داس
یہ بھی ہے میرا مان بڑھانا، ہے کیا میرے پاس
--------
اردو والے، ہندی والے، دونوں ہنسی اڑائیں
ہم دل والے اپنی بھاشا کس کس کو سکھلائیں
--------
دھیرے دھیرے کمر کی سختی، کُرسی نے لی چاٹ
چپکے چپکے من کی شکتی، افسر نے دی کاٹ
--------
کیا جانے یہ پیٹ کی آگ بھی کیا کیا اور جلائے
عالی جیسے مہا کَوی بھی “بابو جی” کہلائے
 
جناب آسی صاحب مجھے قبلہ شاکر صاحب کی طرف سے دئے گئے اوزان پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ جناب عبید صاحب نے میرے الفاظ " سوالی اور عالی" پر اعتراض کیا تھا۔ جس کے جواب میں میں نے تمام معتبر دوہا نگاروں کے حوالہ جات پیش کیے ہیں۔ اسی حوالے سے جناب سے میرا بھی سوال صرف یہ کہ دوہا میں آخری فاع اور فعول کی "ی" "یے" گرانا کیسے غلط ہو سکتا ہے جبکہ تمام بڑے دوہا نگاروں نے ایسا ہی کیا ہے۔ آپ نے جو دوہے پیش کئے ہیں یہ کیسز تمام اختتامی حرف والے ہیں۔ میں پچاس ہزار ایسی مثالیں پیش کر سکتا ہوں جن میں آخری لفظ کی ی ، یے، ئ گرائی گئی ہیں۔میرا سوال اور موقف دونوں بڑے سیدھے سے ہیں۔ کہ جب تمام بڑے دوہا نگاروں نے آخری حرف کے حوالے سے وہی عمومی اصول اپنائے جو غزل اور نظم کیلیے ہیں تو پھر یہ کہاں سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ دوہا کے ہر آخری حرف کا ساکت ہونا شرط ہے۔ آسی صاحب اگر میں غزل میں نظم میں یا نعت میں سوالی کو فعول میں باندھ سکتا ہوں تو میرے صاحب ! دوہے میں کیوں نہیں ؟۔ اور صاحب یہ میری ذاتی زبردستی نہیں یہ تو سب بڑے بڑے دوہا نگاروں نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ کیا بیسیوں نامور شعرا کی کتابوں سے ان تمام دوہوں کو دوہوں کی کیٹیگری سے نکال کر باہر پھینک دیں گے جن کے اختتام میں آئے ، جائے، کیاری، گالی، گائیں ، وغیرہ وغیرہ جیسے ایست جفت ہیں جن میں ی، ے گرا کر فاع یا فعول میں باندھا گیا۔

میں سمجھتا ہوں کہ آپ کے اس نوٹ کا بہتر جواب الف عین ہی دے سکتے ہیں۔
میں نے تو سرے سے کوئی اعتراض کیا ہی نہیں۔ بلکہ میرا مؤقف آپ نے دیکھ لیا کہ لوک شاعری میں لچک اور تنوع دونوں بہت ہوتے ہیں۔ ہاں، جب وہ ایک زبان سے دوسری میں جا کر متعارف ہوتے ہیں تو کہیں کہیں کوئی نہ کوئی حتمیت جنم لے لیتی ہے۔

اور کیا عرض کروں سوائے اس کے کہ بارِ دگر دعاؤں کا متمنی ہوں۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
برادران مکرم یہاں بار بار جمیل الدین عالی کو کوٹ کیا جا رہا ہے میں پہلے ہی یہ کہہ جکا ہوں کہ جمیل الدین عالی نے دوہے کی اوزان میں موجود بسرام کو ختم کر کے رواں بہر میں دوہے لکھے تو پورے ہندوستان میں اور پاکستان میں بھی دوہے کی صنف پر نظر رکھنے والے ماہرین فن نے عالی کے دوہوں کو دوہا تسلیم کرنے سے انکار کیا کیونکہ وہ دوہا کی روایئتی بحر کے مطابق نہ تھے یہ الگ بات کہ جمیل کے دوہے کی پیروی میں دوہا کہنا نسبتا آسان اور زیادہ رواں تھا پاکستان میں تو جمیل عالی کو کچھ ہم نوا ملے اور انہوں نے ان کی پیروی میں دوہے لکھے بالآخر پاکستان کی حد تک جمیل کے دوہوں کو دوہا مان لیا گیا ۔۔ لیکن ہندوستان میں دوہے کی معروف بحر وہی ہے جس کو یوں بیاں کیا گیا ہے
تیرہ گیارہ ماترا بیچ بیچ وشرام
دو مصرعوں کی شاعری دوہا جس کا نام
میں نے جو اوزان دیئے ہیں وہ ڈاکٹر گیان چند جین نے مرتب کیئے ہیں اور ڈاکٹر گیان چند جین کے مطابق اس کے آخر میں (فاع) کا آنا ضروری ہے
ہندوستان میں عمومی طور پر اس وزن کی پابندی کی جاتی ہے پاکستان میں بھی دوہے کےسینئر شعرا خواجہ دل محمد اور ڈاکٹرالیاس عشقی اور چند دیگر نے اس کی پابندی کی ہے اس کے علاوہ نئے لکھنے والوں میں ڈاکٹر طاہر سعید ہارون اور تاج قائم خانی نے بھی اسی وزن میں دوہے لکھے اور مجموعے شایع کرائے اٹک کے خاور چودھری نے بھی مکمل طور پر اسی وزن کو برتا ہے
مشتاق عاجز کے دوہے جمیل الدین عالی کے تتبع میں لکھے گئے ہیں
 
Top