اتنا ظالم ہے کہ مظلوم نظر آتا ہے

صائمہ شاہ

محفلین

وہ واقعات ، جن میں اقلیتوں پہ مظالم ہوئے ہیں ، ان کے گھناؤنے اور شرمناک ہونے میں کوئی دو رائے نہیں ۔۔۔۔۔اور جب جب ایسا ہوا، مجھے اس پہ شدید شرمندگی ہوئی ایک پاکستانی کی حیثیت سے ۔۔۔
لیکن عمومی طور پہ ہمارے معاشرے میں اقلیتوں سے بہت برا سلوک روا نہیں رکھا جاتا ۔۔۔۔۔
ایک چھوٹا سا واقعہ سنیے، میرے دادا کے ایک قریبی عزیز پانچ سو ایکڑ کے مالک تھے ، گاؤں کے چوہدری تھے ۔۔۔۔شہر سے گاؤں گھوڑی پہ آ رہے تھے ۔۔۔۔۔گاؤں کی طرف آنے والے ذیلی رستے پہ انہوں نے ایک نوجوان کو دیکھا، تو پوچھا کون ہو ؟
اس نے ان کے ایک عیسائی ملازم کا بتایا ، کہ اس کا داماد ہوں ۔۔۔۔۔نو شادی شدہ تھا۔۔۔۔۔وہ بزرگ اپنی گھوڑی سے اترے ۔۔۔۔۔اس کو سوا کروایا اور گاؤں لے کر گئے کہ ہماری بچی کا خاوند ہے ۔۔۔۔۔۔۔ہم نے تو یہ تربیت حاصل کی ہے اپنے خون کے ساتھ ۔۔۔دودھ کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔
اب مذہبی جنونیوں اور سازشیوں کے رویوں پہ پاکستان کے عوام کے مجموعی تعامل کو محمول تو نہ کیا جائے ۔۔۔۔
پیغمبرﷺ نے انہیں جان ، مال، عبادت، عزت کی پناہ دی ہے ۔۔۔۔۔۔ان کے قتل کو ناقابل معافی جرم قرار دیا ۔۔۔۔۔۔کیسے کوئی "مسلمان"ان پہ ظلم کو روا جان سکتا ہے؟
اور یہی ایک اچھے مسلمان کی پہچان ہے اس کا "کردار "
 
محترم ناصر مرزا بھائی ۔۔ کیا آپ کے پاس یہ معلومات ہیں کہ ان " اندرونی جھگڑوں " نے کتنے انسانوں کی ناحق جان لی ہے ۔
اور جان لینے والوں نے ان " اندرونی جھگڑوں " کے بل پہ جنت میں اپنی جگہ الاٹ کروائی ۔۔۔۔۔؟
کتنے معصوم بچے ان " اندرونی جھگڑوں " کی بھینٹ چڑھے ۔۔۔۔۔۔۔۔؟
مسجدوں کو ویران کرنے میں " اندرونی جھگڑوں " کا کیا کردار رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
بہت دعائیں
محترم نایاب بھائی صاحب، بے شک ان اندرونی جھگڑوں کے باب میں بہت المناک واقعات ہیں اور ان پر مختلف دھاگوں میں بات ہوتی رہتی ہے،لیکن اس دھاگے میں زیربحث موضوع فلسطین ،غزہ اور اسرائیل کے مظالم ہیں
اللہ کی شان ہے کہ ایک اعلانیہ فرقہ پرست امت مسلمہ کے بارے غم سے گھلا جا رہا ہے :)
میری بات کا جواب خوبصورت انداز میں دینے کا شکریہ، آپ نے براہ راست میرے الزام کا جواب دینے کی بجائے بالکل اس انداز میں بات کا رخ موڑنے کی ناکام کوشش کی ہے لیکن ثابت ہوگیا کہ میری بات غلط نہیں ہے
مسائل تو مسلمانوں کے ہی ہیں نا ؟ تو پھر مسلمانوں کے مسائل پر دوہرے میعار کیوں ؟ امت مسلمہ پاکستان میں نہیں ہے کیا ؟
کیسے انگلی اٹھائیں گے اسرائیل پر جب وہی انگلیاں انسانیت کے خون سے رنگی ہوں ؟
بے شک دوہرا معیار نہیں ہونا چاہیے آپ کے اصول کے مطابق جب بھی پاکستان میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہو تو اس کی مذمت کے ساتھ ساتھ کشمیر،عراق، شام، اور فلسطین کے المیوں پر بات ضرور ہونی چاہیے تا کہ دوہرا معیار نہ ہو!!!!!!!، کیا واقعتا ایسا ہی ایسا ہے کہ جب آپ یا میں طالبان کی مذمت کرتے ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں ہونے والے سب المیوں اور واقعات کی مذمت بھی کرتے ہیں؟؟؟؟؟
دوہرا معیار تو تب ہوتا جب اس مراسلے میں یا میں نے یا کسی دوسرے صاحب نے اسرائیل کے مظالم کی مذمت کے ساتھ ، دوسرے کسی بھی ظالمانہ واقعے کی حمایت کی ہوتی۔

آپ کے بیان کردہ اصول کے مطابق ، ہم پاکستانیوں کو کوئی حق نہیں کہ اسرائیل کی مذمت کریں جبکہ ہمارے اپنے ہاتھ خون سے رنگے ہیں، پھر آپ نےمراسلے میں اسرائیل کے مظالم کی مذمت کرکے اپنے ہی اصول کو توڑا ہے
 
نئی دہلی......اسرائیلی جارحیت کے خلاف بھارت میں احتجاج کیا جارہا ہے۔ مسلم کمیونیٹی بھارت میں اسرائیلی اور امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے اپنا احتجاج رکارڈ کروارہی ہے ۔ بھارتی ریاست مدھیا پردیش کے لوگ ، فلسطینی شہر غزہ کے مظلوموں کے حق میں سڑکوں پر آگئے ۔ ہاتھوں میں اسرائیلی بربریت کے خلاف بینر اٹھائے شرکا نے اسرائیلی جارحیت کی پرزور مذمت کرتے ہوئے نعرے لگائے اور جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ شرکائ کا کہنا تھا کہ غزہ میں جاری اسرائیلی حملوں کے خلاف یاد داشت مدھیا پردیش کے وزیر اعلی کو پیش کی جائے گی۔ احتجاج میں شریک مسلم رہنما نے اس بات پر زور دیا کہ غزہ پر اسرائیل کے وحشیانہ حملوں اور اس کے حمایتی امریکا کے خلاف احتجاج کا سب سے موثر طریقہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ ہے اور اب ممبئ کے بھنڈی بازار میں اس پر مکمل عمل ہورہا ہے جہاں ریسٹورنٹس اورفاسٹ فوڈ کے کاروبار سے منسلک مسلم برادری نے امریکی مشروبات کوکا کولا اور پیپسی فروخت کرنے سے انکار کردیاہے، گاہکوں کو اب فریش جوس اور زیرے کا پانی پیش کیا جارہا ہے،مالکان کا کہنا ہے کہ یہ قدم واشنگٹن کی جانب سے تل ابیب کی بے جا حمایت کےخلاف اٹھایاگیا ہے۔مدھیہ پردیش اور ممبئ میں مسلم کمیونیٹی کی غزہ کے مظلوموں کے حق میں یہ احتجاجی کاوشیں اسرائیلی حملوں کو روک سکیں یا نہیں ، غم سے چور فلسطینیوں کی ہمت ضرور بڑھائیں گی ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
محترم نایاب بھائی صاحب، بے شک ان اندرونی جھگڑوں کے باب میں بہت المناک واقعات ہیں اور ان پر مختلف دھاگوں میں بات ہوتی رہتی ہے،لیکن اس دھاگے میں زیربحث موضوع فلسطین ،غزہ اور اسرائیل کے مظالم ہیں

میری بات کا جواب خوبصورت انداز میں دینے کا شکریہ، آپ نے براہ راست میرے الزام کا جواب دینے کی بجائے بالکل اس انداز میں بات کا رخ موڑنے کی ناکام کوشش کی ہے لیکن ثابت ہوگیا کہ میری بات غلط نہیں ہے

بے شک دوہرا معیار نہیں ہونا چاہیے آپ کے اصول کے مطابق جب بھی پاکستان میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہو تو اس کی مذمت کے ساتھ ساتھ کشمیر،عراق، شام، اور فلسطین کے المیوں پر بات ضرور ہونی چاہیے تا کہ دوہرا معیار نہ ہو!!!!!!!، کیا واقعتا ایسا ہی ایسا ہے کہ جب آپ یا میں طالبان کی مذمت کرتے ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں ہونے والے سب المیوں اور واقعات کی مذمت بھی کرتے ہیں؟؟؟؟؟
دوہرا معیار تو تب ہوتا جب اس مراسلے میں یا میں نے یا کسی دوسرے صاحب نے اسرائیل کے مظالم کی مذمت کے ساتھ ، دوسرے کسی بھی ظالمانہ واقعے کی حمایت کی ہوتی۔

آپ کے بیان کردہ اصول کے مطابق ، ہم پاکستانیوں کو کوئی حق نہیں کہ اسرائیل کی مذمت کریں جبکہ ہمارے اپنے ہاتھ خون سے رنگے ہیں، پھر آپ نےمراسلے میں اسرائیل کے مظالم کی مذمت کرکے اپنے ہی اصول کو توڑا ہے
محترم، یہ بات کو پھیرنے کی کوشش نہیں ہے۔ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ اکثر احباب اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ آج ہمارے سامنے کیا مسئلہ ہے۔ میری عادت ہے کہ میں آج کی نہیں بلکہ مسئلے کی ابتداء پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ آپ میری پوسٹس دیکھ لیجئے کہ اسی دھاگے پر میں نے انہی وجوہات پر بات کرنے کی کوشش کی ہے کہ فرقہ پرستی، تعلیم سے دوری، بحیثیت قوم ہماری پستی (کردار کے حوالے سے میں نے پاکستان میں موجود ہلاکتوں اور فلسطین میں موجود ہلاکتوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے)، اور ہمارے اندر موجود عمومی برائیاں کس طرح ہمیں موجودہ مقام پر ہمیں لے آئی ہیں۔ آپ اس نکتہ نظر سے دیکھئے کہ میں نے بے شک سخت الفاظ استعمال کئے ہیں لیکن میری بات سے انکار شاید آپ کے لئے بھی ممکن نہ ہو
 

صائمہ شاہ

محفلین
محترم نایاب بھائی صاحب، بے شک ان اندرونی جھگڑوں کے باب میں بہت المناک واقعات ہیں اور ان پر مختلف دھاگوں میں بات ہوتی رہتی ہے،لیکن اس دھاگے میں زیربحث موضوع فلسطین ،غزہ اور اسرائیل کے مظالم ہیں

میری بات کا جواب خوبصورت انداز میں دینے کا شکریہ، آپ نے براہ راست میرے الزام کا جواب دینے کی بجائے بالکل اس انداز میں بات کا رخ موڑنے کی ناکام کوشش کی ہے لیکن ثابت ہوگیا کہ میری بات غلط نہیں ہے

بے شک دوہرا معیار نہیں ہونا چاہیے آپ کے اصول کے مطابق جب بھی پاکستان میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہو تو اس کی مذمت کے ساتھ ساتھ کشمیر،عراق، شام، اور فلسطین کے المیوں پر بات ضرور ہونی چاہیے تا کہ دوہرا معیار نہ ہو!!!!!!!، کیا واقعتا ایسا ہی ایسا ہے کہ جب آپ یا میں طالبان کی مذمت کرتے ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں ہونے والے سب المیوں اور واقعات کی مذمت بھی کرتے ہیں؟؟؟؟؟
دوہرا معیار تو تب ہوتا جب اس مراسلے میں یا میں نے یا کسی دوسرے صاحب نے اسرائیل کے مظالم کی مذمت کے ساتھ ، دوسرے کسی بھی ظالمانہ واقعے کی حمایت کی ہوتی۔

آپ کے بیان کردہ اصول کے مطابق ، ہم پاکستانیوں کو کوئی حق نہیں کہ اسرائیل کی مذمت کریں جبکہ ہمارے اپنے ہاتھ خون سے رنگے ہیں، پھر آپ نےمراسلے میں اسرائیل کے مظالم کی مذمت کرکے اپنے ہی اصول کو توڑا ہے
کسی بھی ظلم پر خاموشی ظالم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے آپ اگر ظلم کے خلاف ہیں تو سب سے پہلے آپ کو احمدیوں پر کئے گئے ظلم پر دھاگہ کھولنا چاہیے تھا مگر آپ نے خاموش رہنا پسند کیا تو آپ ہی کہیئے کیا فرق ہے ایک پاکستانی احمدی بچے اور ایک فلسطینی بچے میں ؟ کیوں احمدی بچوں اور عورتوں کو زندہ جلا دینے کا افسوسناک المیہ آپ کے دھاگے کی توجہ نہیں پا سکا یا تو ہر ظلم پر آواز اٹھائیے یا پھر دوہرے میعار پر ادھورے جواز مت پیش کیجیے
 

نایاب

لائبریرین
محترم نایاب بھائی صاحب، بے شک ان اندرونی جھگڑوں کے باب میں بہت المناک واقعات ہیں اور ان پر مختلف دھاگوں میں بات ہوتی رہتی ہے،لیکن اس دھاگے میں زیربحث موضوع فلسطین ،غزہ اور اسرائیل کے مظالم ہیں
میرے بھائی ، ہم اسی صورت کسی دوسرے کے ظلم و زیادتی کے خلاف بات کر سکتے ہیں ۔ جب ہم نے اپنے گھر کو اپنوں کے ہاتھوں ہونے والے ظلم و زیادتی کا سد باب کر لیا ہو ۔۔۔۔ جب ہمارے گھر میں ہی آگ لگی ہے تو کس صورت ہم اس آگ سے منہ موڑ پرائی آگ میں کودنے کی ہمت کریں ۔۔۔۔۔۔۔؟
حالیہ غزہ " بحران کیوں پیدا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
فلسطین کی امداد کرنے والے اس کے ہمدردوں نے کیوں فلسطین سے ہاتھ کھینچ لیا ۔۔؟
فلسطینی خود پر ہونے تشدد کے کس قدر ذمہ دار ہیں ۔۔۔۔۔؟
ان سب سوالوں کے جواب ہمارے " اندرونی جھگڑوں " ہی سے براہ راست منسلک ہیں ۔
رمضان کے مبارک مہینے میں جس کے بارے کہتے ہیں کہ شیطان کو بند کر دیا جاتا ہے ۔ اس مبارک مہینے کی ان راتوں میں جب " لیلہ المبارکہ " کی تلاش ہو رہی ہوتی ہے ۔ اس رات میں چار معصوم زندگیاں بے دردی کے ساتھ چھینتے ان کے گھروں کو جلاتے قہقہے لگائے جاتے ہوں ۔ تو وہ " انسانیت " جو کہ سلامتی " کے دین پر قائم ہے ۔۔۔۔۔۔۔ کیونکر خون کے آنسو نہ روئے ۔۔۔۔
ہمیں ابتدا اپنے گھر سے کرنی چاہیئے ۔ اقلیتوں اور غیر مسلموں کے جان و مال و عزت آبرو کو وہی مقام دینا چاہیئے جو کہ بحیثیت اک انسان ان کا حق ہے ۔ ان پر ہونے والے ہر ظلم ہر تشدد کی ہر فورم پر کھلے طور مذمت کرنی چاہیئے ۔ تاکہ جب ہم اپنے گھر سے باہر کسی پر ہونے والے ظلم و تشدد کے خلاف بات کریں تو ہمیں ہمارے ہی گھر کی جانب متوجہ نہ کیا جائے اور ہماری بات کو باوزن سمجھا جائے ۔۔۔
اسرائیل تو یہود ہیں نا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ جو عراق و شام میں معصوم مسلمانوں کو مار رہے ہیں ۔۔۔ یہ کون ہیں ۔۔۔۔۔۔۔؟
فخر کی بات نہیں لیکن 1977 تک ہر اس مظاہرے میں شریک رہا ہوں جو فلسطین و کشمیر کی آزادی کے لیئے منعقد ہوا ۔ لاٹھیاں کھائی ہیں ۔ بازو تڑوایا ہے ۔ فرقہ پرستی کے خلاف آواز اٹھاتے اپنے ہی خاندان کے ہاتھوں ہزار سختیاں برداشت کی ہیں ۔۔
اللہ ہم سب کو اس توفیق سے نوازے کہ " کلمہ حق " کہتے کبھی ہماری زبان ہمارا مذہب ہمارا خاندان ہمارے آڑے نہ آئے ۔۔۔۔۔۔۔ آمین
 

عثمان

محفلین
]
لیکن عمومی طور پہ ہمارے معاشرے میں اقلیتوں سے بہت برا سلوک روا نہیں رکھا جاتا ۔۔۔۔۔
پاکستان میں لوگ عیسائی کو اچھوت سمجھتے ہیں۔ احمدی کو واجب القتل۔ ہندو جبری اغوا اور مظالم سے تنگ آکر ہجرت پر مجبور۔ اہل تشیع اور ہزارویوں کو بسوں سے اتار کر نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ایسے میں آپ کا یہ بیان نہ جانے کونسی اقلیت کے لیے باقی ہے ؟
 
سرائیلی بمباری سے غزہ میں ہرطرف تباہی مزید 140فلسطینی شہید
407810_25390563.jpg.pagespeed.ce.g5XuPQTmUk.jpg

صہیونی فوج نے ایک اہلکارکے اغوا اور 2کی ہلاکت کا بہانہ بناکر رفاہ میں قیامت برپا کردی، اسپتالوں میں دوائیں ختم ، زخمی تڑپ تڑپ کر جان دینے لگے، شہداء کی تعداد 1600ہوگئی مغربی کنارے میں مظاہرین پر بھی فائرنگ، جنگ بندی کے خاتمے کی ذمہ دار حماس ، اسرائیلی فوجی رہا کیا جائے،بان کی مون ،امریکی سینیٹ نے اسرائیل کیلئے امداد کی منظوری دیدی
غزہ (رائٹرز،اے ایف پی)اسرائیل نے اپنے فوجی کے اغوا کا ڈرامہ رچا کر اقوام متحدہ اور امریکا کی مدد سے طے پانے والی تین روزہ جنگ بندی محض 90منٹ میں ختم کرڈالی اور غزہ کی پٹی میں بمباری کی انتہا کردی جس سے مزید140 فلسطینی شہید اور سینکڑوں زخمی ہوگئے۔ ان میں 70سے زائد افراد صرف رفاہ کے علاقے میں شہید کردیے گئے۔ 8جولائی سے جاری اسرائیل کی بہیمانہ کارروائیوں میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد1600ہو گئی ہے جبکہ 8ہزار سے زائد زخمی ہیں ۔ جنگ بندی کا آغاز مقامی وقت کے مطابق صبح 8بجے ہوا جس کے دوران امدادی کارروائیاں ہونی تھیں ، شہید فلسطینیوں کی تدفین اور زخمیوں کو اسپتال پہنچایا جانا تھا مگر اسرائیلی فوج نے نہتے شہریوں پر گولے برسانا شروع کردیے ۔ فلسطینی ذرائع کے مطابق ملبے میں سینکڑوں افراد کی لاشیں دبی ہوئی ہیں جنہیں اسرائیلی حملوں کے باعث نکالنا اور دفنانا بھی ممکن نہیں ،غزہ کے اسپتالوں میں فرش پر ہی زخمیوں کو طبی امداد دی جارہی ہے جبکہ کئی زخمی ادویہ کی کمی کے باعث دم توڑ رہے ہیں۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ جمعہ کو ان کے مزید 5فوجی مارے گئے جبکہ حادار گولڈن نامی سیکنڈ لیفٹیننٹ کویرغمال بنا لیا گیا ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ حماس کی جوابی کارروائیوں میں اب تک 63اسرائیلی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔ اہلکار کے اغوا کے بعد اسرائیلی فوج کے زمینی اور فضائی حملوں میں مزید تیزی آگئی اور آبادیوں کو دیوانہ وار نشانہ بنایا جاتا رہا ۔ مظالم کا سلسلہ مغربی کنارے میں بھی جاری ہے جہاں اسرائیلی فوج کی مظاہرین پر فائرنگ سے 2فلسطینی شہید اور 73زخمی ہوگئے۔جمعہ کو شہید ہونے والوں میں فلسطین کے سابق قومی فٹ بالراحد زقوت بھی شامل ہیں ۔فلسطینی طبی حکام نے بتایا کہ احد کی شہادت ان کے اپارٹمنٹ پر بم گرنے سے ہوئی۔غزہ میں کھیلوں کے صحافی خالد ظہیر نے کہا کہ فلسطین اپنے بہترین کھلاڑیوں میں سے ایک کھو چکا ہے۔ وہ شاید بہترین مڈ فیلڈر تھے۔احد کے گھر پر پہنچنے والے پڑوسیوں اور طبی عملے نے بتایا کہ فٹ بالر بدھ کو بستر پر سوتے میں شہید ہوئے۔49 سالہ احد کا کسی مخصوص سیاسی تنظیم سے تعلق نہیں تھا اور انہوں نے کبھی بھی واضح انداز میں اپنے سیاسی خیالات کا اظہار نہیں کیا۔فلسطین کی جونیئر ٹیم سے اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے والے احد 1994 میں مائیکل پلاٹینی سمیت فرانسیسی اسٹار فٹبالرز کے خلاف ایک دوستانہ میچ سے قومی ٹیم میں شامل ہوئے۔کچھ عرصہ قبل انہوں نے کوچنگ کی ذمہ داریاں سنبھالیں، اس کے علاوہ وہ فلسطین کے قومی ٹی وی پر اسپورٹس پروگرام کے میزبان بھی رہے۔اقوام متحدہ کے مطابق ریلیف کیمپوں میں پناہ لینے والے فلسطینیوں کی تعداد دو لاکھ چالیس ہزار تک پہنچ گئی ہے۔اسرائیل نے مزید 16ہزار فوجی غزہ میں بھیج دیے ہیں، جس کے بعد زمینی فوج کی تعداد 86 ہزار تک پہنچ گئی۔ ۔ ادھرغزہ کی سرحد کے قریب مارٹرگولہ پھٹنے سے پانچ اسرائیلی فوجی ہلاک ہوگئے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہاہے کہ اسرائیلی فوجی غزہ سے ملحقہ سرحد پرکارروائی کے دوران ایک مارٹرگولے کانشانہ بنے۔ اس دوران امریکی سینیٹ نے اسرائیل کیلئے 225ملین ڈالر امداد کی منظوری دیدی ہے ۔ یہ رقم اسرائیل آئرن ڈوم میزائل ڈیفنس سسٹم کی مد میں خرچ کرے گا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اسرائیل کے بجائے حماس کو جنگ بندی کے خاتمے کا ذمہ دار ٹھہرا دیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حماس فوری طور پراسرائیل کے مغوی فوجی کو رہا کردے۔ مبصرین کے مطابق اسرائیلی فوجی حادار گولڈن کے اغوا کا واقعہ کئی برس پہلے اغوا اورپھرفلسطینی قیدیوں کےبدلے رہا ہونے والے اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے واقعہ کی بازگشت لگتا ہے۔ ترک وزیراعظم رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ صیہونی ریاست ہٹلر کی روح کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ اسرائیلی اقدامات اور ہٹلر کے اقدامات میں کیا فرق ہے ؟ اسرائیلی جارحیت کے خلاف نیویارک ، واشنگٹن اور میکسیکو میں ہزاروں امریکی شہری سڑکوں پر آگئے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم اس قدر زیادہ ہیں کہ انسانیت شرمسار ہورہی ہے۔ برطانوی رکن پارلیمنٹ ڈیوڈ وارڈ نے غزہ میں بمباری پر ایک بار پھر اسرائیل کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ انہوں نے تجویز دی کہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیا جائے ۔
 
پاکستان میں کوئی باہرکی ریاست آ کر قتل و غارت گری نہیں کر رہی۔ریاست پاکستان کے عوام میں موجود چند گمراہ لوگ اپنے جیسی دوسری عوام کو عقیدے کے فرق کی وجہ سے قتل کر رہی ہے۔ ان ہلاکتوں میں ریاست کا براہ راست کوئی دخل نہیں۔ اسے آپ ریاست میں موجود حکومت کی نا اہلی کہہ سکتے ہیں کہ وہ ریاست کے مختلف العقیدہ افراد کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی۔
جبکہ
اسرائیل بطور ریاست، انسانوں کو قتل کر رہا ہے نا کہ اسرائیل کے یہودی شہری دوسرے ملک کے مسلمان شہریوں کو مار رہے ہیں۔ اگر شہری ایک دوسرے کو مارتے تو فرقہ وارانہ فسادات کہلاتے جنگ نہیں۔
براہ کرم بحث کرتے ہوئے اس نقطے کو ملحوظ رکھا کریں۔
البتہ دونوں جگہ صرف ایک قدر مشترک ہے کہ انسان قتل ہو رہے ہیں۔ :cry:
 

نایاب

لائبریرین
پاکستان میں کوئی باہرکی ریاست آ کر قتل و غارت گری نہیں کر رہی۔ریاست پاکستان کے عوام میں موجود چند گمراہ لوگ اپنے جیسی دوسری عوام کو عقیدے کے فرق کی وجہ سے قتل کر رہی ہے۔ ان ہلاکتوں میں ریاست کا براہ راست کوئی دخل نہیں۔ اسے آپ ریاست میں موجود حکومت کی نا اہلی کہہ سکتے ہیں کہ وہ ریاست کے مختلف العقیدہ افراد کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی۔
جبکہ
اسرائیل بطور ریاست، انسانوں کو قتل کر رہا ہے نا کہ اسرائیل کے یہودی شہری دوسرے ملک کے مسلمان شہریوں کو مار رہے ہیں۔ اگر شہری ایک دوسرے کو مارتے تو فرقہ وارانہ فسادات کہلاتے جنگ نہیں۔
براہ کرم بحث کرتے ہوئے اس نقطے کو ملحوظ رکھا کریں۔
البتہ دونوں جگہ صرف ایک قدر مشترک ہے کہ انسان قتل ہو رہے ہیں۔ :cry:
محترم چوہدری صاحب یہ جنہیں آپ " چند " لوگ قرار دیتے ان کے جانب سے ہونے والے معصوم انسانوں پہ ظلم و تشدد کو " فرقہ ورانہ " تشدد قرار دے رہے ہیں ۔ کیا یہ " چند " لوگوں پہ مشتمل تمام " فرقہ ورانہ تنظیمیں " بیرونی ریاستوں کی فنڈنگ پر نہیں چلتی ہیں ۔؟ اور جو بھی بیرونی ریاست ان کی فنڈنگ کرتی ہے ۔ وہ براہ راست اس تشدد میں شریک ہوتی ہے ۔اور یہ بیرونی ریاستوں کی ہمارے ملک میں چھیڑی جنگ ہے ۔۔جو ریاست جو معاشرہ جو حکومت اپنے شہریوں کے بلا تفریق مذہب و جنس تحفظ میں ناکام رہے ۔اس ریاست ا س معاشرے اس حکومت کی کسی دوسری ریاست میں ہوئے تشدد کے خلاف اٹھائی آواز کتنی حقیقی کتنی با اثر ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اسرائیل کی موجودہ غزہ میں چھیڑی جنگ بھی " فرقہ ورانہ " بنیادوں پر اپنی پوری شدت سے جاری ہے ۔ اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر ہی وہ تمام مسلم ممالک اس جنگ سے آنکھ بند کیئے ہوئے ہیں ۔ جو کہ فلسطین کی آزادی کی تحریک میں شامل تمام جماعتوں کو اپنے اپنے " فرقوں " کی بنیاد پر " فنڈنگ " سے نوازتے رہے ہیں ۔۔۔۔
یہ " فرقہ واریت " کا زہر ہی جو کہ امت مسلمہ کو پوری طرح مفلوج کیئے ہوئے ہے ۔۔
شام ہو عراق ہو یہاں بھی فرقہ وراریت کا ہی راج ہے ۔ اور مر رہے ہیں ہر جگہ معصوم عوام ۔۔ مسلمان ہیں جو ۔۔ اور فرقے ان کی شناخت ۔۔۔۔ اس سلامتی کے دین سے نکالے فرقے جو کہ انسانوں لیئے سراپا رحمت اور مسلمانوں کو جسد واحد میں پرو رکھنے والا دین ہے ۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 
محترم چوہدری صاحب یہ جنہیں آپ " چند " لوگ قرار دیتے ان کے جانب سے ہونے والے معصوم انسانوں پہ ظلم و تشدد کو " فرقہ ورانہ " تشدد قرار دے رہے ہیں ۔ کیا یہ " چند " لوگوں پہ مشتمل تمام " فرقہ ورانہ تنظیمیں " بیرونی ریاستوں کی فنڈنگ پر نہیں چلتی ہیں ۔؟ اور جو بھی بیرونی ریاست ان کی فنڈنگ کرتی ہے ۔ وہ براہ راست اس تشدد میں شریک ہوتی ہے ۔اور یہ بیرونی ریاستوں کی ہمارے ملک میں چھیڑی جنگ ہے ۔۔جو ریاست جو معاشرہ جو حکومت اپنے شہریوں کے بلا تفریق مذہب و جنس تحفظ میں ناکام رہے ۔اس ریاست ا س معاشرے اس حکومت کی کسی دوسری ریاست میں ہوئے تشدد کے خلاف اٹھائی آواز کتنی حقیقی کتنی با اثر ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اسرائیل کی موجودہ غزہ میں چھیڑی جنگ بھی " فرقہ ورانہ " بنیادوں پر اپنی پوری شدت سے جاری ہے ۔ اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر ہی وہ تمام مسلم ممالک اس جنگ سے آنکھ بند کیئے ہوئے ہیں ۔ جو کہ فلسطین کی آزادی کی تحریک میں شامل تمام جماعتوں کو اپنے اپنے " فرقوں " کی بنیاد پر " فنڈنگ " سے نوازتے رہے ہیں ۔۔۔۔
یہ " فرقہ واریت " کا زہر ہی جو کہ امت مسلمہ کو پوری طرح مفلوج کیئے ہوئے ہے ۔۔
شام ہو عراق ہو یہاں بھی فرقہ وراریت کا ہی راج ہے ۔ اور مر رہے ہیں ہر جگہ معصوم عوام ۔۔ مسلمان ہیں جو ۔۔ اور فرقے ان کی شناخت ۔۔۔۔ اس سلامتی کے دین سے نکالے فرقے جو کہ انسانوں لیئے سراپا رحمت اور مسلمانوں کو جسد واحد میں پرو رکھنے والا دین ہے ۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
نایاب بھائی، میری بات کا تناظر یہ نہیں تھا۔
کچھ دوست اس بات کا موازنہ یا شکوہ کر رہے ہیں کہ اسرائیل کے خلاف تو پاکستان میں بہت آواز اٹھائی جاتی ہے، جبکہ پاکستان میں اقلیتوں پر ہونے والےظلم اور زیادتی پر کیوں نہیں بولا جاتا، میری بات صرف اس رویے کی وضاحت کے لیے تھی، کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔
باقی جہاں تک رہی یہاں یا وہاں کی فرقہ واریت تو اس پر ہر بندے کا اپنے عقیدے کے مطابق اپنا نظریہ ہے۔
نوازش :)
 

نایاب

لائبریرین
نایاب بھائی، میری بات کا تناظر یہ نہیں تھا۔
کچھ دوست اس بات کا موازنہ یا شکوہ کر رہے ہیں کہ اسرائیل کے خلاف تو پاکستان میں بہت آواز اٹھائی جاتی ہے، جبکہ پاکستان میں اقلیتوں پر ہونے والےظلم اور زیادتی پر کیوں نہیں بولا جاتا، میری بات صرف اس رویے کی وضاحت کے لیے تھی، کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔
باقی جہاں تک رہی یہاں یا وہاں کی فرقہ واریت تو اس پر ہر بندے کا اپنے عقیدے کے مطابق اپنا نظریہ ہے۔
نوازش :)
محترم بھائی اس خبر میں چھپی حقیقت کیا ہے ذرا غور کیجئے گا ۔۔۔۔۔
زبان خلق نقارہ خدا ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزہ پر پراسرار خاموشی دنیا کی بدلتی ہوئی روش کا عکاس ہے۔
 
یہ خبر میں پڑھ چکا ہوں۔ اور یہ حقیقت بھی خوب سمجھتا ہوں۔
لنک کا شکریہ
 

صائمہ شاہ

محفلین
پاکستان میں کوئی باہرکی ریاست آ کر قتل و غارت گری نہیں کر رہی۔ریاست پاکستان کے عوام میں موجود چند گمراہ لوگ اپنے جیسی دوسری عوام کو عقیدے کے فرق کی وجہ سے قتل کر رہی ہے۔ ان ہلاکتوں میں ریاست کا براہ راست کوئی دخل نہیں۔ اسے آپ ریاست میں موجود حکومت کی نا اہلی کہہ سکتے ہیں کہ وہ ریاست کے مختلف العقیدہ افراد کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی۔
جبکہ
اسرائیل بطور ریاست، انسانوں کو قتل کر رہا ہے نا کہ اسرائیل کے یہودی شہری دوسرے ملک کے مسلمان شہریوں کو مار رہے ہیں۔ اگر شہری ایک دوسرے کو مارتے تو فرقہ وارانہ فسادات کہلاتے جنگ نہیں۔
براہ کرم بحث کرتے ہوئے اس نقطے کو ملحوظ رکھا کریں۔
البتہ دونوں جگہ صرف ایک قدر مشترک ہے کہ انسان قتل ہو رہے ہیں۔ :cry:
ہمارا بھی یہی کہنا ہے کہ " انسانیت کا قتل " ہو رہا ہے
 
نہتے شہریوں پر حملہ جنگی جرم ہے: ہیومن رائٹس واچ
ڈان اخبار تاریخ اشاعت 05 اگست, 2014
نیو یارک: انسانی حقوق کے عالمی ادارے ہیومن رائٹس واچ نے الزام عائد کیا ہے کہ اسرائیلی افواج نے غزہ کے جنوبی قصبے خضاء میں بے گناہ شہریوں پر فائرنگ اور اُن کا قتل عام کر کے 23 سے 25 جولائی کے دوران بے شمار مرتبہ جنگی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ نہتے شہریوں پر حملہ کرنا جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
خضاء سے بچ نکلنے والے سات فلسطینیوں نے ہیومن رائٹس واچ کو ان خطرات کے حوالے سے بتایا جن کا سامنا فلسطینی شہریوں کو اسرائیلی سرحد کے قریب واقع قصبے خان یونس میں پناہ لینے کے لیے کرنا پڑتا ہے۔
ان خطرات میں اسرائیلی فورسز کی جانب سے شہریوں کی املاک پر مسلسل شیلنگ، بنیادی طبی سہولیات تک رسائی میں مشکلات اور نقل مکانی کے دوران اسرائیلی فوج کے حملوں کا ڈر شامل ہے۔
مشرق وسطیٰ کے لیے ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر سارہ لیہہ ودسن کا کہنا ہے کہ خضاء کے بے گناہ شہریوں کو کب انصاف ملے گا، جو کافی عرصے سے اسرائیلی شیلنگ برداشت کر رہے ہیں اور جب انہیں علاقہ چھوڑںے کا حکم دیا جاتا ہے تو پھر اس دوران ان پر اسرائیلی فوج کی جانب سے شدید حملے کیے جاتے ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
نہتے شہریوں پر حملہ جنگی جرم ہے: ہیومن رائٹس واچ
ڈان اخبار تاریخ اشاعت 05 اگست, 2014
نیو یارک: انسانی حقوق کے عالمی ادارے ہیومن رائٹس واچ نے الزام عائد کیا ہے کہ اسرائیلی افواج نے غزہ کے جنوبی قصبے خضاء میں بے گناہ شہریوں پر فائرنگ اور اُن کا قتل عام کر کے 23 سے 25 جولائی کے دوران بے شمار مرتبہ جنگی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ نہتے شہریوں پر حملہ کرنا جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
خضاء سے بچ نکلنے والے سات فلسطینیوں نے ہیومن رائٹس واچ کو ان خطرات کے حوالے سے بتایا جن کا سامنا فلسطینی شہریوں کو اسرائیلی سرحد کے قریب واقع قصبے خان یونس میں پناہ لینے کے لیے کرنا پڑتا ہے۔
ان خطرات میں اسرائیلی فورسز کی جانب سے شہریوں کی املاک پر مسلسل شیلنگ، بنیادی طبی سہولیات تک رسائی میں مشکلات اور نقل مکانی کے دوران اسرائیلی فوج کے حملوں کا ڈر شامل ہے۔
مشرق وسطیٰ کے لیے ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر سارہ لیہہ ودسن کا کہنا ہے کہ خضاء کے بے گناہ شہریوں کو کب انصاف ملے گا، جو کافی عرصے سے اسرائیلی شیلنگ برداشت کر رہے ہیں اور جب انہیں علاقہ چھوڑںے کا حکم دیا جاتا ہے تو پھر اس دوران ان پر اسرائیلی فوج کی جانب سے شدید حملے کیے جاتے ہیں۔
کیا ہی اچھا ہو کہ یہ مقدمہ سماعت تک پہنچ جائے
 

قیصرانی

لائبریرین

arifkarim

معطل
یہ " فرقہ واریت " کا زہر ہی جو کہ امت مسلمہ کو پوری طرح مفلوج کیئے ہوئے ہے ۔۔
درست۔ حماس کی فنڈنگ اور امداد قطر، ایران اور ترکی سے آتی ہے۔ جبکہ مغربی کنارہ میں موجود فلسطینیوں کی قیادت فتح کیلئے امداد سعودیہ، اُردن وغیرہ سے آتی ہے۔ جب فلسطینیوں کی سیاسی و عسکری قیادت ایک قومی ہدف کیلئے متحد ہی نہیں تو ہم یہاں کیا بحث و مباحثہ کر رہے ہیں۔
 
غزہ پر اسرائیلی پابندیاں غیر منصفانہ ہیں،برطانوی ارکان پارلیمنٹ
ڈان اردو اور اے پی تاریخ اشاعت 06 اگست, 2014

53e25a08cb0f4.jpg


لندن: برطانوی پارلیمان کی ایک کمیٹی نے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ پراسرائیل کی جانب سے عائد سفری و تجارتی پابندیاں اٹھانے کے لئے دباؤ بڑھائیں۔
برطانوی ایوان زیریں (ہاؤس آف کامنز) کی مختلف جماعتوں کے ممبران پر مشتمل کمیٹی برائے بین الاقوامی ترقی (انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ) نے بدھ کے روز کہا کہ غزہ پر اسرائیل کی جانب سے عائد کردہ پابندیاں منصفانہ نہیں ہیں، بعض پابندیاں عالمی قوانین کی خلاف ورزی میں شمار ہوتی ہیں۔
کمیٹی نے برطانوی حکومت سے کہا ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت پر یہ غیر منصفانہ پابندیاں ہٹانے کے لیے دباؤ ڈالے۔
یاد رہے کے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں کیے جانے والے آپریشن کی حمایت کرنے پر برطانوی وزیر اعظم کو پہلے ہی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
قبل ازیں منگل کے روز کنزرویٹو پارٹی کے اندر اس معاملے پر موجود اختلافات اس وقت کھل کر سامنے آئے جب پارٹی کی رکن اور خارجہ امور کی وزیر سعیدہ وارثی نے غزہ کے معاملے پر وزیر اعظم کی پالیسی کے خلاف احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تھا۔
 
Top