احمدی اقلیت اور ہمارے علما کا رویہ

عرفان سعید

محفلین
غیر مسلم قرار دے دیا، بہترین ہو گیا۔
ختمِ نبوت کا حلف نامہ لے لیا، بہترین ہو گیا۔
اقلیت قرار دے دیا۔
اب امرِ واقعہ ہے کہ قادیانی یہ بات نہیں مانتے، وہ کہتے ہیں ہم بھی مسلمان ہیں (بھائی میں سُنی دیوبندی مسلمان، ختمِ نبوت پر یقین رکھتا ہوں، یہ صرف ان کا دعویٰ بتایا ہے)
دوسرا امرِ واقعہ ہے کہ عام عوام کو اس 'فتنے' سے نمٹنے کا طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ ان سے کم از کم درجے میں قطع تعلق کیجیے، زیادہ سے زیادہ درجے میں کیا؟ اس وقت لاہور میں ان کی عبادت گاہ پر ہونے والا حملہ یاد آ رہا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ پاکستان کے آئین کے تحت عدم امتیاز وغیرہ نہ برتنے، برابری کے حقوق دینے کی باتیں معاشرتی قطع تعلق کے بعد کیسے پوری ہوں؟
زندیق کہہ لیں، منافق کہہ لیں، کافر کہہ لیں، ڈاکو کہہ لیں، بالآخر ہیں تو انسان، خون بھی سرخ ہے، کیا جینے کا حق بھی چھین لیں گے؟
اب اگر جینے کا حق بھی چھیننا ہے تو آئین میں صرف یہی کیوں لکھا کہ غیر مسلم ہیں، یہی لکھ دیتے کہ انہیں یہاں رہنے، اس ہوا میں سانس لینے، اس مٹی کا رزق کھانے کا حق بھی نہیں ہے۔ یہ نہیں لکھ سکے نا، یہ اوپر والے کا حق تھا، ہم بھی انسان یہ بھی انسان، اور سب کا خالق اللہ رب العالمین۔ اب ہوا یہ کہ یہ قادیانی گمراہ ہو گئے، اب ہم، مسلمان، جو گمراہ نہیں ہیں، کیا کریں گے؟
ایک کام تو کر لیا کہ غیر مسلم قرار دے لیا، یہ مانتے نہیں، ہم کہتے مانو، ورنہ بہت بری ہو گی، پھر بھی نہیں مانتے، تو کیا کریں؟ قطع تعلق کر لیں، لین دین ختم کر دیں، یہ روٹی کے محتاج ہو جائیں، اس روئے زمین سے غائب ہو جائیں، ملک چھوڑ جائیں (جو کہ وہ پھر کرتے ہیں، اور اس پر پاکستان کی بدنامی بھی ہوتی ہے)۔
ایک سوال ہے بس، غیر مسلم قرار دے دیا، یہ نہیں مانتے، کیا کریں۔ جینے کا حق چھین لیں اس پر؟ تو قانون سازی کر لیجیے ناں کہ یہ فلاں گروہ ہے، یہ مسلمان نہیں ہے، یہ خود کو دھوکے سے مسلمان کہتا ہے، اور اس کی سزا یہ ہے کہ یہ اس روئے زمین پر چلنے کا حق نہیں رکھتا۔ لیکن یہ کر نہیں سکتے، اس کے نتیجے میں بس یہی کر سکتے ہیں کہ معاشرتی قطع تعلقی کریں، لیکن معاشرتی قطع تعلقی کرنے کی بھی قانون سازی نہیں کر سکتے، یہ امتیازی سلوک کے تحت آ جاتا ہے، نسل پرستی کے تحت آ جاتا ہے۔
تو پھر کیا کریں بتائیں؟
لا الہ اللہ محمد الرسول اللہ، جدی پشتی مسلمان ہوں، قادیانی کو غیر مسلم سمجھتا ہوں، روزِ قیامت نبی اکرم ﷺ کی شفاعت کا طلبگار ہوں، محمد الرسول اللہ ﷺ کے بعد جو کوئی نبی ہونے کا دعویٰ کرے، ظلی، بروزی، امتی نبی کا دعویٰ کرے، جھوٹا ہے کذاب ہے، بکتا ہے، نفسیاتی مریض ہے۔ لیکن یہ اوپر والے سوال، یہ قادیانی خود کو غیر مسلم نہیں مانتے تو کیا کریں، کیا جینے کا حق بھی چھین لیں گے؟
بہت عمدگی سے اصل مسئلے کی نشاندہی کی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
بات سمجھ میں آنے والی ہے۔ آج کے دور میں جب مسلم امہ سیکڑوں فرقوں میں تقسیم ہے، ریاست اپنے تئیں اسلام نافذ کرنا شروع کردے تو مشکل ہوجاتی ہے۔ تاریخ کا وہ تاریک دور بھی سب کے مطالعے میں ہوگا جب ریاست نے اسلام کی اپنی تعریف پر امت کو جمع کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور اس کے نتیجے میں ائمہء اسلام کو قید و بند اور کوڑوں جیسی مشقت جھیلنی پڑی۔ مسلمانوں کے خلیفہ کا نام ہارون رشید اور کوڑے کھانے والے امام کا نام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ تھا۔
اس قسم کے المناک ، شرم ناک، ہولناک تاریخی واقعات یورپ کی Dark Ages میں بھی ہو چکے ہیں۔ جب پاپائے روم و کلیسا ڈنڈا لے کر احکام مسیحیت کی غلط تاویلات کرنے والوں کو قید و بند کی سزائیں سنایا کرتے تھے۔ اس ضمن میں سب سے مشہور واقعہ اطالوی سائنسدان گلیلیو گلیلی کے ساتھ 1633 میں پیش آیا۔ جب اس نے خود دوربین ایجاد کرکے آسمان کی طرف دیکھا اور دنیا کو بتایا کہ سورج زمین کے گرد نہیں گھومتا بلکہ زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ یہ انکشاف رائج الوقت مسیحی تعلیم کے خلاف تھا۔ اس لئے پاپائے روم نے اسے اپنے ان باطل نظریات سے رجوع کرنے تک جیل میں ڈالے رکھا۔ یوں 350 سال انتظار کے بعد بالآخر 1992 میں پاپائے روم نے گلیلیو سے معافی مانگ لی۔ اور اقرار کیا کہ وہ حق پہ تھا۔
After 350 Years, Vatican Says Galileo Was Right: It Moves
 

جاسم محمد

محفلین
ایک سوال ہے بس، غیر مسلم قرار دے دیا، یہ نہیں مانتے، کیا کریں۔ جینے کا حق چھین لیں اس پر؟ تو قانون سازی کر لیجیے ناں کہ یہ فلاں گروہ ہے، یہ مسلمان نہیں ہے، یہ خود کو دھوکے سے مسلمان کہتا ہے، اور اس کی سزا یہ ہے کہ یہ اس روئے زمین پر چلنے کا حق نہیں رکھتا۔ لیکن یہ کر نہیں سکتے، اس کے نتیجے میں بس یہی کر سکتے ہیں کہ معاشرتی قطع تعلقی کریں، لیکن معاشرتی قطع تعلقی کرنے کی بھی قانون سازی نہیں کر سکتے، یہ امتیازی سلوک کے تحت آ جاتا ہے، نسل پرستی کے تحت آ جاتا ہے۔
تو پھر کیا کریں بتائیں؟
بہت عمدگی سے اصل مسئلے کی نشاندہی کی ہے۔
بالکل یہی مسئلہ ہے۔ ریاست و حکومت پاکستان قادیانیوں کے خلاف آئین میں قانون سازی کر کے خود ہی Catch-22 میں پھنس چکی ہے۔
Catch-22 منطق کا وہ پیراڈاکس ہے جو تضادات سے بھرپور صورتحال کا احاطہ کرتا ہے۔ جذباتیات میں آکر قادیانیوں کو آئین میں غیرمسلم اقلیت تو ڈکلیئر کر دیا۔ لیکن وہ مان نہیں رہے۔ تو بائیکاٹ کر لیں لیکن وہ امتیازی سلوک میں آجاتا ہے۔ تو اسلامی ریاست زندیق قرار دے کر قتل کرنا شروع کر دے۔ لیکن وہ انسانی حقوق میں آجاتا ہے۔ پھر اب کیا کریں؟ تب سے تمام مومنین ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے بیٹھے ہیں۔
 

عدنان عمر

محفلین
اس لڑی میں اب تک ہونے والی گفتگو کا اگر خلاصہ پیش کیا جائے تو کچھ یوں ہوسکتا ہے:
  1. ایک کے سوا تمام احباب اس بات پر متفق ہیں کہ قادیانی کافر ہیں۔
  2. بعض احباب کا کہنا ہے کہ یہ ٹھیک ہے کہ قادیانی کافر ہیں لیکن ان کا معاشرتی مقاطعہ (بائیکاٹ) غیر انسانی عمل ہے۔
اب کِیا کیا جائے؟
  • تمام مکاتبِ فکر کی متفقہ رائے کو حتمی مانتے ہوئے قادیانیوں کے معاشرتی بائیکاٹ کو درست،شرعی اور فرض مانا جائے۔
یا پھر
  • قادیانیوں سے میل جول رکھا جائے۔ ان سے ہر طرح کا لین دین کیا جائے۔ انھیں عام غیر مسلموں کے برابر درجہ دیا جائے۔

پہلی رائے کو قبول کرنے کا مطلب ہے کہ ہم قدیم و جدید جمہور علمائے کرام، تبع تابعین، صحابۂ کرامؓ اور رسول اللہ ﷺ پر اعتماد کرتے ہیں۔

دوسری رائے کو اپنانے کا مطلب ہے کہ ہم نے دین کے فہم، تشریح اور تعبیر کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھا لیا ہے۔ اور دین کی صحیح یا غلط، کسی بھی قسم کی تاویل کے ہم خود ذمہ دار ہیں۔ ہاں، دین کی اِس open-ended تعبیر (انٹرپریٹیشن) میں جدید اخلاقی نظریات، جدید فلسفہ، صحیح اور غلط کے بین الاقوامی پیمانے اور ساتھ ساتھ ہمارا نفس ہمارا حامی و مددگار ہوگا۔

اب میرے اور آپ کے پاس آخری سانس سے پہلے تک کا وقت ہے۔ آئیے! اچھی طرح سوچیں، سمجھیں، غور و فکر کریں، مشاورت کریں، اور پھر چاہیں تو فیصلہ کرڈالیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
  1. بعض احباب کا کہنا ہے کہ یہ ٹھیک ہے کہ قادیانی کافر ہیں لیکن ان کا معاشرتی مقاطعہ (بائیکاٹ) غیر انسانی عمل ہے۔
اب کِیا کیا جائے؟
  • تمام مکاتبِ فکر کی متفقہ رائے کو حتمی مانتے ہوئے قادیانیوں کے معاشرتی بائیکاٹ کو درست،شرعی اور فرض مانا جائے۔
یا پھر
  • قادیانیوں سے میل جول رکھا جائے۔ ان سے ہر طرح کا لین دین کیا جائے۔ انھیں عام غیر مسلموں کے برابر درجہ دیا جائے۔
سر! جب تک قادیانی خود کو ریاست پاکستان میں اعلانیہ طور پر مسلم قرار نہ دیں تب تک انہیں عام غیر مسلم اقلیت شمار کرنے میں آخر کیا حرج ہے! لین دین وغیرہ کے معاملات کا ایشو تو تب بنے گا جب وہ ملکی آئین و قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے پر اُتر آئیں؛ یوں بھی یہ زیادہ تر دنیاوی و سماجی معاملات ہیں جن کا عقائد کے نظام کے ساتھ بہت کم تعلق ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ ہمیں شبہ ہے کہ اگر چنگاری مزید بھڑک گئی تو عام مسلمان بھی چن چن کر قادیانیوں کی گردنیں مارنے لگ جائیں گے۔ ہم مسلمانوں نے ریاست سے بہت کچھ منوایا ہے۔ کیا ہم اس پر قانع نہیں رہ سکتے؟ اب اگر کچھ گڑبڑ ہوئی تو یہ سب کچھ ریورس بھی ہو سکتا ہے۔ ان کے عقائد جو بھی ہوں، انہیں زندہ رہنے کا حق تو حاصل ہو گا۔ ہمارا مدعا یہ ہے کہ انہیں اس حق سے بہرصورت محروم نہ کیا جائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہم مسلمانوں نے ریاست سے بہت کچھ منوایا ہے۔ کیا ہم اس پر قانع نہیں رہ سکتے؟ اب اگر کچھ گڑبڑ ہوئی تو یہ سب کچھ ریورس بھی ہو سکتا ہے۔ ان کے عقائد جو بھی ہوں، انہیں زندہ رہنے کا حق تو حاصل ہو گا۔ ہمارا مدعا یہ ہے کہ انہیں اس حق سے بہرصورت محروم نہ کیا جائے۔
بالکل۔ ریاست و حکومت نے اس حوالہ سے جتنے مطالبات ماننے تھے مان لئے ہیں اس لئے اب صبر کریں۔ مسلسل Do more کی رٹ لگائیں گے یا قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں گے تو حالات مزید خراب ہی ہوں گے۔
 

محمد سعد

محفلین
نصوص یعنی واضح اور قطعی دینی احکامات اور تاویلات میں فرق ہوتا ہے۔
اگر نصوص اور تاویلات والا فرق کرنا ہے تو یہ بھی سوچ لیں کہ کسی سے محض ایک مخصوص گھرانے میں پیدا ہو جانے کی بنیاد پر زندہ رہنے کا حق چھیننا بنیادی انسانیت کی "نصوص" کی رو سے غلط اور ظلم ہے۔ اس میں آپ تاویلات اور بہانے نہیں کر سکتے کہ جی وہ فلانی فلانی ٹرمنالوجی کو اگر ہم یہاں اس طریقے سے گھسیٹیں تو وہ زندیق اور مرتد ہوتا ہے جس سے اس کا زندہ رہنے کا حق ہی ساقط ہو جاتا ہے۔ کوئی انسانیت ہے کہ نہیں؟
 

محمد سعد

محفلین
اصل معاملہ یہ ہے کہ ہمیں شبہ ہے کہ اگر چنگاری مزید بھڑک گئی تو عام مسلمان بھی چن چن کر قادیانیوں کی گردنیں مارنے لگ جائیں گے۔
یہ بات اتنی واضح ہونے کے باوجود ان رویوں پر مسلسل اصرار کیا اس بات کو ظاہر نہیں کرتا کہ اصل مقصد بھی یہی ہے؟
 

وجی

لائبریرین
یہ تو اچھی بات ہے کہ آپ اس طرح سوچتے ہیں۔
تھوڑی رہنمائی فرمائیے گا کہ آیا یہ رویہ درست ہے یا غلط ہے جس کی جانب برادر فرقان احمد نے توجہ دلائی ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ کئی جگہ پر ہمارے رویئے بھی ٹھیک نہیں جی بالکل قانون غلط نہیں ہوگا لوگ اور انکی سوچ غلط ہوگی ۔

لیکن یہ رویئے اس وقت تک چلتے رہیں گے جب تک یہ بات طے نہ ہوجائے کہ وہ اپنے آپکو کس مذہب کا ماننے والا سمجھتے ہیں ؟؟
 

فرقان احمد

محفلین
یہ بات اتنی واضح ہونے کے باوجود ان رویوں پر مسلسل اصرار کیا اس بات کو ظاہر نہیں کرتا کہ اصل مقصد بھی یہی ہے؟
سر! عدنان بھیا سلجھی ہوئی شخصیت ہیں۔ اُن کا مدعا اور مقصد یقینی طور پر یہ نہ ہو گا۔ دراصل، وہ علمائے کرام کی رائے کو مقدم گردانتے ہیں جو اس معاملے کے حوالے سے شاید بٹی ہوئی ہے۔ ہم اور آپ تو یوں بھی (بالترتیب جزوی و کُلی طور پر) راندہ درگاہ ہیں؛ ہمارا کیا علاج کسی کے پاس!
 

سید عمران

محفلین
اب احکام اسلام کی کونسی تاویل درست اور کونسی باطل ہے کا فیصلہ اللہ تعالی نے خود زمین پر آکر نہیں کرنا۔
جس بات کو قادیانی نہیں مانتے وہ قرآن و حدیث سے واضح ہے۔۔۔
اس کے لیے اللہ تعالیٰ کو بلانے کی ضرورت نہیں۔۔۔
اس کا فیصلہ مسلمان اسود عنسی اور مسیلمہ کے دور میں کرچکے ہیں اور ایسے مجرموں کے لیے آج بھی وہی سزا ہے۔ولو کرہ الکافرون، چاہے کافروں کو کتنا ہی برا لگے!!!
 

سید عمران

محفلین
اگر نصوص اور تاویلات والا فرق کرنا ہے تو یہ بھی سوچ لیں کہ کسی سے محض ایک مخصوص گھرانے میں پیدا ہو جانے کی بنیاد پر زندہ رہنے کا حق چھیننا بنیادی انسانیت کی "نصوص" کی رو سے غلط اور ظلم ہے۔ اس میں آپ تاویلات اور بہانے نہیں کر سکتے کہ جی وہ فلانی فلانی ٹرمنالوجی کو اگر ہم یہاں اس طریقے سے گھسیٹیں تو وہ زندیق اور مرتد ہوتا ہے جس سے اس کا زندہ رہنے کا حق ہی ساقط ہو جاتا ہے۔ کوئی انسانیت ہے کہ نہیں؟
ابھی قادیانیوں کو مارا پیٹا نہیں گیا تو ہمنواؤں کے کلیجہ میں درد اٹھ رہا ہے گویا تپتی ریت پر ننگے پاؤں نکل آئے۔۔۔
لیکن اس وقت ان کی آوازیں کہاں دفن تھیں جب عراق، افغانستان، شام، لیبیا اور پاکستان میں لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا گیا؟؟؟
قادیانیوں کے خلاف قتل کا صرف فتویٰ دینے سے تو پاکستان کی بدنامی ہوگی لیکن کروڑوں مسلمان کا خون بہانے سے امریکہ کی کوئی بدنامی نہیں ہوئی۔۔۔
واہ صاحب بہادر واہ۔۔۔
آپ نے تو اس شعر کو سچ کردکھایا؎
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
کیا یہ کروڑوں مسلمان انسان نہیں تھے؟؟؟
یعنی انسانیت صرف غیر مسلموں کا خون بہانے سے روکتی ہے۔۔۔
خون بہانے کے لیے غیر مسلموں کے ہاتھ میں تلوار اور مسلمانوں کے منہ میں انسانیت کے نام کا بھونپو۔۔۔
کیا خوب انصاف ہے۔ زبردست۔ تالیاں!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
مسلمانوں کے خلیفہ کا نام ہارون رشید اور کوڑے کھانے والے اور قید وبند کی صعوبتیں اٹحانے والے امام کا نام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ تھا۔
خلیفہ کا نام معتصم باللہ تھا۔۔۔
ہارون کے دور میں امام ابو یوسف قاضی القضاۃ تھے!!!
 
خلیفہ کا نام معتصم باللہ تھا۔۔۔
ہارون کے دور میں امام ابو یوسف قاضی القضاۃ تھے!!!
آپ درست فرماتے ہیں۔ امام صاحب رحمۃاللہ علیہ کو مامون کے دور میں گرفتا کیا گیا اور معتصم باللہ کے دور میں ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ لیکن خلقِ قرآن کو مامون الرشید کے دور میں ہی حکومتی پزیرائی ملی اور رعایا اور علماء سے اس عقیدے کو منوایا جانے لگا۔ ہمارا پوائینٹ عین یہی تھا۔

اب خلافت راشدہ کا دور نہیں آسکتا۔ بہتر فرقوں میں سے کسی ایک کی حکومت ہوگی جو اپنے عقیدوں کو درست اور باقیوں کے عقائد ونظریات کو غلط مان کر چاہیں گے کہ سب مسلمان ان کے عقائد کو درست تسلیم کریں ورنہ قابلِ گردن زدنی ٹھہریں۔ اس لیے بہتر ہے کہ ریاست اس قسم کے معاملات سے دور رہے۔
 

عدنان عمر

محفلین
سر! جب تک قادیانی خود کو ریاست پاکستان میں اعلانیہ طور پر مسلم قرار نہ دیں تب تک انہیں عام غیر مسلم اقلیت شمار کرنے میں آخر کیا حرج ہے! لین دین وغیرہ کے معاملات کا ایشو تو تب بنے گا جب وہ ملکی آئین و قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے پر اُتر آئیں؛ یوں بھی یہ زیادہ تر دنیاوی و سماجی معاملات ہیں جن کا عقائد کے نظام کے ساتھ بہت کم تعلق ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ ہمیں شبہ ہے کہ اگر چنگاری مزید بھڑک گئی تو عام مسلمان بھی چن چن کر قادیانیوں کی گردنیں مارنے لگ جائیں گے۔ ہم مسلمانوں نے ریاست سے بہت کچھ منوایا ہے۔ کیا ہم اس پر قانع نہیں رہ سکتے؟ اب اگر کچھ گڑبڑ ہوئی تو یہ سب کچھ ریورس بھی ہو سکتا ہے۔ ان کے عقائد جو بھی ہوں، انہیں زندہ رہنے کا حق تو حاصل ہو گا۔ ہمارا مدعا یہ ہے کہ انہیں اس حق سے بہرصورت محروم نہ کیا جائے۔
فرقان بھیا! آپ کے خدشات کے جواب میں میرے پاس عقلی دلائل بھی ہیں لیکن میں دینی معاملات میں اپنی عقل اور سمجھ کے بجائے جمہور علمائے کرام کی راہ پر چلنے کو ہی درست سمجھتا ہوں۔
اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ میں اپنی عقل کو اس حد تک سرکشی کی اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ قرآن و حدیث میں مین میخ نکالے۔
یا تو ہم وحیِ الٰہی پر ایمان رکھیں، یا پھر اس کے وحی ہونے کا سرے سے ہی انکار کر دیں۔ کیونکہ انسان ہزار غلطیاں کر کے بھی انسان ہی رہتا ہے لیکن خدا ایک بھی غلطی کرے تو وہ خدا نہیں رہتا۔ بہتر یہی ہے کہ ہم انسان اپنی عقل پر وحی کی برتری کو تسلیم کرلیں۔
اسی لیے میں خدا تعالیٰ کی ذات، خدا کے کلام، اور شریعتِ محمدی کی حقانیت پر یقینِ کامل رکھتا ہوں۔
 

عدنان عمر

محفلین
اگر نصوص اور تاویلات والا فرق کرنا ہے تو یہ بھی سوچ لیں کہ کسی سے محض ایک مخصوص گھرانے میں پیدا ہو جانے کی بنیاد پر زندہ رہنے کا حق چھیننا بنیادی انسانیت کی "نصوص" کی رو سے غلط اور ظلم ہے۔ اس میں آپ تاویلات اور بہانے نہیں کر سکتے کہ جی وہ فلانی فلانی ٹرمنالوجی کو اگر ہم یہاں اس طریقے سے گھسیٹیں تو وہ زندیق اور مرتد ہوتا ہے جس سے اس کا زندہ رہنے کا حق ہی ساقط ہو جاتا ہے۔ کوئی انسانیت ہے کہ نہیں؟
سعد بھیا! جو جواب میں نے فرقان بھیا کو دیا ہے، وہی آپ کی خدمت میں پیش ہے۔
فرقان بھیا! آپ کے خدشات کے جواب میں میرے پاس عقلی دلائل بھی ہیں لیکن میں دینی معاملات میں اپنی عقل اور سمجھ کے بجائے جمہور علمائے کرام کی راہ پر چلنے کو ہی درست سمجھتا ہوں۔
اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ میں اپنی عقل کو اس حد تک سرکشی کی اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ قرآن و حدیث میں مین میخ نکالے۔
یا تو ہم وحیِ الٰہی پر ایمان رکھیں، یا پھر اس کے وحی ہونے کا سرے سے ہی انکار کر دیں۔ کیونکہ انسان ہزار غلطیاں کر کے بھی انسان ہی رہتا ہے لیکن خدا ایک بھی غلطی کرے تو وہ خدا نہیں رہتا۔ بہتر یہی ہے کہ ہم انسان اپنی عقل پر وحی کی برتری کو تسلیم کرلیں۔
اسی لیے میں خدا تعالیٰ کی ذات، خدا کے کلام، اور شریعتِ محمدی کی حقانیت پر یقینِ کامل رکھتا ہوں۔
 

سید عمران

محفلین
امام صاحب رحمۃاللہ علیہ کو مامون کے دور میں گرفتا کیا گیا اور معتصم باللہ کے دور میں ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ لیکن خلقِ قرآن کو مامون الرشید کے دور میں ہی حکومتی پزیرائی ملی اور رعایا اور علماء سے اس عقیدے کو منوایا جانے لگا۔
سر آپ مامون کو ہارون لکھ گئے شاید؟؟؟
:thinking::thinking::thinking:

مسلمانوں کے خلیفہ کا نام ہارون رشید اور کوڑے کھانے والے اور قید وبند کی صعوبتیں اٹحانے والے امام کا نام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ تھا۔
 
کیا عوام یہ معاملات اپنے ہاتھ میں لے لے؟؟؟
پاکستان اور افغانستان جیسے قبائلی معاشرے ہوں گے تو عوام اپنے ہاتھوں میں لیں گے وگرنہ مہذب معاشروں میں نہ حکومت مذہبی معاملات میں مداخلت کرتی ہے اور نہ ہی عوام کو اجازت دیتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے گلے کاٹتے پھریں۔ اپنے مخالفین کو آگ کی بھٹیوں میں جھونکتے پھریں۔
 
Top