احمدی جواب دیتے ہیں

جاسم محمد

محفلین
میں ہندو نہیں ہوں۔ ہندو دھرم کے عقاید سراسر غلط مانتا ہوں۔ پھر میں کس لئے اصرار کروں کہ بھئی میں ہندو ہوں۔

اگر کو ئی اسلام کے عقاید مانتا ہی نہیں تو اسے کیا پڑی ہے خود کو مسلمان منوانے کی۔ ایسی بزدلی کس لئے؟

میں بھی یہاں اقلیت میں جی ریا ہوں۔ پھر بھی اپنے مذہب پر قائم ہوں۔ میں کس لئے اکثریت کا جامہ پہنوں؟
کیا بھارت میں بطور اقلیت آپ پر ایسی پابندیاں ہیں کہ آپ ملک کا وزیر اعظم، صدر یا آرمی چیف نہیں بن سکتے؟ کیونکہ پاکستان میں اقلیتوں کیلئے ایسی پابندیاں ہیں۔
اور مسلمان بجائے ان پابندیوں کے خلاف آواز اٹھانے کے اس پر خوش ہوتے ہیں اور فخر کرتے ہیں۔
قادیانیوں کا غیر مسلم اقلیت ہونا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اقلیتوں کے پاس اکثریت سے کم حقوق کیوں ہیں؟
 

م حمزہ

محفلین
کیا بھارت میں بطور اقلیت آپ پر ایسی پابندیاں ہیں کہ آپ ملک کا وزیر اعظم، صدر یا آرمی چیف نہیں بن سکتے؟ کیونکہ پاکستان میں اقلیتوں کیلئے ایسی پابندیاں ہیں۔
پاکستان خالصتا" ایک مذہبی نظریہ کے تحت وجود میں آیا ہے۔اور بھارت میں ایسا نہیں ہے۔اسلئے وہاں کے سیاسی نظام اور بھارت کے سیاسی نظام میں بنیادی فرق ہے۔

اگرچہ بھارت میں بھی اکثریت کی اجارہ داری ہی چلتی ہے۔
 

آصف اثر

معطل
کیا بھارت میں بطور اقلیت آپ پر ایسی پابندیاں ہیں کہ آپ ملک کا وزیر اعظم، صدر یا آرمی چیف نہیں بن سکتے؟ کیونکہ پاکستان میں اقلیتوں کیلئے ایسی پابندیاں ہیں۔
اور مسلمان بجائے ان پابندیوں کے خلاف آواز اٹھانے کے اس پر خوش ہوتے ہیں اور فخر کرتے ہیں۔
قادیانیوں کا غیر مسلم اقلیت ہونا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اقلیتوں کے پاس اکثریت سے کم حقوق کیوں ہیں؟
بھارت کتنا ”سیکولر“ ہے، اس کے لیے تھوڑی سی تحقیق کرکے ہمیں بھی آگاہ کردیجیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
پاکستان خالصتا" ایک مذہبی نظریہ کے تحت وجود میں آیا ہے۔
معلوم نہیں یہ کیسا مذہبی نظریہ ہے جو کہتا ہے کہ مسلم ملک کی اعلی ترین سیاسی یا انتظامی عہدوں پر اقلیتوں کے آنے سے ملک تباہ ہو سکتا ہے۔ البتہ اگر کسی غیر مسلم ملک میں مسلم اقلیتیں انہی اعلی عہدوں تک پہنچ جائیں تو یہ بہت فخر کی بات ہے۔ اور اس ملک کو ان مسلم اقلیتوں سے کوئی خطرہ نہیں۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
بھارت کتنا ”سیکولر“ ہے، اس کے لیے تھوڑی سی تحقیق کرکے ہمیں بھی آگاہ کردیجیے۔
سیاسی جماعتیں اور لیڈران آتے جاتے رہتے ہیں۔ آج مودی ہے کل نہیں ہوگا۔
جب تک بھارت کا آئین تمام شہریوں کو برابر کے حقوق دیتے ہے۔ اور اکثریت و اقلیت کے بیچ فرق نہیں کرتا۔ تب تک ملک کی سیکولر اساس قائم رہے گی۔
 

احمد محمد

محفلین

م حمزہ

محفلین
معلوم نہیں یہ کیسا مذہبی نظریہ ہے جو کہتا ہے کہ مسلم ملک کی اعلی ترین سیاسی یا انتظامی عہدوں پر اقلیتوں کے آنے سے ملک تباہ ہو سکتا ہے

میں نہیں مانتا کہ آپ اتنی سی سیدھی بات بھی سمجھ نہیں سکتے۔ اگر واقعی آپ نہیں جانتے تو پھر آپ ان جھمیلوں میں ہی مت پڑئیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
موصوف نے بتا دیا ہے محمداحمد بھائی۔
مجھے شبہ تھا خیر آپ نے کنفرم کر دیا۔
اگر یہ صاحب بطور آزاد پاکستانی شہری اپنے حقوق دیگر شہریوں جیسے مانگ رہے ہیں تو یہ مساوات و برابری کا تقاضہ ہے کہ قادیانی اور دیگر اقلیتی شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک بند کیا جائے۔
 

م حمزہ

محفلین
کیا بھارت میں بطور اقلیت آپ پر ایسی پابندیاں ہیں کہ آپ ملک کا وزیر اعظم، صدر یا آرمی چیف نہیں بن سکتے؟ کیونکہ پاکستان میں اقلیتوں کیلئے ایسی پابندیاں ہیں۔
اور مسلمان بجائے ان پابندیوں کے خلاف آواز اٹھانے کے اس پر خوش ہوتے ہیں اور فخر کرتے ہیں۔
قادیانیوں کا غیر مسلم اقلیت ہونا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اقلیتوں کے پاس اکثریت سے کم حقوق کیوں ہیں؟

جی احمد محمد بھائی! یہ بھی۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
میں نہیں مانتا کہ آپ اتنی سی سیدھی بات بھی سمجھ نہیں سکتے۔ اگر واقعی آپ نہیں جانتے تو پھر آپ ان جھمیلوں میں ہی مت پڑئیے۔
آپ دلیل سے ثابت کر سکتے ہیں کہ مسلم ملک میں غیر مسلم کو اعلی عہدے دینے سے وہ ملک کیسے تباہ ہو سکتا ہے؟ اسی طرح کہ غیرمسلم ملک میں مسلم اقلیت کو یہ اعلی عہدے دے دینے سے اس ملک کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے یا نہیں؟
 

احمد محمد

محفلین
آپ دلیل سے ثابت کر سکتے ہیں کہ مسلم ملک میں غیر مسلم کو اعلی عہدے دینے سے وہ ملک کیسے تباہ ہو سکتا ہے؟ اسی طرح کہ غیرمسلم ملک میں مسلم اقلیت کو یہ اعلی عہدے دے دینے سے اس ملک کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے یا نہیں؟

جاسم محمد صاحب، یہ بات دلیل سے ثابت کرنی تو بہت آسان ہے مگر دلیل کے باوجود آپ کو قائل کرنا بے حد مشکل ہے۔ :eek:
 

شکیب

محفلین
جب خطاب کرنے کی باری آئی تو اس ملا نے اپنی تقریر کا آغاز اس شعر سے کیا:

اک کافر کے واسطے اسلام کو چھوڑا
یہ کافر اعظم ہے کہ قائد اعظم

جب مولوی نے قائد اعظم کو کافراعظم کہا تو سٹیج پر بیٹھے تمام ملا بشمول مفتی محمود کے چہروں پر بے ساختہ مسکراہٹ آگئی اور انہوں نے بے اختیار سبحان اللہ، کیا کہنے، کیا کہنے ۔ ۔ ۔ کا ورد الاپنا شروع کردیا۔
مذکورہ واقعے کی سند درکار ہے۔ نیز شعر کا وزن بھی۔
تحریک پاکستان کے دنوں میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولوی مرغوب الحسن نے ممبئی کے اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا:

" جناح نماز نہیں پڑھتے، شراب پیتے ہیں، میں انہیں مسلمان نہیں سمجھتا "

(منقول) باباکوڈا
نماز نہ پڑھنے والے اور شراب پینے والے کو کافر؟
صاحب! اہل دیوبند سے زیادہ محتاط تکفیر کے مسئلے میں شاید ہی کوئی ہو۔ مدارس میں اس کے متعلق باقاعدہ ترہیب کا بندوست ہوتا ہے۔ اور کوئی مسلک گناہگار کو کافر نہیں کہتا۔

ویسے ایک برادرانہ محبت بھرا سوال، کیا آپ کو واقعی اپنے عقیدے پر اطمینان ہے؟
اور یہ بابا کوڈا سے بھی ملوائیے۔
 

فاخر

محفلین
’مولانا مرغوب الحسن مہتمم دارالعلوم دیوبند کا اصل نام کیا تھایہ بتادیں پھر ممبئی کے اخبار کے تراشہ کامطالبہ بعد میں کریں گے ۔ جب جناب کو مولوی مرغوب الرحمٰن کو ’الحسن‘ کرسکتے ہیں تو جان لیجئے اپنے کذاب نبی علیہ ما علیہ کی جھوٹی نبوت کے لیے کیا کچھ نہیں کرسکتے ہیں؟
 
مدیر کی آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
یہ بات دلیل سے ثابت کرنی تو بہت آسان ہے مگر دلیل کے باوجود آپ کو قائل کرنا بے حد مشکل ہے۔
آپ دلیل دے کر دیکھیں شاید سمجھ آہی جائے۔:)
اگر مسلم اقلیت کسی غیر مسلم ملک میں اعلیٰ ترین عہدوں پہ پہنچنے پرفخر محسوس کرتی ہے اور اسے مساوات کی بہترین مثال سمجھتی ہے۔ تو کسی مسلم ملک میں غیر مسلم اقلیت کا انہی اعلیٰ عہدوں پہ پہنچنے پر مسلمانوں کا لایعنی خوف درست رویہ نہیں۔
غیرمسلم( مغربی ممالک )میں تو مسلم اقلیت کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ ان کو وہ تمام حقوق دئے جائیں جو ملک کے دیگر اکثریتی شہریوں کو حاصل ہیں۔
جبکہ اپنے مسلم ممالک میں وہ اقلیتوں اور اکثریت کے مابین فرق رکھتے ہیں۔
جب تک اس غلط رویہ کا سد باب نہیں ہوگا یہ مسائل ایسے ہی چلتے رہیں گے۔
 
اقلیتوں کو دیگر تمام حقوق تو حاصل ہیں جیسے مسلمانوں کو ہیں۔ صرف کوئی غیر مسلم صدر، وزیر اعظم یا آرمی چیف نہیں بن سکتا کیونکہ یہ تینوں عہدیدار حکمران ہوتے ہیں۔
اب یہ اقلیت کا حق کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ 98 فیصد اکثریت پر حکومت کرے؟جبکہ انہیں ملک میں زندگی گزارنے کے تمام حقوق حاصل ہیں تو محض اقلیت کا حکمران نہ ہونا ان کی حق تلفی کیسے ہے؟
اقلیت کیوں چاہتی ہے کہ وہ 98 فیصد اکثریت پر حکومت کرے؟
 

جاسم محمد

محفلین
اقلیتوں کو دیگر تمام حقوق تو حاصل ہیں جیسے مسلمانوں کو ہیں۔ صرف کوئی غیر مسلم صدر، وزیر اعظم یا آرمی چیف نہیں بن سکتا کیونکہ یہ تینوں عہدیدار حکمران ہوتے ہیں۔
اب یہ اقلیت کا حق کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ 98 فیصد اکثریت پر حکومت کرے؟جبکہ انہیں ملک میں زندگی گزارنے کے تمام حقوق حاصل ہیں تو محض اقلیت کا حکمران نہ ہونا ان کی حق تلفی کیسے ہے؟
اقلیت کیوں چاہتی ہے کہ وہ 98 فیصد اکثریت پر حکومت کرے؟
جزاک اللہ۔ اس واضح دلیل اور طویل بحث کے بعد میں مسئلہ کی جڑ تک پہنچ چکا ہوں۔
ایسا لگتا ہے جیسے اکثر پاکستانیوں کو ابھی تک جدید شہریت و قومیت کا کانسپٹ ہی سمجھ میں نہیں آیا۔ بلکہ یہ 72 سال سے ایک آزاد ریپبلک میں رہنے کے باوجود ذہنی طور پر زمانہ قدیم کے نظام شاہی میں جی رہے ہیں۔ جہاں حکمرانی کا مطلب محض رعایا پر حکم چلانے سے زیادہ نہیں ہوتاتھا۔
اگر پاکستان آج بھی قدیم بادشاہت ہوتی تو بلا شبہ ان حالات میں ایسے امتیازی قوانین بنائے جا سکتے تھے۔
لیکن یہ ملک آزاد جمہوریہ ہے۔ جہاں حکمرانی صرف اللہ کی اور عملا عوامی نمائندگان کی ہو سکتی ہے۔
جب تک قادیانی و دیگر اقلیتیں اس ملک کے آزاد شہری ہیں۔ ان کے حقوق و فرائض اکثریت سے مختلف نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ ملک وجود میں آنے کے بعد اب ان کی قومیت و شہریت بلا تفریق مذہب صرف پاکستانی ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک کی اقلیتیں دفاع وطن کی خاطر اپنی جانوں کا تحفہ پیش کریں۔ ہر میدان و شعبہ زندگی میں محنت کر کے ملک کا نام روشن کریں۔ لیکن ایک حد تک پہنچ کر ان کی پروموشن صرف اس لئے روک دی جائے کہ اس سے آگے وہ حکمران بن کر ملک کے لئے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں؟
 

فرقان احمد

محفلین
جزاک اللہ۔ اس واضح دلیل اور طویل بحث کے بعد میں مسئلہ کی جڑ تک پہنچ چکا ہوں۔
ایسا لگتا ہے جیسے اکثر پاکستانیوں کو ابھی تک جدید شہریت و قومیت کا کانسپٹ ہی سمجھ میں نہیں آیا۔ بلکہ یہ 72 سال سے ایک آزاد ریپبلک میں رہنے کے باوجود ذہنی طور پر زمانہ قدیم کے نظام شاہی میں جی رہے ہیں۔ جہاں حکمرانی کا مطلب محض رعایا پر حکم چلانے سے زیادہ نہیں ہوتاتھا۔
اگر پاکستان آج بھی قدیم بادشاہت ہوتی تو بلا شبہ ان حالات میں ایسے امتیازی قوانین بنائے جا سکتے تھے۔
لیکن یہ ملک آزاد جمہوریہ ہے۔ جہاں حکمرانی صرف اللہ کی اور عملا عوامی نمائندگان کی ہو سکتی ہے۔
جب تک قادیانی و دیگر اقلیتیں اس ملک کے آزاد شہری ہیں۔ ان کے حقوق و فرائض اکثریت سے مختلف نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ ملک وجود میں آنے کے بعد اب ان کی قومیت و شہریت بلا تفریق مذہب صرف پاکستانی ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک کی اقلیتیں دفاع وطن کی خاطر اپنی جانوں کا تحفہ پیش کریں۔ ہر میدان و شعبہ زندگی میں محنت کر کے ملک کا نام روشن کریں۔ لیکن ایک حد تک پہنچ کر ان کی پروموشن صرف اس لئے روک دی جائے کہ اس سے آگے وہ حکمران بن کر ملک کے لئے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں؟
قادیانی دیگر غیر مسلموں کی طرح اقلیت ہیں اور انہیں بطور اقلیتی شہری، پاکستان کا آئین اور قانون ہر وہ حق دیتا ہے جو کہ ایک غیر مسلم کو حاصل ہیں۔ جہاں تک پروموشن کی بات ہے، تو ہر ملک میں اس حوالے سے چند معیارات ہوتے ہیں جو کہ مقامی ضروریات اور اکثریتی آبادی کو پیش نظر رکھ کر طے کیے جاتے ہیں۔ کیا دنیا کے تمام ممالک میں ایک ہی قانون چل رہا ہے اور ایک ہی آئین کے تحت ریاستی نظام چلتا ہے۔ ایسا تو ہرگز نہیں ہے۔ اکثریتی آبادی جس طرح سے آئین کو متشکل کرے گی، اسی کے تحت نظام ریاست چلے گا۔ قادیانیوں کے معاملے میں یقینی طور پر ایک اختصاصی معاملہ یہ ہے کہ وہ اسلام کے نام پر اپنے مذہبی عقائد کی ترویج کر رہے ہیں جب کہ دیگر اقلیتوں کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہے۔ مسلم اکثریت کو خدشہ ہے کہ انہیں اعلیٰ سطح پر اختیارات مل گئے تو یہ آئین میں تبدیلی کی راہ نکالیں گے اور یوں خود کو غیر مسلم قرار دلوانے والی شقوں کو آئین سے باہر کر دیں گے۔ دراصل، یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس کے باعث اعلیٰ سطح پر پروموشن کے حوالے سے 'احتیاط' برتی جاتی ہے۔ دوسری جانب، ماضی کی حکومتوں سے یہ کوتاہی ضرور ہوتی رہی ہے کہ قادیانیوں کی عبادت گاہوں کو محفوظ نہ رکھ سکی اور اسی طرح یہ بھی ایک اہم ایشو ہے کہ یہاں کسی کو بھی قادیانی قرار دے کر اس کے خلاف محاذ کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ ایسے ایشوز کے حوالے سے ریاست کو سخت ترین اسٹینڈ لینا چاہیے۔ جہاں تک قربانیوں اور دیگر حقوق کا معاملہ ہے تو یہاں کی اکثریتی آبادی کا حال بھی ملاحظہ کریں؛ سبھی کو گلے شکوے ہیں۔
 
قائد اعظم کے بارہ میں اس وقت کے علما کرام کے چند القابات جو پاکستان بننے کے بعد ملک و قوم کے خودساختہ ٹھیکے دار بن گئے:

تحریک پاکستان کے دنوں کی بات ہے، لاہور کا علاقہ پیسہ اخبار مذہبی تنظیموں کے اجتماع کا گڑھ ہوا کرتا تھا، ان دنوں جمعیت علمائے اسلام کے مولانا غوث ہزاروی کی زیرصدارت ایک جلسہ منعقد کیا گیا جس میں سٹیج پر موجودہ ڈیزل یعنی فضل الرحمان کے والد مولانا مفتی محمود سمیت بڑے بڑے علما موجود تھے۔

اس جلسے میں مجلس احرار کے مولوی مظہر علی اظہر بھی موجود تھے جو اِدھر علی اُدھر کے نام سے مشہور تھے۔ جب خطاب کرنے کی باری آئی تو اس ملا نے اپنی تقریر کا آغاز اس شعر سے کیا:

اک کافر کے واسطے اسلام کو چھوڑا
یہ کافر اعظم ہے کہ قائد اعظم

جب مولوی نے قائد اعظم کو کافراعظم کہا تو سٹیج پر بیٹھے تمام ملا بشمول مفتی محمود کے چہروں پر بے ساختہ مسکراہٹ آگئی اور انہوں نے بے اختیار سبحان اللہ، کیا کہنے، کیا کہنے ۔ ۔ ۔ کا ورد الاپنا شروع کردیا۔

یہ وہ پہلا موقع تھا جب ملاؤں نے قائد اعظم محمد علی جناح کو کافر اعظم کا خطاب دیا اور پھر بعد میں اس پر جم گئے۔ قائد اعظم کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ مسلمانوں کو انگریزوں کے ساتھ ساتھ کانگریس اور ہندوؤں کی غلامی سے نجات دلانا چاہتے تھے اور انہیں وہ سب حقوق دلانا چاہتے تھے جن سے انہیں محروم رکھا گیا۔

دوسری طرف ملا یہ چاہتے تھے کہ انگریز کے جانے کے بعد کانگریس کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خود ساختہ ٹھیکیدار بن کر اقتدار کے حصے دار بن جائیں، پھر متحدہ ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کی تقدیر کا فیصلہ ان ملاؤں کے ہاتھ میں رہے اور تمام خزانوں کی چابیاں بھی ان کے نیفے سے ٹنگی رہیں۔

تحریک پاکستان کے دنوں میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولوی مرغوب الحسن نے ممبئی کے اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا:

" جناح نماز نہیں پڑھتے، شراب پیتے ہیں، میں انہیں مسلمان نہیں سمجھتا "

اسی طرح مودودی نے ایک مرتبہ اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا:

" اگر میں اس بات پر خوش ہوں کہ یہاں رام داس کی بجائے عبداللہ نامی شخص خدائی کے منصب پر موجود ہے تو یہ نیشنلزم ہوگا، اور یہ بھی اتنا ہی ملعون ہے جتنا کہ متحدہ ہندوستان میں رام داس کی حکومت "

یعنی قائداعظم کی شکل میں گورنرجنرل کی حکومت بھی ملعونیت کے اسی درجے پر فائز تھی جس پر نہرو یا گاندھی جیسے کانگرسی لیڈرز کی بھارت میں حکومت۔ تاہم مودودی بھی مفتی محمود اور دوسرے علما کی طرح کانگریسی ہندو رہنماؤں کی حکمرانی کے نیچے کام کرنے کو ہمہ وقت تیار تھے۔

مقصد کہنے کا یہ ہے کہ اگر آج ایک مرتبہ پھر یہ سب منافق مذہبی ملا عمران خان کے خلاف کفر کے فتوے ہاتھوں میں لے کر بھاؤں بھاؤں کرتے سڑکوں اور سوشل میڈیا پر نکل آئے ہیں تو اس کی وجہ بھی وہی ہے جو آج سے 80 برس پہلے تھی۔

اس وقت قائداعظم کی شکل میں ایک ایماندار اور سچا لیڈر تھا، آج اس کی جگہ عمران خان نے لے لی،

اس وقت تحریک پاکستان کا مقدس مرحلہ تھا، آج تکمیل و ترقی پاکستان کا مشن۔

صرف چہرے بدلے ہیں، کردار نہیں۔ آج بھی منافقین اسی طرح اپنی سی کوششوں میں لگے ہیں،

لیکن جس طرح یہ پہلے ذلیل و خوار ہوئے، اسی طرح آج بھی ہو کر رہیں گے، انشا اللہ !!!
(منقول) باباکوڈا
67570733_10156478238044033_2758137751638376448_n.jpg

مفتی محمود کو چھوڑیں علامہ مشرقی کے فرمودات ملاحظہ کریں
یہ تراشہ نوائے وقت 25 ستمبر 1945 کا ہے
 
آپ کے پاس کوئی ثبوت /حوالہ بھی ہے اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کیلئے؟
67570733_10156478238044033_2758137751638376448_n.jpg

مفتی محمود کو چھوڑیں علامہ مشرقی کے فرمودات ملاحظہ کریں
یہ تراشہ نوائے وقت 25 ستمبر 1945 کا ہے
بہت دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے یہ سب درست ہے تاریخ بہت بے رحم ہوتی ہے بلا کم و دست سب کچھ سامنے آ جاتا ہے
 
Top