La Alma
لائبریرین
کیا نتیجہ نکلا کہ بلبل مذکر ہے یا۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُوبرُو کرتے
ہم اور بلبل ِبے تاب گفتگو کرتے
پہلے یہ فیصلہ کریں کہ “گل“ مذکر ہے یا مونث۔ بلبل کی جنس کا خود ہی تعین ہوجائے گا۔
کیا نتیجہ نکلا کہ بلبل مذکر ہے یا۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بلبل ہے کہ ہے محوِ ترنّم اب تکیہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُوبرُو کرتے
ہم اور بلبل ِبے تاب گفتگو کرتے
پہلے یہ فیصلہ کریں کہ “گل“ مذکر ہے یا مونث۔ بلبل کی جنس کا خود ہی تعین ہوجائے گا۔
ہم تو گُل کو مذکر ہی سمجھتے ہیںیہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُوبرُو کرتے
ہم اور بلبل ِبے تاب گفتگو کرتے
پہلے یہ فیصلہ کریں کہ “گل“ مذکر ہے یا مونث۔ بلبل کی جنس کا خود ہی تعین ہوجائے گا۔
اس طریقے سے مسئلہ اور ٹیڑھا ہو جائے گا: گُل اور بلبل دونوں مذکر کہ اوپر والے شعر اور عام اردو شاعری میں "ہم" اور "تجھے" دونوں مذکر، جیسے"تم میرےپاس ہوتے ہو گویا" وغیرہ۔یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُوبرُو کرتے
ہم اور بلبل ِبے تاب گفتگو کرتے
پہلے یہ فیصلہ کریں کہ “گل“ مذکر ہے یا مونث۔ بلبل کی جنس کا خود ہی تعین ہوجائے گا۔
واجدہ تبسم اپنی کتاب ’’ اترن‘‘ کے پیش لفظ قوسِ خیال میں لکھتی ہیں۔
’’ حیدرآبادی زبان وہ واحد زبان ہے ۔۔۔ جس میں مخاطبت کی حد تک تذکیر و تانیث کی بھی کوئی حد نہیں۔کسی بھی حویلی ، محل میں آپ چلے جائیے۔۔ مخاطب نواب صاحب ہوں یا بیگم پاشا۔۔ اندازِ تخاطب دونوں کے لیے ایک ہی ہوگا:
آپ اتّے صبو صبو کاں جارئے۔۔۔۔
اگر عثمانیہ یونیورسٹی سے فرسٹ کلاس فرسٹ کا تمغہ لینے والا۔۔ ایم اےپاس مرد بھی کسی لڑکی یا عورت سے بات کرے گا تو اس کا لہجہ اور انداز ایسا ہوگا جیسے مخاطب کوئی مرد ہے۔حالانکہ گفتگو عورت سے ہورہی ہے۔
’کل آپ وعدہ کرکے بھی نئیں آئے، میں آپ کا کِتّا رستہ دیکھا‘۔
’ آپ چوڑی دار پیجامے میں بہوت اچھے لگ رئے۔‘
’ آپ اگر چوٹی نئیں ڈال کر بال کھلے بھی رکھے توبھی اچھے لگیں گے۔‘
اب لڑکیوں کا اندازِ گفتگو( امراء کی بیٹیاں) ملاحظہ کیجیے۔۔
’’ مما میں آج کالج نئیں جاؤں گا۔۔
’’ بابا جان! ۔۔ میں عیدی میں آپ سے ہلو سونے کے کڑے لیوں گا۔۔
بہت اعلیٰبارہ سنگھا
پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار ایس ۔ پی سنگھا کے گیارہ بچوں کے نام کا آخری جز’’سنگھا‘‘ تھا۔ جب ان کے بارہواں لڑکا پیدا ہوا تو شوکت تھانوی سے مشورہ کیا کہ اس کا کیا نام رکھوں۔ اس پر شوکت صاحب نے بے ساختہ کہا۔
’’آپ اس کا نام ‘‘ بارہ سنگھا ‘‘ رکھ دیجئے ۔‘‘