ادبی لطائف

La Alma

لائبریرین

عرفان سعید

محفلین
یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُوبرُو کرتے
ہم اور بلبل ِبے تاب گفتگو کرتے

پہلے یہ فیصلہ کریں کہ “گل“ مذکر ہے یا مونث۔ بلبل کی جنس کا خود ہی تعین ہوجائے گا۔
ایک بلبل ہے کہ ہے محوِ ترنّم اب تک
اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک

بلبل کا مصداق اگر اقبال ہیں تو اس شعر سے تو صاف مذکر لگ رہا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُوبرُو کرتے
ہم اور بلبل ِبے تاب گفتگو کرتے

پہلے یہ فیصلہ کریں کہ “گل“ مذکر ہے یا مونث۔ بلبل کی جنس کا خود ہی تعین ہوجائے گا۔
اس طریقے سے مسئلہ اور ٹیڑھا ہو جائے گا: گُل اور بلبل دونوں مذکر کہ اوپر والے شعر اور عام اردو شاعری میں "ہم" اور "تجھے" دونوں مذکر، جیسے"تم میرےپاس ہوتے ہو گویا" وغیرہ۔ :)
 
اہلِ حیدرآباد بولتے وقت مذکر مؤنث کی تمیز غیر ضروری خیال کرتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں ہمارے ایک مضمون سے اقتباسات
واجدہ تبسم اپنی کتاب ’’ اترن‘‘ کے پیش لفظ قوسِ خیال میں لکھتی ہیں۔
’’ حیدرآبادی زبان وہ واحد زبان ہے ۔۔۔ جس میں مخاطبت کی حد تک تذکیر و تانیث کی بھی کوئی حد نہیں۔کسی بھی حویلی ، محل میں آپ چلے جائیے۔۔ مخاطب نواب صاحب ہوں یا بیگم پاشا۔۔ اندازِ تخاطب دونوں کے لیے ایک ہی ہوگا:
آپ اتّے صبو صبو کاں جارئے۔۔۔۔

اگر عثمانیہ یونیورسٹی سے فرسٹ کلاس فرسٹ کا تمغہ لینے والا۔۔ ایم اےپاس مرد بھی کسی لڑکی یا عورت سے بات کرے گا تو اس کا لہجہ اور انداز ایسا ہوگا جیسے مخاطب کوئی مرد ہے۔حالانکہ گفتگو عورت سے ہورہی ہے۔
’کل آپ وعدہ کرکے بھی نئیں آئے، میں آپ کا کِتّا رستہ دیکھا‘۔
’ آپ چوڑی دار پیجامے میں بہوت اچھے لگ رئے۔‘
’ آپ اگر چوٹی نئیں ڈال کر بال کھلے بھی رکھے توبھی اچھے لگیں گے۔‘
اب لڑکیوں کا اندازِ گفتگو( امراء کی بیٹیاں) ملاحظہ کیجیے۔۔
’’ مما میں آج کالج نئیں جاؤں گا۔۔
’’ بابا جان! ۔۔ میں عیدی میں آپ سے ہلو سونے کے کڑے لیوں گا۔۔
 

شمشاد خان

محفلین
منیر نیازی ایک دفعہ کراچی گئے تو جون ایلیا نے انہیں کہا، "منیر خان! تمھارے بال سفید ہو گئے ہیں"
منیر نیازی نے جواب دیا، "بچّو! جو مجھ پر گزری ہے تم پر گزرتی تو تمھارا خون سفید ہو جاتا۔"
 

شمشاد خان

محفلین
خوشونت سنگھ ایک جگہ اپنے متعلق لکھتے ہیں "خالصتان کی تحریک کے دوران میں نے سکھ قیادت کی غلطیوں کی نشان دہی کی۔ میری اس جسارت پر سکھ برادری مجھ سے ناراض ہو گئی اور مجھے سکھوں نے دنیا بھر سے گالیوں بھرے خط لکھنا شروع کر دیئے۔
.
مجھے گالیوں سے بھرا ہوا کلسیک خط کینیڈا سے کسی سکھ نے لکھا ،یہ خط گورمکھی زبان میں تھا ،لفافے پر انگریزی کے چار حرف لکھے تھے

" باسٹرڈ خوشونت سنگھ انڈیا"

یہ خط کینیڈا سے پوسٹ کیا گیا اور میں بھارتی محکمہ ڈاک کی کارکردگی پر حیران رہ گیا کیونکہ محکمہ ڈاک نے سوا ارب کی آبادی میں موجود واحد باسٹرڈ کو تلاش کر کے یہ خط مجھ تک پہنچا دیا۔ میں بڑے عرصے تک یہ خط اپنے دوستوں اور ملاقاتیوں کو دکھاتا تھا اور اس کے بعد ان سے کہتا تھا ،تم لوگ اس کے باوجود محکمہ ڈاک کی کارکردگی سے غیر مطمئن ہو۔
 

شمشاد خان

محفلین
ایک نوجوان لڑکی نے کہا : فیض صاحب! مجھ میں بڑا تکبر ہے اور میں انا کی بہت ماری ہوئی ہوں۔جب صبح میں شیشہ میں دیکھتی ہوں تو میں سمجھتی ہوں کہ مجھ سے زیادہ خوبصورت اس دنیا میں اور کوئی نہیں"

فیض صاحب کہنے لگے " بی بی ! یہ تکبر اور انا ہر گز نہیں یہ غلط فہمی ہے۔"
 

شمشاد خان

محفلین
علامہ نیاز فتح پوری زیادہ تر سایئنٹفک فلمیں پسند کرتے تھے۔عائشہ خان نے ایک بار پوچھا، " آپ رومانی فلمیں کیوں نہیں دیکھتے؟"

تو بولے، " رومان کیا جاتا ہے ،دیکھا نہیں جاتا۔"
 

سیما علی

لائبریرین
پشتو کے مشہور ادیب پری شان خٹک مرحوم کو ایک سیمینار کے سلسلے میں کراچی جانا تھا۔ منتظمین نے انہیں لینے کے لئے ائر پورٹ گاڑی بھیجی تھی جس کا ڈرائیور ایک ان پڑھ پٹھان تھا۔ وہ ایک تختی، جس پر پریشان خٹک کا نام لکھا تھا، اٹھائے جہاز کے آنے کا انتظار کر رہا تھا۔ شومئی قسمت سے جہاز لیٹ ہو گیا۔ جہاز آنے کے بعد جب پریشان خٹک جہاز سے اتر کر باہر آئے تو دیکھا ایک شخص ان کے نام کی تختی اٹھائے کھڑا ہے۔ وہ سیدھا اس کے پاس گئے اور بطور تعارف کہا: "میں پریشان ہوں"

ڈرائیور نے انہیں غصے میں دیکھا اور کہا" زہ مڑہ! ہم تم سے زیادہ پریشان ہے"
:crying3::crying3:
 

شمشاد

لائبریرین
ایک پیروڈی مشاعرے کا قصہ

دہلی میں ایک پیروڈی شاعری کا مشاعرہ تھا۔ جب گلزار زتشی کا نام صدارت کےلیے پیش کیا گیا تو وہ انکسار سے بولے : "حضور میں صدارت کا اہل کہاں ہوں؟"

اس پر کنور مہندر سنگھ بیدی نے فرمایا، "مطمئن رہیں، آپ بھی صدر کی پیروڈی ہی ہیں۔"
 

شمشاد

لائبریرین
مگر غریب کو کس جرم کی سزا دی ہے

گوپی ناتھ امن کے فرزند کی شادی تھی۔ انہوں نے دہلی کے دوست شعراء کو بھی مدعو کیا۔ ان میں کنور مہندر سنگھ بیدی بھی شریک تھے۔ ہر شاعر نے شہرا یا دعائیہ قطعہ یا رباعی سنائی۔ امن صاحب نے بیدی صاحب سے درخواست کی کہ آپ بھی کچھ ارشاد فرمائیے۔ تو بیدی صاحب نے یہ شعر فی البدیہ کہہ کر پیش کر دیا :

جناب امن کے لخت جگر کی شادی ہے
مگر غریب کو کس جرم کی سزا دی ہے
 

شمشاد

لائبریرین
مدح زلف یار

دہلی کے ایک نظم گو شاعر زلف کی تعریف میں ایک اچھی خاصی طویل نظم سنا رہے تھے۔ جب نظم سے لوگ اکتا گئے تو کنور مہندر سنگھ بیدی نےکہا قبلہ یہ زلف بھی کیا زلف ہے کہ اس کی تعریف میں آپ اتنی لمبی نظم سنا رہے ہیں۔ تو وہ فوراً بولے، "کنور صاحب میں اپنے محبوب کی زلف کی تعریف کر رہا ہوں، آپ کی زلف کی نہیں۔"
 

شمشاد

لائبریرین
پروین شاکر کی چائے

اسلام آباد میں جوش صاحب کی کوٹھی میں شعرائے کرام کی نشست تھی۔ خواتین میں پاکستان کی مشہور شاعرہ پروین شاکر بھی موجود تھیں۔ کچھ دیر بعد مہمانوں کے لئے چائے لائی گئی۔ تو پروین شاکر چائے بنانے کا فریضہ سر انجام دینے لگیں۔ وہ ہر ایک سے دودھ اور شکر کا پوچھ کر حسب منشا چائے بنا کر دے رہی تھیں۔ آخر میں انہوں نے جوش صاحب سے دریافت کیا :

"آپ کے لیے شکر کتنی؟"
"ایک چمچ" جوش صاحب نے جواب دیا۔
دوبارہ پروین شاکر نے پوچھا، "جوش صاحب دودھ کتنا؟"
"بس دکھا دو" جوش صاحب نے جواب دیا۔

اس پر محفل میں ایک زور در قہقہہ بلند ہوا اور پروین شاکر جھینپ کر رہ گئیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
بے وفا کے کوچے میں

نوعمر ی کے زمانے میں شوکت تھانوی نے ایک غزل کہی اور بڑی دوڑ دھوپ کے بعد ماہنامہ’’ترچھی نظر‘‘ میں چھپوانے میں کامیاب ہوگئے ۔ غزل کا ایک شعر تھا ۔

ہمیشہ غیر کی عزت تری محفل میں ہوتی ہے
ترے کوچے میں جاکر ہم ذلیل و خوار ہوتے ہیں

شوکت تھانوی کے والد کی نظر سے اپنے صاحبزادے کایہ کارنامہ گزرا تو اس شعر کو پڑھ کر بہت سیخ پا ہوئے اور شوکت کی والدہ کو یہ شعر سناکر چیختے ہوئے بولے۔’’میں پوچھتا ہوں یہ آوارہ گرد آخر اس کوچے میں جاتا ہی کیوں ہے؟‘‘
 

شمشاد

لائبریرین
بارہ سنگھا

پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار ایس ۔ پی سنگھا کے گیارہ بچوں کے نام کا آخری جز’’سنگھا‘‘ تھا۔ جب ان کے بارہواں لڑکا پیدا ہوا تو شوکت تھانوی سے مشورہ کیا کہ اس کا کیا نام رکھوں۔ اس پر شوکت صاحب نے بے ساختہ کہا۔

’’آپ اس کا نام ‘‘ بارہ سنگھا ‘‘ رکھ دیجئے ۔‘‘
 

شمشاد

لائبریرین
کلی کا چٹکنا اور جوتی کا چٹخنا

ایک بے تکلف محفل میں مجنوں گورکھپوری نے فراق صاحب سے پوچھا :

’’چٹکنا، اور چٹخنا ‘ میں کس کااستعمال کہاں کرنا مناسب ہے ؟‘‘

فراق صاحب نے پہلے تو قہقہہ لگایا پھر بولے:

’’چٹکتی ہے کلی اور جوتیاں چٹخائی جاتی ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
’’اے چودھری صاحب! آج آپ ننگے ہی چلے آئے ۔‘‘

پنجاب کے مشہور قانون داں چودھری شہاب الدین علامہ کے بے تکلف دوستوں میں سے تھے ۔ ان کا رنگ کالا اور ڈیل ڈول بہت زیادہ تھا ۔ ایک روز وہ سیاہ سوٹ پہنے ہوئے اور سیاہ ٹائی لگائے کورٹ میں آئےتو اقبال نے انہیں سرتاپا سیاہ دیکھ کر کہا:

’’اے چودھری صاحب! آج آپ ننگے ہی چلے آئے ۔‘‘
 

سیما علی

لائبریرین
بارہ سنگھا

پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار ایس ۔ پی سنگھا کے گیارہ بچوں کے نام کا آخری جز’’سنگھا‘‘ تھا۔ جب ان کے بارہواں لڑکا پیدا ہوا تو شوکت تھانوی سے مشورہ کیا کہ اس کا کیا نام رکھوں۔ اس پر شوکت صاحب نے بے ساختہ کہا۔

’’آپ اس کا نام ‘‘ بارہ سنگھا ‘‘ رکھ دیجئے ۔‘‘
بہت اعلیٰ
 

سیما علی

لائبریرین
فراق گورکھپوری کو برجستہ جواب

ڈاکٹر اعجاز حسین الٰہ آبادی یونیورسٹی میں غزل پڑھا رہے تھے۔فراق گورکھپوری بھی وہاں بیٹھے تھے۔انہوں نے ڈاکٹر اعجاز حسین سے پوچھا: یہ ایسا کیوں کہا جاتا ہے کہ غزل گو شعراء عام طور سے بد کردار ہوتے ہیں؟۔
اعجاز صاحب برجستہ بولے: ان کے سامنے آپ کی مثال رہتی ہے۔
کلاس میں ایک زبردست قہقہہ پڑا اور فراق صاحب کی آواز قہقہوں میں دب گئی،وہ جو اب میں کچھ کہنا چاہتے تھے۔
 
Top