ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
ۃ کی شکل ہائے ملفوظی کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ بلکہ یہ رائج بھی ہے۔ صلوٰۃ کا درست تلفظ میرا خیال ہے کہ /s^la:h/ ہی ہے۔
لیکن ریحان میرے خیال میں ۃ تو اردو میں بھی ت کی آواز رکھتی ہے اس کو ہ میں بدلنا عربی ہی کا طریقہ ہے اردو نہیں (کلمے کے آخر میں سکون کے شکل میں) اردو میں اس کو ت سے بد دیا جاتا ہے ۔جیسے قدرۃ کو قدرت ،فطرۃ کو فطرت ،حرارۃ کو حرارت اور ضرورۃ کو ضرورت وغیرہ ۔
علاوہ ازیں ہم صلوۃ کو نماز کہتے ہیں ۔لیکن اگر صلوٰۃ کہیں بھی تو اردو میں صلات ہی کہتے ہیں ۔ ( صلاہ ۔ کا یہ تلفظ اردو میں عرب ممالک ہی میں محدود ہے کیوں کہ عرب ماحول اور مخاطبین کا خیال رکھنا ہوتا ہے اور بس ) ۔ اسی طرح معاملہ زکوٰۃ کا ہے ۔ ہم کبھی زکاہ نہیں کہتے ہمیشہ زکات ہی کہتے ہیں ۔ جبکہ لکھتے ہم اردو میں بھی زکوٰۃ ہی ہیں ہمیشہ ۔ اور صلوٰۃ بھی ۔
ذرا اردو میں ۃ کی کچھ مثالیں بتائیے میرے ذہن میں ہی نہیں آ رہیں فی الحال ۔ یہ بات دلچسپ لگتی ہے ۔
عاطف بھائی ، اس سلسلے میں املا کمیٹی کی سفارش یہ ہے کہ جن الفاظ کا چلن صدیوں سے "ۃ" کے امال کے ساتھ ہے انہیں برقرار رکھنا چاہئے ۔ مثلاً صلوٰۃ ، زکوٰۃ ، مشکوٰۃ وغیرہ ۔ دوسری بات یہ کی ان الفاظ کی تراکیب بناتے وقت تو "ۃ" کا استعمال ناگزیر ہے ۔ مثلاً صلوٰۃ الجنازہ کو صلات الجنازہ اور زکوٰۃ الفظر کو زکات الفظر لکھنا عجیب و غریب لگے گا ۔ مختصر یہ کہ اردو میں "ۃ" کا استعمال محدود سہی لیکن وجود تو رکھتا ہے ۔ "ۃ" کو کسی اور آواز کے لئے استعمال کرنا تو مزید مسائل اور مشکلات پیدا کردے گا ۔