محمد شکیل خورشید
محفلین
بہت شکریہ عنائت بہناشکیل خورشید۔۔۔
خراج تحسین پیش کرتے ہوئے
اے میرے سد پارہ
وہ رستے دیکھے بھالے تھے
وہ منظر آشنا سے تھے
وہ نجن سے ہو کے
لوٹ کر پھر آنا تھا واپس
وہ رستے اس کے قدموں میں
ہمیشہ بچھتے آئے تھے
آپ کی اجازت سے مکمل متن یہاں پیش کررہا ہوں
اے مرے سد پارہ
وہ رستے دیکھے بھالے تھے وہ منظر آشنا سے تھے
وہ جن سے ہوکے اس کو لوٹ کر آنا تھا پھر واپس
وہ رستے اس کے قدموں میں ہمیشہ بچھتے آئے تھے
کبھی برفاب چاہت سے، کبھی گلنار الفت سے
وہ رستے یار تھے اس کے، وہی دلدار تھے اس کے
اسے بھی عشق تھا ان سے اسے بھی انس تھا ان سے
وہ اس کے ہمسفر ، ہم راہی اور ہمراز تھے کب سے
ہمیشہ لوٹ آتا تھا وہ ان رستوں پہ جا کر بھی
وہ اپنے ساتھ لے کر پھول، قصے اور تصویریں
کسی گمنام چوٹی کی کشادہ بانہہ کی خوشبو،
کسی بے نام پگڈنڈی کی جوتوں پر لگی مٹی
کسی ان دیکھی انجانی مسافت کی حسیں باتیں
کہیں صبحوں کی تصویریں تو کچھ راتوں کے رنگ و بو
وہ اپنے ساتھ لے کر لوٹ آتا تھا یہ سب یادیں
مگر یہ کیا ہوا اس بار کیوں یہ قاعدہ بدلا
وہ جس رستے سے جاتا تھا اسی رستے نہ کیوں لوٹا
وہاں کس بے خبر لمحے میں کوئی حادثہ گزرا؟
کسی انجان رستے پر کہاں وہ آسرا ٹوٹا
کہ وہ رستوں کا شیدا، چوٹیوں کے حسن کا عاشق
بچا پایا نہ خود کو اور وہیں برفیلے مدفن میں
ابد کی نیند میں آرام کرنے رک گیا تھک کر
مرے ہیرو، مرے سد پارہ، میرے دیس کی عزت
ہمیں شرمندگی ہے ہم قدر تیری نہ کر پائے
ترے رستوں میں پیدا کر نہ پائے کوئی آسانی
مگر وہ اوج جس پر ایستادہ ہے تری عظمت
وہ ہمت ، عزم ، طاقت اور مہم جوئی کا مینارا
سدا گونجے گا کے ٹو کے بلندو بالا پربت میں
تمہارا نام سد پارہ، تمہارا نام سد پارہ