اردو محفل کا سکول (5)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ہمیں نرم خوئی کا حکم ہے - بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی شخص کے فعل پر ہمیں بہت غصہ آ رہا ہوتا ہے - لیکن آپ اس کے باوجود کہ اس پہ غصہ کیا جانا چائے آپ غصہ نہیں کرتے ہیں - یہ ان کا کمال فن ہوتا ہے یا پھر وہ نان ڈگری ماہر نفسیات ہوتے ہیں - ایک بار ایسا ہی ایک واقعہ میرے ساتھ بھی پیش آیا - میں ایک ضروری میٹنگ کے سلسلے میں مری گیا - وہ بارشوں کا موسم تھا - اب میں جلدی میں تھا اور میں نے دو جوڑے ہی کپڑوں کے ساتھ لیے تھے - راستے میں موسلا دھار بارش ہوئی اور خوب برسی - اس شدید بارش میں باوجود بچنے کے میں شدید بھیگ گیا - میں شام کو مری پہنچا - میں خود بھیگ چکا تھا جب کہ دوسرا جوڑا میرے پاس تھا ، پانی اس میں بھی گھس گیا - اب میں سخت پریشان - اگلے روز میٹنگ بھی اٹینڈ کرنی تھی - خیر میں مال روڈ پر آگیا کہیں سے کوئی لانڈری وغیرہ مل جائے تا کہ وہ کپڑے سکھا کر استری کر دے - مجھے مال پر تو کوئی لانڈری نہ ملی ، البتہ لوئر بازار میں چھوٹی سی ایک دکان نظر آئی جس پر لکھا تھا " کپڑے چوبیس گھنٹے میں تیار ملتے ہیں " میں یہ پڑھ کر بہت خوش ہوا اور جا کر کپڑے کاؤنٹر پر رکھ دیے - دکان کے مالک بابا جی نے کپڑوں کو غور سے دیکھا ، پھر بولے ٹھیک ہے " پرسوں شام کو لے جانا - جمعرات کی شام مغرب سے پہلے - "
میں نے ان سے کہا کہ " حضور آپ نے تو چوبیس گھنٹے میں تیار کرنے کا بورڈ لگایا ہوا ہے ؟"
وہ بابا جی (ذرا بڑی عمر کے تھے ) مسکرا کر بولے " ٹھیک ہے بیٹا چوبیس گھنٹوں میں ہی تیار کر کے دیتے ہیں - لیکن ہم روزانہ صرف آٹھ گھنٹے کام کرتے ہیں - آٹھ گھنٹے آج ، آٹھ گھنٹے کل ، اور آٹھ گھنٹے پرسوں - یہ کل چوبیس گھنٹے بنتے ہیں - آپ کے کپڑے پرسوں شام چوبیسواں گھنٹہ ختم ہونے سے پہلے مل جائیں گے - "
اب میں حیران و پشیمان کھڑا بابا جی کا منہ دیکھ رہا ہوں کہ انھوں نے کس طرح سے چوبیس گھنٹے پورے کر دیے اور میرے پاس کوئی جواب بھی نہ تھا -

از اشفاق احمد زاویہ ٣ ضمیر کا سگنل
 
اب میں سوچتا ہوں کہ کیا روشنی اس طریقے سے پھیلے گی ، جس طرح ویسٹ والے کہ رہے ہیں کہ اگرابلاغ ہو ، کھل کے بات کی جائے اور دور دور تک پہنچائی جائے تو وہ دور دور تک پہنچ سکتی ہے -
اس طرح سے بات دور دور تک پہنچتی تو ضرور ہے لیکن دلوں میں نہیں اترتی - ہم یہ بات جاننا چاہتے ہیں کہ وہ لائٹ ہاؤس ہمیں پروائیڈ کیا جائے ، وہ روشنی کا مینار ہمیں چاہئے جو مدینہ شریف کی ایک چھوٹی سی مسجد میں ٹمٹماتا تھا ، اور وہ ایک ایسی مسجد میں تھا جس کے شہتیروں سے لوگوں کا سرلگتا تھا - اس چھوٹے سے دیے نے کہاں کہاں تک اپنی روشنی پہنچا دی کہ پوری دنیا سیراب ہو گئی - اس نے اپنا وہ نور بغیر ٹی وی ، ریڈیو کے آخر کیسے پہنچا دیا

از اشفاق احمد زاویہ ٣ لائٹ ہاؤس
بہت خوب !
 

غ۔ن۔غ

محفلین
hazrat_musa_alehi_salam_and_qasab.jpg
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
خواتین و حضرات ! آپ کبھی شام کو جب اکیلے لیٹے ہوئے ہوں ، تو ایک پہلو لیٹ کر ایک کان تکیے سے لگا کر اور دوسرے کان پر بازو رکھ کی دیکھئے گا آپ کو اپنے دل کے دھڑکنے کی آواز واضح آئے گی - آپ دیر تلک اس کا مشاہدہ ضرور کیجئے گا - اس آواز میں کئی باتیں پوشیدہ ہیں کئی سبق اور اسرار موجود ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے - قدرت نے انسان کو ایک ایسی بڑی نعمت سے نوازا ہے - جسے ہم ضمیر کہتے ہیں - جب بھی ہم سے کوئی اچھائی یا برائی سرزد ہو تو یہ اپنے خصوصی سگنل جاری کرتا ہے ان سگنلز میں کبھی شرمندگی کا احساس نمایاں ہوتا ہے تو کبھی ضمیر سے آپ کو very good کی آواز آتی ہے -
آپ کسی یتیم کے سر پر دست شفقت رکھتے ہیں یا کسی نابینا کو اپنا ضروری کام چھوڑ کر سڑک پار کر واتے ہیں تو آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کے ضمیر نے آپ کو شاباش دی ہے - پیار سے تھپکی دی ہے - انسان خود میں عجیب طرح کی تازگی اور انرجی محسوس کرتا ہے -
جب ہم اپنے کسی نوکر کو جھڑکیاں دیتے ہیں ، کسی فقیر کو کوستے ہیں یا کوئی بھی ایسا عمل کرتے ہیں جس کی ہمیں ممانعت کی گئی ہے ، تو یہ ضمیر تنگی محسوس کرتا ہے ایک ایسا سگنل بھیجتا ہے جس سے ہمیں بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ شاید یہ کام درست نہیں ہوا -

از اشفاق احمد زاویہ ٣ ضمیر کا سگنل
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
مجھے معلوم ہے آپ کو سکون اور مسرت کی تلاش ہے - لیکن سکون تلاش سے کس طرح مل سکتا ہے - سکون اور آسانی تو صرف ان کو مل سکتی ہے جو آسانیاں تقسیم کرتے ہیں ، جو مسرتیں بکھیرتے پھرتے ہیں - اگر آپ کو سکون کی تلاش ہے تو لوگوں میں سکون تقسیم کرو ، تمھارے بورے بھرنے لگیں گے ...........طلب بند کرو دو .........!

یہ دولت صرف دینے سے بڑھتی ہے - احمقوں کی طرح بکھیرتے پھرنے سے اس میں اضافہ ہوتا ہے - الله سائیں کے طریق نرالے ہیں - سکون کے دروازے پر بھکاری کی طرح کبھی نہ جانا ، بادشاہ کی طرح جانا ، جھومتے جھامتے ، دیتے بکھیرتے ................ کیا تم کو معلوم نہیں کہ بھکاریوں پر ہر دروازہ بند ہو جاتا ہے ، اور بھکاری کون ہوتا ہے - وہ جو مانگے ، جو صدا دے ، تقاضا کرے اور شہنشاہ کون ہوتا ہے جو دے عطا کرے - لٹاتا جائے پس جس راہ سے بھی گزرو بادشاہوں کی طرح گزرو شہنشاہوں کی طرح گزرو .......... دیتے جاؤ دیتے جاؤ - غرض و غایت کے بغیر - شرط شرائط کے بغیر -

از اشفاق احمد زاویہ ٣ محبّت کی حقیقت
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
جب بچے بڑی یونیورسٹیوں میں پڑھنے کے لیے چلے جاتے ہیں تو میری طرح کے تھوڑے پڑھے لکھے والدین خوفزدہ ہو جاتے ہیں - ایک بار دو بابے بیٹھے ہوئے تھے اور باتیں کر رہے تھے - ایک نے کہا کہ یار میرا بیٹا جو خط لکھتا ہے تو مجھے بڑی پریشانی ہوتی ہے اور مجھے اس کے خط کولےکر لائبرری جانا پڑتا ہے - اور مجھے وہاں جا کر موٹی ڈکشنری کھول کر مشکل الفاظ کے معانی دیکھنے پڑتے ہیں کیونکہ میں زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہوں -
دوسرا کہنے لگا یار کیا کمال کی بات ہے میرے بیٹے کا جب بھی خط آتا ہے تو مجھے بینک جانا پڑتا ہے ، کیونکہ اس نے خط میں پیسے مانگے ہوئے ہوتے ہیں -

از اشفاق احمد زاویہ ٢
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
لیکن ہمیں اس بات پر یقین نہیں ہوتا کہ فلاں آیت مبارکہ پڑھنے سے سردرد کو فوری آرام مل جائے گا ، یا رزق میں برکت آئے گی - اس بات پریقین نہیں کہ صدقہ دینے سے اس کا ١٠ فیصد اضافہ دنیا اور ٧٠ فیصد آخرت میں اضافہ ملے گا -
اگر صرف اس ایک بات پر عمل پیرا ہو جائیں گے ہم انفرادی طور پر اپنے مالوں سے صدقہ خیرات کرنا شروع کر دیں تو یقین کیجیے کوئی محتاج یا زکوات لینے والا نہ رہے - ہم اگر باہمی اتحاد کا مظاہرہ کریں ، مٹی سے پیار اپنے عقیدے میں شامل کر لیں اور خدا کی مکمل رحمت پر یقین کر لیں تو ہم ایسے بلکل نہ رہیں گے جیسے آج ہیں -
اگر ہمیں دو گولی ڈسپرین سے زیادہ یقین اپنے رب پے آ جائے اور ہم حکومت کو ایک طرف رکھ پر اپنے مسائل کی بابت خود سوچنے لگیں تو ہم زیادہ خوش و خرم اور توانا ہو جائیں گے - بات آنکھیں بند کر کے مکمل اور کامل یقین کی ہے اور اس یقین میں کوئی شک و شبہ یا وہم نہ ہو - ہمارا دل جسم یک زبان ہو کر خدا کی قدرت پر یقین رکھ کر تھیا تھیا ناچ رہے ہوں پھر کسی میں نہ ہمیں جدا کرنے کا یارا ہوگا اور نہ ہمیں کسی پر تنقید کی ضرورت ہوگی ہمارا نفس مطمئن ہوگا اور ہم کبھی پریشان حال نہ ہونگے -
آپ میرے لیے بھی دعا کیجیے گا کہ میں دو گولی ڈسپرین کے بجائے اپنے قادر مطلق پر زیادہ یقین کر لوں -
الله تعالیٰ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے آمین

از اشفاق احمد زاویہ ٣ دو گولی ڈسپرین اور یقین کامل
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
جب میں چھوٹا سا تھا تو ایک معصوم بچہ تھا - پیارا اور اچھا بچہ تھا - نیک اور مخلص ہی تھا - میں اپنے آپ کو جانتا تھا ، اپنے کھلونوں کے حوالے سے اور اپنے ماں باپ کے حوالے سے -
ایک دن میری خالہ ہمارے گھر آئیں اور انھوں نے مجھے دیکھ کر میری ماں سے کہا
" آپا یہ تو بہت پیارا بچہ ہے - یہ تو بھائی جان جیسا ہے - میں نے پہلی دفعہ یہ بات سنی کہ میں تو ابا جی جیسا ہوں - "
اس احساس سے میری معصومیت کم ہونا شروع ہو گئی اور میں ابا جی بن گیا -
ایک دفعہ پھر میری دوسری ماسی یا پھوپھی آئیں تو انھوں نے میری تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو ماشاءالله بڑا ذہین بچہ ہے اور ذھانت میں اپنے بڑے بھائی سے بھی بڑھ کر ہے -
میں نے سوچا کہ چلو بات بنی اب تو میں اپنے بڑے بھائی کو بھی کاٹ گیا ہوں -

خواتین و حضرات ! میں آپ ، لاہور میں بسنے والے اور سب انسان اور پوری کائنات میں ہر شخص اپنےself (سیلف) کے بارے میں نہیں جانتا ہے - اور سب نے اپنے ارد گرد چھوٹی تختیاں اور سائن بورڈ لٹکا رکھے ہیں - کسی نے سنگلی ڈال کر اس تختی کو گلے میں ڈال رکھا ہے جس پر ذہین لکھا ہے - کسی نے رائٹر ، کسی نے ماہر نفسیات ، کسی نے ڈاکٹر لکھوا رکھا ہے - جب کہ انسان کی اپنی ذات کہیں نیچے چھپی ہوئی ہے - مراقبہ کرنے سے انسان کو اپنے اندر کا حال پتا چلتا ہے ہمارے بابا جی نے ہمیں مراقبہ کرنے کا طریقہ سکھایا ہے کہ کس طرح سے بیٹھنا ہے ، اور کیا کرنا ہے -

از اشفاق احمد زاویہ ٣ وزڈم آف دی ایسٹ
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
میں نے اپنی شوخی اور جینٹلمینی میں کئی شوق پال رکھے تھے اور میں اونچی سوسائٹی میں بھی آنا چاہتا تھا - اس گھمنڈی شوق کے پیش نظر میں گالف کھیلنے لگا - ایک دفعہ میں اور میری طرح کے دیگر دوستوں نے کہا موسم بہت اچھا ہے گالف گراؤنڈ میں چلتے ہیں -

جب ہم وہاں گئے تو کئی شوقین مزاج لوگ گراؤنڈ میں جمع تھے حالانکہ وہ صبح کا وقت تھا اور ایک ورکنگ ڈے تھا - ان لوگوں میں ایک سنہرے بالوں والا گورا بھی تھا - وہ بڑا صحت مند ، خوبصورت اور صاف ستھرا تھا - جب وہ ساتھ چلتا تو سامان کا تھیلا اٹھانے والا بھی اس کےساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلتا عام طور پر کھلاڑی اور تھیلا اٹھانے والے دور چلتے ہیں - ہٹ لگانے والے آخری مقام پر پہنچ کر اس گورے نے جب ہٹ لگائی تھی تو اس کے سامان پکڑنے والے نے گیند رکھی -
خواتین و حضرات ! ہول اور گیند میں کم سے کم بارہ فٹ کا فاصلہ تھا - گورے نے سٹک پکڑی ، تھوڑی دیر اپنا وزن تولا اور اس خوبصورت انداز میں ہٹ کیا کہ گیند سیدھی ہول میں جا گری -
ہم سب نے تالی بجائی - اس گورے نے بھی اپنا ہاتھ اوپر اٹھا کر خدا کا شکر ادا کیا جب اس نے اپنا چہرہ اوپر اٹھایا تو ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ اندھا تھا - اس کی دونوں آنکھیں پتلیوں سے محروم تھیں اور بلکل سفید تھیں - ہم سب اس کے گرد جمع ہو گئے اور ہماری حیرانی کی انتہا نہ تھی کہ ایک اندھا شخص کہاں سے چلا کہاں پہنچ کے اس نے ہٹ لگائی لیکن ہم میں سے کسی ایک کو بھی معذوری کا شائبہ تک نہ ہوا -
وہاں ہمارے ایک ریلوے کے آفیسر بھی دوست تھے - اس نے اس گورے سے کہا !
? Excuse me sir , whether you are blind

اس نے جواب دیا کہ You have to be blind to see -
(جب تک آدمی اندھا نہیں ہوتا وہ دیکھ نہیں پاتا ہے )

از اشفاق احمد زاویہ ٣ وزڈم آف دی ایسٹ
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
میرے پیارے ملک میں جو مجھے جان سے زیادہ عزیز ہے ، لوگ ایک دوسرے کا احترام نہیں کر رہے ، اور ان کو اس بات کا احساس بھی نہیں ہو رہا کہ دوسرے لوگ جو ہیں ان کے اندر بھی جذبات ہیں ، وہ بھی کچھ ہیں - کامپٹیشن میں اور مسابقت ، اور مقابلے سے آپ کو روکا گیا ہے اور تقویٰ ، نیکی اچھائی کے لئے آپ کو ابھارا گیا ہے کہ ہاں یہاں جتنا ایک دوسرے کا مقابلہ کر سکتے ہو کرو - راز اس میں یہ ہے کہ تقویٰ میں ، اچھائی میں ، نیکی میں جب آپ اپنے مد مخالف سے مقابلہ کریں گے تو ہمیں نیچے ہو کر دیکھنا پڑیگا ، جوں جوں آپ نیچے ہونگے ، جتنی آپ عاجزی کریں گے ، جتنا آپ جھکیں گے ، اتنے آپ تقویٰ میں اونچے ہونگے - جتنا تکبر کریں گے ، جتنا اونچائی میں جائیں گے ، جتنا آپ شیخی بگھارین گے ، جتنا آپ اپنے آپ کو انا عطا کریں گے ، اتنا ہی آپ کا مسئلہ جو ہے وہ ایک مختلف ردھم اختیار کرتا چلا جائے گا - ہاں آپ ضرور کامپٹیشن کریں - میں کامپیٹشن سے منع نہیں کرتا میرا دین کامپٹیشن سے منع نہیں کرتا ، لیکن صرف تقویٰ کی حد تک لازم ہے ، اخلاقی زندگی بسر کرنے کی نیکی اختیار کریں -
تقویٰ جس میں وہ کامپیٹشن ہو جس سے دوسرے کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو تو وہ آپ کا طرہ امتیاز نہیں ہونا چاہئے کسی بھی صورت میں کسی بھی حال میں
ہم سے غلطی یہ ہوتی ہے کہ کہ ہم سوچے سمجھے بغیر پہلے تو کچھ بات منہ سے نکال دیتے ہیں ، اور پھر اپنے تکبر میں اضافے کے لئے اس چیز کو طرہ امتیاز بنا لیتے ہیں جو آپ کے کمال کی وجہ سے نہیں ہوتا - بچوں کے نمبر آجانا ، آپ کا خوش شکل ہونا ، آپ کا چہرہ اچھا ہونا ، آپ کی رنگت گوری ہونا ، یہ محض عطا خداوندی ہے - اس کو تم اپنی تلوار بنا کر گردنیں نہ اتارتے رہو خدا نخواستہ اگر ایسا وقت آگیا کہ صرف آپ ہی کی ذات اس کرہ عرض پہ رہنے لگی تو آپ یا آپ کے بچے کو زندگی گزارنی بڑی مشکل ہو جائے گی

از اشفاق احمد زاویہ ١ احترام آدمیت
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
آپ مراقبہ کریں ، تفکیر کریں ، یا خاموش ہو کر ایسے ہی بیٹھ رہیں - اس میں آپ کو ایک اصول پر ضرور عمل پیرا ہونا پڑیگا ، کہ آپ کے ارد گرد روشنی ہے - روشنی کا بہت بڑا تنبو ہے اور آپ اس کے نیچے بیٹھے ہیں - روشنی کی ایک آبشار ہے - نیا گرا فال ہے اور آپ اس کے امڈتے ہوئےجھلار میں نہا رہے ہیں -
روشنی کیوں ؟ میں نے پوچھا " خوشبو کیوں نہیں ، رنگ کیوں نہیں ، نظارہ کیوں نہیں ؟ "
پروفیسر نے کہا " اگر میں عربی میں کہونگا تو تمھاری سمجھ میں نہیں آئے گا بہتر یہی ہے کہ میں اطالوی میں سمجھاؤں - آسان اور سادہ اطالوی میں اور تمھارے قریب ہو کر بتاؤں کہ الله روشنی دینے والا ہے - آسمانوں کواور زمین کو - مثال اس روشنی کی یہ ہے کہ جیسے ایک طاق ہو اور اس کے اندر ایک چراغ ........... اور وہ چراغ دھرا ہو ایک شیشے میں ، ایک قندیل میں اور وہ قندیل ہے جیسے ایک چمکتا ہوا ستارہ ، تیل جلتا ہے اس میں ایک برکت والے درخت کا جو زیتون کا ہے اور جو نہ مشرق کی طرف ہے نہ مغرب کی طرف !
لگتا ہے کہ اس کا تیل روشنی ہے اگرچے اس میں آگ نہ لگی ہو ............. روشن پر روشن ، نور پر نور .............. الله جس کو چاہے اپنی روشنی کی آگ دکھا دیتا ہے ، اور بیان کرتا ہے - الله کی مثالیں لوگوں کے واسطے ہیں اور الله سب چیز جانتا ہے - "
میں نے کہا " یہ تو کسی مذھبی کتاب کا بیان معلوم ہوتا ہے ، کسی پرانے صحیفے کا - "
انھوں نے میری بات کا جواب دینے کے بجائے کہا " خداوند زمین و آسمان کی رونق اور بستی ہے اور کائنات کی ساری مخلوقات کو اسی سے نور وجود ملتا ہے - چاند ، سورج ، ستارے ، سیارے ، معلوم اور لا معلوم ، حاضر اور غائب ، انبیاء ، اولیاء ، فرشتے اور ان کے علاوہ اور بھی جو کچھ ہے - اور ان میں جو واضح اور پوشیدہ روشنی ہے - وہ اسی خزانہ نور کی بدولت ہے - یہی وجہ ہے کہ استاد ، گرو ، پیر مرشد ، شیخ اور ہادی ، باطن کے مسافر کا پہلا قدم اندھیرے سے نکال کر نور کی شاہراہ پر رکھتے ہیں اور پھر اس کی انگلی پکڑ کر قدم قدم چلاتے ہیں - "
" لیکن اس میں طاق کا کیا مطلب ہے ؟ " میں نے پوچھا " جس میں روشنی کی قندیل رکھی ہے ؟"
کہنے لگے یوں تو خدا کے نور سے کل کائنات کے موجودات روشن ہیں لیکن گیان ذات کے متلاشی کا جسم ایک طاق کی مانند ہوجاتا ہے - ایک دراز قد محرابی طاق کی طرح ، اور اس کے اندر ستارہ کی طرح کا چمکدار شیشہ قندیل رکھ دیا جاتا ہے - یہ شیشہ اصل میں اس کا قلب ہوتا ہے - جو ایک اینٹینا کی طرح عالم بالا سے متعلق ہوتا ہے اور اپنے سارے سگنل وہیں سے وصول کرتا ہے -

از اشفاق احمد بابا صاحبا
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
انسان جو ہے وہ دوسرے جانداروں کے مقابلے میں ایک مختلف جاندار ہے - اس میں کوئی شک نہیں کہ دیگر جانداروں میں بھی جان ہوتی ہے اور انسان میں بھی جان ہے - انسان بھی دوسرے جانداروں کی طرح حرکت کرتا ہے ، بولتا اورچلتا پھرتا ہے - لیکن ان دونوں میں ایک بڑاواضح فرق ہے کہ انسان میں روح ہوتی ہے اور جانور میں روح نہیں ہوتی -
مثال کی طور پر چار بکرے کھڑے ہیں ان میں سے ایک کو ذبح کر دیں - اس کی کھال اتاریں اور باقی تین کو چارہ ڈال دیں تو وہ بڑے شوق سے چارہ کھانے لگ جائیں گے ، اور ان کی توجہ نہیں ہوگی کہ ان کا ساتھی تختہ دار پر چڑھ چکا ہے - انھیں کوئی ملال یا دکھ نہیں ہوگا -
دوسری طرف ایک انسان کو آپ قتل کر کے پھینک دیں یا وہ خدا نخواستہ قتل کیے جانے کے بعد کہیں پڑا ہو تو آپ وہاں لوگوں سے کہیں کہ آپ یہاں بیٹھ کر سکون سے کھانا کھائیں یا خوش رہیں تو وہ ایسا نہیں کر سکیں گے

از اشفاق احمد زاویہ ٢ بابے کی تلاش
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صبح کا وقت بڑا سہانا ہوتا ہے ۔ صبح کا وہ وقت جب پو پھوٹ رہی ہوتی ہے۔ چڑیاںچہچہا رہی ہوتی ہیں لیکن ایک وہ ہی وقت ہوتا ہے جب سورج کی روشنی اپنی پوری لمبا ئی کے ساتھ زمین کو چھونے لگتی ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ہماری یاد میں بھولے بسرے واقعات بڑی وضاحت اور شد و مد کے ساتھ ابھرنے لگتے ہیں ۔ باوجود بڑی کوشش کے میں آج تک نہیں جان سکا ہوں کہ ان لمبی لمنی شعا عوں اور کرنوں کا زمین پر ایسا اثر کیوں ہوتا ہے ۔ یہ ایسا وقت ہوتا ہے جب انسان اپنے برے سے برے دشمن کو بھی معاف کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے ۔آج کل ہمارے ہاں ویسے معاف کرنے پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے اور معافی کے عمل کو بجائے اپنی بڑائی یا اعلی ظرفی کے کمزوری سمجھا جانے لگا ہے اور بدقسمتی سے یہ رجحان ابھی کچھ سالوں میں زیادہ ہو گیا ہے۔ پہلے شاید اتنا نہیں تھا ، وجود تو ہو گا ، اس سے تو انکار نہیں لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ بہت کم ہو گیا ہے۔

خدا سے زیادہ جراثیموںکا خوف
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ہمارے دو ٹیچر ماسٹر حشمت علی اور ماسٹر قطب الدین ہوا کرتے تھے - ساتھ رہنا اکٹھے کھانا ، ایک دوسرے کے گھر کے ساتھ گھر ، سیر کو اکٹھے جانا ، اکٹھے اسکول آنا - کبھی ہم نے انھیں الگ الگ نہیں دیکھا تھا - ان کے درمیان اتنی گہری دوستی تھی کہ آپ جتنا بھی اس کو ذہن میں تصور کریں ،وہ کم ہے -
پھر اچانک یہ ہوا کہ ماسٹر حشمت علی کی بدلی ہو گئی - اور وہ ہمارے ضلعے کی کسی اور تحصیل میں چلے گئے - دونوں دوستوں کے درمیان اس تبدیلی سے جو خلیج پیدا ہوئی ، وہ تو ہوئی ، ہم جو طالب علم تھے یا جو دوسرا اسٹاف تھا ، ان کے لئے بھی بہت تکلیف دہ صورتحال تھی -
میں نے ماسٹر قطب الدین سے کہا ، آپ کی حشمت علی صاحب س بڑی دوستی تھی ؟ کہنے لگے ، ہاں ٹھیک ہے -
میں نے کہا ان کے جانے سے آپ کی طبیعت پر بوجھ پڑا ؟ کہنے لگے ہاں پڑا ہے ، مگر زیادہ نہیں -
میں نے کہا یہ آپ حیران کن بات کرتے ہیں - وہ تو آپ کے بہت عزیز دوست تھے ، قریب ترین تھے -
کہنے لگے لیکن آپ اس کو ایک اعلیٰ درجے کی معیاری دوستی قرار نہیں دے سکتے - بیشک ہمارے معمولات اکٹھے تھے - اکٹھے کھاتے پیتے تھے - اور کوئی لمحہ بھی ایک دوسرے کے بغیر نہیں گزرا لیکن یہ دوستی کی نشانی نہیں ہے - دوستی کی نشانی یہ ہے کہ جب تک آدمی اکٹھے بیٹھ کر روئے نہ ، اس وقت تک دوستی نہیں ہوتی ، اور ہم کبی اکٹھے بیٹھ کر روئے نہیں تھے - اس لئے آپ نہیں کہ سکتے کہ ہم دوست تھے -

از اشفاق احمد زاویہ ١ دوستی اور تاش کی گیم
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top