غزل
(مزمل شیخ بسمل)
جو کل تھی آج ہم میں وہ سیرت نہیں رہی
وہ دبدبہ وہ ہوش وہ شوکت نہیں رہی
جو کل تھی آج ہم میں وہ جرات نہیں رہی
وہ حوصلہ وہ جوش وہ ہمت نہیں رہی
جو کل تھی آج ہم میں وہ حشمت نہیں رہی
وہ مال وہ منال وہ عزت نہیں رہی
جو کل تھی آج ہم میں وہ دولت نہیں رہی
وہ عقل وہ حواس وہ نیت نہیں رہی
جو کل تھی آج ہم میں وہ غیرت نہیں رہی
وہ سوچ و فکراور وہ عادت نہیں رہی
جو کل تھی آج میری وہ طاعت نہیں رہی
وہ پیروی وہ نقل وہ حرکت نہیں رہی
جو کل تھی آج مجھ میں وہ میں وہ جرات نہیں رہی
وہ شوق و ولولے وہ طبیعت نہیں رہی
جو کل تھی آج دل میں وہ الفت نہیں رہی
وہ میل جول اور وہ ملت نہیں رہی
جو کل تھی آج مجھ میں وہ زینت نہیں رہی
وہ روپ وہ شباب وہ رنگت نہیں رہی
جو کل تھی آج اپنی وہ صورت نہیں رہی
وہ ملک و نظام اور وہ حکومت نہیں رہی
جاناں کے رخ پہ جب سے صباحت نہیں رہی
دل تو وہی ہے اپنی وہ چاہت نہیں رہی
خالی پڑا ہے جرات و جدت نہیں رہی
خوش ہوں کہ دل میں اب کوئی حسرت نہیں رہی
سمجھا ہے تو کہ رنج و مصیبت نہیں رہی
بسمل ترے نصیب کی راحت نہیں رہی
محترم بسمل صاحب،
کل آپ کے کلام پر تبصرے کی کوشش کی تھی، لیکن وائے حسرت کہ بجلی ہمارے تبصرے پر ایسی گری کہ اب تک ذہن میں یہی مصرعہ گونج رہا ہے۔
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا تبصرہ کیوں ہو
تفنن برطرف، آپ کا کلا م بہت خوب لگا۔ غزل میں آپ نے جو کل اور آج کا تقابلی جائزہ پیش کیا ہے وہ بہت خوب ہے اور وہ بھی ہماری پسندیدہ صنف "غزل" میں ۔ کیا بات ہے جناب۔ اس غزل میں اقدار کی پامالی کا جو دکھ ہے وہ ہم سب کا مشترکہ ہے اور اس پر دل سے جو واہ نکلتی ہے تو اُس میں بھی ایک آہ مضمر ہوتی ہے۔ بہرکیف خوش رہیے۔
بتوں بسمل سے کہتے ہو مسلماں ہم نہیں ہونگے
سرِ محشر تم ہی ہوگے پشیماں ہم نہیں ہونگے
جلا دیگا جہاں کو حسنِ عریاں ہم نہیں ہونگے
دھواں بن جائینگی زلفِ پریشاں ہم نہیں ہونگے
بنیں گے کل یہاں انسان حیواں ہم نہیں ہونگے
رقیبِ آدمیت ہونگے انساں ہم نہیں ہونگے
رہیں گے حسن و الفت پا جولاں ہم نہیں ہونگے
دلِ ناشاد ہونگے سنگِ طفلاں ہم نہیں ہونگے
تکے گی ماجرا پھر چشمِ حیراں ہم نہیں ہونگے
یہی منظر رہیں گے اب نمایاں ہم نہیں ہونگے
جہاں ہوجائیگا سب کافرستاں ہم نہیں ہونگے
بنینگے دل اسیرِ زلفِ پیچاں ہم نہیں ہونگے
صنم خانے بنینگے سب دبستاں ہم نہیں ہونگے
مدرّس صرفِ محوِ دیدِ جاناں ہم نہیں ہونگے
اب عالم علم پر خود ہونگے نازاں ہم نہیں ہونگے
بیاں ہونگے خلافِ حکمِ یزداں ہم نہیں ہونگے
دلِ واعظ بنینگے بحرِ عصیاں ہم نہیں ہونگے
خیالِ خود غرض اب ہوں گے طوفاں ہم نہیں ہونگے
کہیں گے چور اب خود کو نگہباں ہم نہیں ہونگے
ہوا کھوئینگے اپنی جب سلیماں ہم نہیں ہونگے
رہوگے ہم سے تم کب تک گریزاں ہم نہیں ہونگے
حسینوں در بدر تم ہوگے ارزاں ہم نہیں ہونگے
رہے گر کفر سے مل کر مسلماں ہم نہیں ہونگے
کسی تدبیر سے بھی پاک داماں ہم نہیں ہونگے
اگر تائب غریقِ بحرِ عصیاں ہم نہیں ہونگے
حبیبِ کبریا کے زیرِ داماں ہم نہیں ہونگے
کہیں گے خود کو ہم مسلم مسلماں ہم نہیں ہونگے
بمع اب اعتمادِ اہلِ برہاں ہم نہیں ہونگے
بہت خوب، یہ غزل بھی لاجواب ہے بھائی۔ دل خوش ہوا آپ کا کلام پڑھ کر۔ خاکسار کی جانب سے نذرانہ ء تحسین پیشِ خدمت ہے۔
قبول کیجے۔