سب سے پہلے دو اشعار اپنے اپنے مجازی خدا سید زوہیب ہاشمی جی کے نام کیونکہ یہ اہم ہے ناں ورنہ وہ ناراض ہو جائیں گے
۔
چاند مجھ کو وہ غزل ماہ جبیں کہتا ہے
مجھ سی صورت کو زمانے سے حسیں کہتا ہے
پیار میں اس کے خدا بھولوں تو کافر ٹھہروں
بھولوں سجدے میں اسے، حجرہ نشیں کہتا ہے
بہت پیارے اشعار ہیں
یہ پہلی غزل پیارے بھیا جانی سعود اور بھیا جانی محمود مغل کے نام کرتی ہوں
مقفل ہی سہی لیکن نظر کے اسم ِ اعظم سے
کھلے ہیں وقت کے زنداں میں دروازے کئی ہم سے
طلوعِ صبح کے منظر تراشے ہیں نگاہوں نے
ہیولے ظلمتوں کے ہر طرف پھرتے ہیں برہم سے
ہم اپنے جسم کی سرحد سے بھی آگے نکل آئے
کبھی رکتی نہیں ہے بوئے گل دیوارِ شبنم سے
پریشانی مرے چاروں طرف ہے گرد کی صورت
بیابانِ بلا میں حشر برپا ہے مرے دم سے
یہ میری ذات کا صحرا نہ گم کردے کہیں مجھ کو
عجب ڈر ہے کہ خود کو دیکھتی ہوں چشمِ عالم سے
بہت پیارا شعر
ہری شاخوں سے لپٹی ہے پرانے موسموں کی باس
ابھی فارغ نہیں ہوں میں گئے لمحوں کے ماتم سے
واہ۔ ابھی فارغ نہیں ہوں میں گئے لمحوں کے ماتم سے
یہ آسیبِ تمنا روح کے اجڑے مکانوں سے
بدل کر صورتیں اب جھانکتے ہیں روزنِ غم سے
غزل اس عہد میں ایسے دلوں کے خشک ہیں چشمے
بدن کی پیاس بھی بجھتی نہیں ہے آنکھ کے نم سے
مقطع اس غزل میں سب سے زیادہ پسند آیا۔
۔
آج ہی لکھی یہ دوسری غزل اپنے استاد گرامی سر فاروق درویش اور بابا جانی سر عبید کے نام
دلوں میں حبس کا عالم پرانی عادتوں سے ہے
لبوں پر تلخیوں کا زہر بگڑے ذائقوں سے ہے
جو اجڑا شہر خوابوں کا تو اپنے دل کا صحرا بھی
کسی سوکھے ہوئے دریا کی صورت مدتوں سے ہے
سمندر پار ظلمت میں مرا خورشید ڈوبا ہے
ہراساں صبح کے ساحل پہ دل تاریکیوں سے ہے
مہکتے پھول بھی ڈسنے لگے ہیں سانپ کی صورت
فضا گلشن میں بھی اپنے دلوں کے موسموں سے ہے
بہت خوب!
انہیں لمحوں کی آہٹ سے ملیں بیداریاں مجھ کو
مرے دریا کی جولانی سمے کے پانیوں سے ہے
وہ آنچ آنے لگی خود سے کہ دل ڈرنے لگا اپنا
جہنم روح کا بھڑکا ہوا خاموشیوں سے ہے
یہ دو اشعار بھی بہت اچھے ہیں
کھلیں آنکھیں تو سیلِ نور میں ڈوبا ہوا پایا
مرے سورج کی تابانی نظر کے شعبدوں سے ہے
غزل اس راہ میں صدیوں کی دیواریں بھی حائل ہیں
نئی دنیا ابھی تک اوٹ میں ان ظلمتوں سے ہے
مقطع پھر لا جواب ہے۔
۔
اس کے ساتھ ہی صدر مشاعرہ اور معزز احبابَ محفل سے اجازت چاہتی ہوں، آپ سب کے لئے ڈھیروں دعائیں اور نیک تمنائیں۔ اللہ دین و دنیا میں سرفرازیاں عطا فرمائیں۔ اللہ حافظ
سیدہ سارا غزل ہاشمی