محمداحمد
لائبریرین
خِراماں خِراماں چلا جا رہا ہوںکہ الفت کی راہوں سے ناآشنا ہوںمِری خاک بننے کو یہ مر مٹے ہیںفلک کے کواکب کی میں ارتقا ہوںیہ صحرا کا بستر، وہ چھت آسماں کیفلک کی نوازش کا پیکر بنا ہوںمیں نکلا تھا سورج کی منزل کو پانےپہ اس کی چمک میں مگن ہو گیا ہوںعصا، آبلے اور پوشاکِ خستہیہ ساماں ہے باقی، پہ میں چل رہا ہوںتِرے دل کے تاروں کو پھر میں نے چھیڑامیں یادِ گزشتہ کی بھٹکی صدا ہوںمیں تب تھا میں اب ہوں، یہاں بھی وہاں بھیخرد کے قفس سے تو میں ماورا ہوں
بہت خوب ذیشان بھیا ۔۔۔۔! آپ کی غزل لاجواب ہے۔
خوش رہیے۔