شکریہ اظہر بھائی۔۔۔!
"اُف یہ یادیں"۔
میں کتبہ ہوں گزری ہوئی ساعتوں کا
جسے میں نے گاڑا ہے ہر راستے پر
میں نوحہ ہوں بھولی ہوئی صحبتوں کا
جو لیتا ہو سانس آج بھی میرے اندر
میں جو بات کرتا ہوں اُس میں وہ بولے
میں جو لفظ لکھتا ہوں اس میں وہ چیخے
مری زندگی میں بڑے موڑ آئے
عجب سرگرانی میں چلتا رہا ہوں
بہر گام رستہ بدلتا رہا ہوں
بدلتا رہا ہوں میں گو اپنا رستہ
مگر جب کبھی میں نے دیکھا پلٹ کر
تو آتا ہے مجھ کو نظر سیدھا رستہ
وہ ماضی تھا یہ حال ہے‘ مانتا ہوں
مگر خود کو کیسے یہ بتلا سکوں گا
میں یادوں سے بچ کر کہاں جا سکوں گا
بہت خوب۔۔۔!
غم ہستی کے عنواں بانٹ دوں گا
یہ اوراقِ پریشاں بانٹ دوں گا
مرے نزدیک خوشیاں ہیں امانت
الٹ دوں گا میں داماں بانٹ دوں گا
تھما دوں گا دئے سب کو چمن میں
نئے موسم کے ارماں بانٹ دوں گا
مری مشکل بڑھاتی جائے دنیا
میں اس کو کر کے آساں بانٹ دوں گا
کسی منظر کو دھندلانے نہ دوں گا
میں اپنا سب چراغاں بانٹ دوں گا
صبا کی ایک تھپکی مل گئی تو
بہارِ نو کے عنواں بانٹ دوں گا
بکھر جاوں گا میں چہرہ بہ چہرہ
جو مجھ میں ہے وہ انساں بانٹ دوں گا
خزاں کو گھیر لوں گا ہر طرف سے
ظفر خوابِ بہاراں بانٹ دوں گا
بہت نوازش جناب محمد احمدمحمد اظہر نذیر صاحب،
بہت خوب انتخاب کیا ہے آپ نے۔ مشاعرے کی خلعتِ فاخرہ میں نگینے جڑ دیے ہیں جناب نے۔
خوش رہیے۔