بہت شکریہ اس محفل میں دعوت دینے کا۔ میں مبتدی ہوں اس لئے تازہ کلام نہ پیش کرنے پر معذرت خواہ ہوں۔
ایک غزل پیش خدمت ہے:
خِراماں خِراماں چلا جا رہا ہوں
کہ الفت کی راہوں سے ناآشنا ہوں
مِری خاک بننے کو یہ مر مٹے ہیں
فلک کے کواکب کی میں ارتقا ہوں
یہ صحرا کا بستر، وہ چھت آسماں کی
فلک کی نوازش کا پیکر بنا ہوں
میں نکلا تھا سورج کی منزل کو پانے
پہ اس کی چمک میں مگن ہو گیا ہوں
عصا، آبلے اور پوشاکِ خستہ
یہ ساماں ہے باقی، پہ میں چل رہا ہوں
تِرے دل کے تاروں کو پھر میں نے چھیڑا
میں یادِ گزشتہ کی بھٹکی صدا ہوں
میں تب تھا میں اب ہوں، یہاں بھی وہاں بھی
خرد کے قفس سے تو میں ماورا ہوں