کہوں کس سے قصۂ درد و غم، کوئی ہمنشیں ہے نہ یار ہے
جو انیس ہے تری یاد ہے، جو شفیق ہے دلِ زار ہے
مجھے رحم آتا ہے دیکھ کر ترا حال اکبرِ نوحہ گر
تجھے وہ بھی چاہے خدا کرے کہ تو جس کا عاشق زار ہے
اکبر الہ آبادی
اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالہ ء دل فگار بن کر
مگر یقیں ہے کہ لوٹ آئیں گے نغمہ ء نو بہار بن کر
یہ کیا قیامت ہے باغبانوں کے جن کی خاطر بہار آئی
وہی شگوفے کھٹک رہے ہیں تمھاری آنکھوں میں خار بن کر
ساغر صدیقی
کانٹے تو خیر کانٹے ہیں ان سے گلہ ہے کیا
پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا
ساغر وہ کہہ رہے تھے کی پی لیجئے حضور
ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا!
ساغر صدیقی