عبدالقیوم چوہدری
محفلین
ڈیرہ اسماعیل خان والا جج تے لے رسیداں گیا اے۔
ایسی عدلیہ کا تو صرف ماتم ہی کیا جا سکتا ہے!جج نے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو باقاعدہ ہدایت جاری کی ہیں کہ طبعی موت کی صورت میں مجرم کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیے۔ یہ محض کمنٹ نہیں ہے۔
اب بات مشرف سے بڑھ کر پوری فوج کی طرف جا رہی ہےایسی عدلیہ کا تو صرف ماتم ہی کیا جا سکتا ہے!
پوری فوج نے غیر آئینی احکامات کو مانا اور اپنے حلف سے غداری کی۔ اس میں بھلا شک کی کیا بات ہے۔اب بات مشرف سے بڑھ کر پوری فوج کی طرف جا رہی ہے
بہت معذرت کے ساتھ، ماضی کے کسی بھی انسانیت سوز اقدام کو مزید ایسے اقدام کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ کسی بڑے سے بڑے مجرم کی لاش کی بے حرمتی کو دنیا کے کسی مذہب ، قانون اور اخلاقیات میں گوارا کرنے کی ادنی سی گنجائش بھی موجود نہیں۔جج نے تو صرف 3 دن لٹکائے رکھنے کی بات کی ہے۔ اولیور کرامویل کا سر تو تقریباً 25 سال پول پر لٹکا رہا تھا۔
وہی نا کہ اب کیا مشرف کے ساتھ ساتھ اس وقت تختہ الٹنے میں شامل جونئیر جرنیلوں کو بھی سزا ہوگی؟پوری فوج نے غیر آئینی احکامات کو مانا اور اپنے حلف سے غداری کی۔ اس میں بھلا شک کی کیا بات ہے۔
انون نافذ کرنے والے ادارے انہیں گرفتار کر کے سزائے موت پرعملدرآمد کرائیں، اگر پرویز مشرف مر بھی جائیں تو لاش ڈی چوک لا کر تین دن تک لٹکائی جائے۔
بس اب ایسی عدلیہ کی فاتحہ پڑھ لینی چاہیے!اور اگر وہ وفات پا جاتے ہیں تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر اسلام آباد میں ڈی چوک پر لایا جائے اور 3 دن کے لیے لٹکایا جائے
اس علامتی سزا کی ساری اہمیت عدلیہ نے اپنے انتہائی احمقانہ ریمارکس دے کر خاک میں ملا دی ہے۔مشرف صاحب کو جو سزا سنائی گئی ہے، وہ اس وقت صرف علامتی معنی رکھتی ہے۔
ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ مفرور/مجرم کو پکڑنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کریں اور اسے یقینی بنائیں کہ انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے اور اگر وہ وفات پا جاتے ہیں تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر اسلام آباد میں ڈی چوک پر لایا جائے اور 3 دن کے لیے لٹکایا جائے
ماضی میں بڑی برائی کو روکنے میں ناکام عدالتیں اس بار کینسر کا آپریشن سے علاج کرنا چاہتی ہیں، لیکن کینسر بہت طاقتور ہو چکا ہے، سینگ لڑیں گے کیونکہ ایک ہنگامی کور کمانڈرز میٹنگ جاری ہے، دیکھتے ہیں پاء غفورا اس بار بھی مظہر شاہ اور سلطان راہی بنتے ہیں یا علاؤالدین کا کردار نبھاتے ہیں۔ حکومت نے تو اپنے ترجمانوں کی دیر سے زبان بندی کے آرڈر تو جاری کر دئیے ہیں لیکن مشرف کے پرانے حواری اب بھی اکا دکا فائر کر رہے ہیں۔بس اب ایسی عدلیہ کی فاتحہ پڑھ لینی چاہیے!
شکر ہے کہ سزائے موت سنانے والے ایک جج نے ان ریمارکس سے برات کا اظہار کیا ہے۔ یقینی طور پر، ایسے ریمارکس دینا غلط تھا۔اس علامتی سزا کی ساری اہمیت عدلیہ نے اپنے انتہائی احمقانہ ریمارکس دے کر خاک میں ملا دی ہے۔
علامتی سزا اور حقیقی سزا میں فرق ہوتا ہے۔ جن لوگوں کو اگر اتنی سی بات بڑی لگ رہی ہے تو میرے خیال میں لال مسجد اور قبائلی علاقوں میں بچوں کو بموں سے اڑانے پر ان کی جان نکل جانی چاہیے تھی۔بہت معذرت کے ساتھ، ماضی کے کسی بھی انسانیت سوز اقدام کو مزید ایسے اقدام کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ کسی بڑے سے بڑے مجرم کی لاش کی بے حرمتی کو دنیا کے کسی مذہب ، قانون اور اخلاقیات میں گوارا کرنے کی ادنی سی گنجائش بھی موجود نہیں۔
بس اب ایسی عدلیہ کی فاتحہ پڑھ لینی چاہیے!
1999 کے اقدامات کو پارلے منٹ اور کورٹ نےنیب اور نظریہ ضرورت کے دباؤ تلے لیگلائیز کر دیا تھا۔ ایل ایف او نامی قوانین بھی اسی دور کی ایجاد ہیں۔ اگر ان قوانین اور فیصلوں کو ریورس کیا جا سکتا ہے تو پھر جونئیر جرنیلوں، مشرف کے اقدامات کی منظوری دینے والی عدلیہ و دیگر مدد گاروں کو کٹہرے میں لایا جا سکتا ہے۔وہی نا کہ اب کیا مشرف کے ساتھ ساتھ اس وقت تختہ الٹنے میں شامل جونئیر جرنیلوں کو بھی سزا ہوگی؟
اگر تو یہ بیان آیا ہے تو پھر معاملہ خوب گرم ہو گا۔ تاہم، اب آپ کب اس بیان سے یو ٹرن لے لیں، ہمیں کیا خبر! ایک یو ٹرن تو بیان دینے والے لیتا ہے اور آپ الگ سے بھی لیتے ہیں۔ پوری کی پوری پارٹی ہی راج دلاری ہے!
بجا فرمایا۔ مراسلے میں مشترکہ اور زور جرم پر تھا، سزا پر نہیں۔بہت معذرت کے ساتھ، ماضی کے کسی بھی انسانیت سوز اقدام کو مزید ایسے اقدام کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ کسی بڑے سے بڑے مجرم کی لاش کی بے حرمتی کو دنیا کے کسی مذہب ، قانون اور اخلاقیات میں گوارا کرنے کی ادنی سی گنجائش بھی موجود نہیں۔
عدالت جب سزا سناتی ہے تو وہ سزا ہوتی ہے۔ علامتی یا حقیقی کی تصریح کوئی عدالت نہیں کرتی۔ سزا نافذ ہو گی یا نہیں یا سزا کے نفاذ کا کتنا امکان ہے یہ الگ معاملہ ہے۔علامتی سزا اور حقیقی سزا میں فرق ہوتا ہے۔