اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت کا حکم سنایا

عرفان سعید

محفلین
جج نے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو باقاعدہ ہدایت جاری کی ہیں کہ طبعی موت کی صورت میں مجرم کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیے۔ یہ محض کمنٹ نہیں ہے۔
380-D1-E14-102-B-4306-9-A1-B-DB05-FE41-C0-A4.jpg
ایسی عدلیہ کا تو صرف ماتم ہی کیا جا سکتا ہے!
 

عرفان سعید

محفلین
جج نے تو صرف 3 دن لٹکائے رکھنے کی بات کی ہے۔ اولیور کرامویل کا سر تو تقریباً 25 سال پول پر لٹکا رہا تھا۔
بہت معذرت کے ساتھ، ماضی کے کسی بھی انسانیت سوز اقدام کو مزید ایسے اقدام کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ کسی بڑے سے بڑے مجرم کی لاش کی بے حرمتی کو دنیا کے کسی مذہب ، قانون اور اخلاقیات میں گوارا کرنے کی ادنی سی گنجائش بھی موجود نہیں۔
:-(
 

زیرک

محفلین
جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ بھی آ گیا ہے۔ خصوصی عدالت کے 3 رکنی بنچ نے پرویز مشرف سنگین غداری کیس کے مختصر فیصلے میں انہیں آرٹیکل 6 کے تحت سزائے موت سنائی ہے. پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد فضل کریم اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر پر مشتمل خصوصی عدالتی بنچ نے اس کیس کا فیصلہ 2 ایک کی اکثریت سے سنایا تھا، اس کیس کا تفصیلی تحریری فیصلہ جو 169 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں جسٹس نذر اکبر کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہے۔ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ اور لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد فضل کریم نے سزائے موت سنائی جبکہ سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس نذر اللہ اکبر نے اختلافی نوٹ لکھتے ہوئے کہا کہ "استغاثہ کی ٹیم غداری کا مقدمہ ثابت نہیں کرسکی". فیصلے کے مطابق "جنرل پرویز مشرف نے سنگین غداری کے جرم کا ارتکاب کیا، ان پر آئین پامال کرنے کا جرم ثابت ہوتا ہے اور وہ مجرم ہیں، لہٰذا پرویزمشرف کو سزائے موت دی جائے، قانون نافذ کرنے والے ادارے انہیں گرفتار کر کے سزائے موت پرعملدرآمد کرائیں، اگر پرویز مشرف مر بھی جائیں تو لاش ڈی چوک لا کر تین دن تک لٹکائی جائے۔ پرویز مشرف کو دفاع اور شفاف ٹرائل کا پورا موقع دیا گیا، 2013 میں شروع ہونے والا مقدمہ 2019 میں مکمل ہوا۔ اس وقت کی کورکمانڈرز کمیٹی سمیت تمام دیگر وردی والے افسران جنہوں نے انہیں ہر وقت تحفظ فراہم کیا وہ ملزم کے اعمال اور اقدام میں مکمل اور برابر کے شریک ہیں۔ ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ مفرور/مجرم کو پکڑنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کریں اور اسے یقینی بنائیں کہ انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے اور اگر وہ وفات پا جاتے ہیں تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر اسلام آباد میں ڈی چوک پر لایا جائے اور 3 دن کے لیے لٹکایا جائے"۔
 

فرقان احمد

محفلین
مشرف صاحب کو جو سزا سنائی گئی ہے، وہ اس وقت صرف علامتی معنی رکھتی ہے۔ ننانوے فی صد امکان ہے کہ مشرف صاحب پلٹ کر نہ آئیں گے اور انہیں واپس لائے جانے کی بھی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی ہے۔ تاہم، آنے والے وقتوں کے لیے عدلیہ اپنا فیصلہ سنا چکی۔ فیصلے کی زبان ایک طرف، تاہم، عدلیہ کی جانب سے ایسا جرات مندانہ فیصلہ بجائے خود خوش آئند ہے۔
 

عرفان سعید

محفلین
انون نافذ کرنے والے ادارے انہیں گرفتار کر کے سزائے موت پرعملدرآمد کرائیں، اگر پرویز مشرف مر بھی جائیں تو لاش ڈی چوک لا کر تین دن تک لٹکائی جائے۔

اور اگر وہ وفات پا جاتے ہیں تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر اسلام آباد میں ڈی چوک پر لایا جائے اور 3 دن کے لیے لٹکایا جائے
بس اب ایسی عدلیہ کی فاتحہ پڑھ لینی چاہیے!
 

زیرک

محفلین
جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے، جس کے فوری بعد راولپنڈی میں ایک اعلیٰ سطحی ہنگامی کور کمانڈرز میٹنگ طلب کی گئی ہے۔ شنید ہے کہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کچھ ہی دیربعد ہنگامی پریس کانفرنس کرنے جا رہے ہیں۔
 

عرفان سعید

محفلین
مشرف صاحب کو جو سزا سنائی گئی ہے، وہ اس وقت صرف علامتی معنی رکھتی ہے۔
اس علامتی سزا کی ساری اہمیت عدلیہ نے اپنے انتہائی احمقانہ ریمارکس دے کر خاک میں ملا دی ہے۔
ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ مفرور/مجرم کو پکڑنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کریں اور اسے یقینی بنائیں کہ انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے اور اگر وہ وفات پا جاتے ہیں تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر اسلام آباد میں ڈی چوک پر لایا جائے اور 3 دن کے لیے لٹکایا جائے
 

زیرک

محفلین
بس اب ایسی عدلیہ کی فاتحہ پڑھ لینی چاہیے!
ماضی میں بڑی برائی کو روکنے میں ناکام عدالتیں اس بار کینسر کا آپریشن سے علاج کرنا چاہتی ہیں، لیکن کینسر بہت طاقتور ہو چکا ہے، سینگ لڑیں گے کیونکہ ایک ہنگامی کور کمانڈرز میٹنگ جاری ہے، دیکھتے ہیں پاء غفورا اس بار بھی مظہر شاہ اور سلطان راہی بنتے ہیں یا علاؤالدین کا کردار نبھاتے ہیں۔ حکومت نے تو اپنے ترجمانوں کی دیر سے زبان بندی کے آرڈر تو جاری کر دئیے ہیں لیکن مشرف کے پرانے حواری اب بھی اکا دکا فائر کر رہے ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
اس علامتی سزا کی ساری اہمیت عدلیہ نے اپنے انتہائی احمقانہ ریمارکس دے کر خاک میں ملا دی ہے۔
شکر ہے کہ سزائے موت سنانے والے ایک جج نے ان ریمارکس سے برات کا اظہار کیا ہے۔ یقینی طور پر، ایسے ریمارکس دینا غلط تھا۔
 

آصف اثر

معطل
بہت معذرت کے ساتھ، ماضی کے کسی بھی انسانیت سوز اقدام کو مزید ایسے اقدام کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ کسی بڑے سے بڑے مجرم کی لاش کی بے حرمتی کو دنیا کے کسی مذہب ، قانون اور اخلاقیات میں گوارا کرنے کی ادنی سی گنجائش بھی موجود نہیں۔
:-(
علامتی سزا اور حقیقی سزا میں فرق ہوتا ہے۔ جن لوگوں کو اگر اتنی سی بات بڑی لگ رہی ہے تو میرے خیال میں لال مسجد اور قبائلی علاقوں میں بچوں کو بموں سے اڑانے پر ان کی جان نکل جانی چاہیے تھی۔

یہ بھی ممکن ہے کہ چوں کہ وہ ہمارے بچے نہیں تھے، ہمارے جگر گوشے نہیں تھے لہذا تکلیف بھی اتنی کم تھی کیوں کہ انسانیت اپنوں کے لیے جلدی اور زیادہ جاگ جاتی ہے۔
معذرت۔
 
وہی نا کہ اب کیا مشرف کے ساتھ ساتھ اس وقت تختہ الٹنے میں شامل جونئیر جرنیلوں کو بھی سزا ہوگی؟
1999 کے اقدامات کو پارلے منٹ اور کورٹ نےنیب اور نظریہ ضرورت کے دباؤ تلے لیگلائیز کر دیا تھا۔ ایل ایف او نامی قوانین بھی اسی دور کی ایجاد ہیں۔ اگر ان قوانین اور فیصلوں کو ریورس کیا جا سکتا ہے تو پھر جونئیر جرنیلوں، مشرف کے اقدامات کی منظوری دینے والی عدلیہ و دیگر مدد گاروں کو کٹہرے میں لایا جا سکتا ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
اگر تو یہ بیان آیا ہے تو پھر معاملہ خوب گرم ہو گا۔ تاہم، اب آپ کب اس بیان سے یو ٹرن لے لیں، ہمیں کیا خبر! ایک یو ٹرن تو بیان دینے والے لیتا ہے اور آپ الگ سے بھی لیتے ہیں۔ پوری کی پوری پارٹی ہی راج دلاری ہے!
 
بہت معذرت کے ساتھ، ماضی کے کسی بھی انسانیت سوز اقدام کو مزید ایسے اقدام کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ کسی بڑے سے بڑے مجرم کی لاش کی بے حرمتی کو دنیا کے کسی مذہب ، قانون اور اخلاقیات میں گوارا کرنے کی ادنی سی گنجائش بھی موجود نہیں۔
بجا فرمایا۔ مراسلے میں مشترکہ اور زور جرم پر تھا، سزا پر نہیں۔
 

عرفان سعید

محفلین
علامتی سزا اور حقیقی سزا میں فرق ہوتا ہے۔
عدالت جب سزا سناتی ہے تو وہ سزا ہوتی ہے۔ علامتی یا حقیقی کی تصریح کوئی عدالت نہیں کرتی۔ سزا نافذ ہو گی یا نہیں یا سزا کے نفاذ کا کتنا امکان ہے یہ الگ معاملہ ہے۔
لیکن عدالت کو کسی حال میں بھی اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔
 
Top