اسکول لائف کی کوئی نصابی نظم شئیر کریں

محمداحمد

لائبریرین
اور ایک نعت جو یاد آئی، اور تلاش کرنے پر اردو محفل میں مل گئی ہے۔
نبیﷺ ہمارے
وہ حق کی باتیں بتانے والے
وہ سیدھا رستہ دکھانے والے
وہ راہبر رہنما ہمارے
نبی ہمارے، نبی ہمارے
درود ان پر، سلام ان پر
بلند نبیوں میں نام اُن کا
فلک سے اونچا مقام اُن کا
ہمارے ہادی خدا کے پیارے
نبی ہمارے، نبی ہمارے
درود ان پر، سلام ان پر
انہی کی خاطر دمک رہے ہیں
انہی کے دم سے چمک رہے ہیں
زمیں کے ذرّے، فلک کے تارے
نبی ہمارے، نبی ہمارے
درود ان پر، سلام ان پر
انہی کی سرکار کے گدا ہیں
انہی کے دربار کے گدا ہیں
جہاں کے یہ تاجدار سارے
نبی ہمارے، نبی ہمارے
درود ان پر، سلام ان پر
وہ پیشواؤں کے پیشوا ہیں
وہ رہنماؤں کے رہنما ہیں
وہ سب سہاروں کے ہیں سہارے
نبی ہمارے، نبی ہمارے
درود ان پر، سلام ان پر
صوفی تبسّم
یہ نعت بہت اچھی ہے اور بچپن میں بھی اسے پڑھ کر بہت لطف آتا تھا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
تو کوئی بات نہیں آپ کے بھیا کوئی مونسٹر تو ہیں نہیں جو اتنا ڈر رہی ہیں آپ۔ :p:D


آغاز تو میں کر دیا ہے لیکن پھر خیال آیا کہ اس دھاگے میں گپ شپ شروع ہو گئی تو اس کا لطف خراب ہو جائے گا۔ سو جسے بھی گپ شپ کا خیال آئے کسی اور دھاگے میں لے جائے۔ اور ہمیں ٹیگ کرنا نہ بھولے۔ :)
 
اور ایک نعت جو یاد آئی، اور تلاش کرنے پر اردو محفل میں مل گئی ہے۔
نبیﷺ ہمارے
وہ حق کی باتیں بتانے والے
وہ سیدھا رستہ دکھانے والے
وہ راہبر رہنما ہمارے
نبی ہمارے، نبی ہمارے
درود ان پر، سلام ان پر
بلند نبیوں میں نام اُن کا
فلک سے اونچا مقام اُن کا
ہمارے ہادی خدا کے پیارے
نبی ہمارے، نبی ہمارے
درود ان پر، سلام ان پر
انہی کی خاطر دمک رہے ہیں
انہی کے دم سے چمک رہے ہیں
زمیں کے ذرّے، فلک کے تارے
نبی ہمارے، نبی ہمارے
درود ان پر، سلام ان پر
انہی کی سرکار کے گدا ہیں
انہی کے دربار کے گدا ہیں
جہاں کے یہ تاجدار سارے
نبی ہمارے، نبی ہمارے
درود ان پر، سلام ان پر
وہ پیشواؤں کے پیشوا ہیں
وہ رہنماؤں کے رہنما ہیں
وہ سب سہاروں کے ہیں سہارے
نبی ہمارے، نبی ہمارے
درود ان پر، سلام ان پر
صوفی تبسّم
یہ نعت بہت اچھی ہے اور بچپن میں بھی اسے پڑھ کر بہت لطف آتا تھا۔
اللہ آپ کو خوش رکھے
کیسی کیسی یادیں تازہ ہو رہی ہیں
یہ نعت اکثر ہماری ٹیچر کلاس کو کورس میں سنانے کو کہتی تھیں :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بشکریہ اپنی ہی محفل اور خصوصا ً برادر نایاب ۔
غالبا" چوتھی جماعت کی نظم تھی۔ ہیٹز آفف ٹو اسمعیل میرٹھی
صبح کی آمد
خبر دن کے آنے کی میں لا رہی ہوں
اجالا زمانہ میں پھیلا رہی ہوں
بہار اپنی مشرق سے دکھلا رہی ہوں
پکارے گلے صاف چلا رہی ہوں
اٹھو سونے والو کہ میں آرہی ہوں
میں سب کاربہوار کے ساتھ آئی
میں رفتار و گفتار کے ساتھ آئی
میں باجوں کی جھنکار کے ساتھ آئی
میں چڑیوں کی چہکار کے ساتھ آئی
اٹھو سونے والو کہ میں آرہی ہوں
اذاں پر اذاں مرغ دینے لگا ہے
خوشی سے ہر اک جانور بولتا ہے
درختوں کے اوپر عجب چہچہا ہے
سہانا ہے وقت اور ٹھنڈی ہوا ہے
اٹھو سونے والو کہ میں آرہی ہوں
یہ چڑیاں جو پیڑوں پہ ہیں غل مچاتی
ادھر سے ادھر اڑ کے ہیں آتی جاتی
دموں کو ہلاتی پروں کو پھلاتی
میری آمد آمد کے ہیں گیت گاتی
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
جو طوطے نے باغوں میں ٹیں ٹیں مچائی
تو بلبل بھی گلشن میں ہے چہچہائی
اور اونچی منڈیروں پہ شاما بھی گائی
میں سو سو طرح سے دی رہی ہوں دہائی
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
ہر ایک باغ کو میں نے مہکا دیا ہے
نسیم اور صبا کو بھی لہکا دیا ہے
چمن سرخ پھولوں سے دہکا دیا ہے
مگر نیند نے تم کو بہکا دیا ہے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
ہوئی مجھ سے رونق پہاڑ اور بن میں
ہر ایک ملک میں دیس میں ہر وطن میں
کھلاتی ہوئی پھول آئی چمن میں
بجھاتی چلی شمع کو انجمن میں
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
جو اس وقت جنگل میں بوٹی جڑی ہے
سو وہ نولکھا ہار پہنے کھڑی ہے
کہ پچھلے کی ٹھنڈک سے شبنم پڑی ہے
عجب یہ سماں ہے عجب یہ گھڑی ہے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
ہرن چونک اٹھے چوکڑی بھر رہے ہیں
کلولیں ہرے کھیت میں کر رہے ہیں
ندی کے کنارے کھڑے چر رہے ہیں
غرض میرے جلوہ پہ سب مر رہے ہیں
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
میں تاروں کی چھاں آن پہونچی یہاں تک
زمیں سے ہے جلوہ مرا آسماں تک
مجھے پاؤ گے دیکھتے ہو جہاں تک
کرو گے بھلا کاہلی تم کہاں تک
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
پجاری کو مندر کے میں نے جگایا
موذن کو مسجد کے میں نے اٹھایا
بھٹکتے مسافر کو رستہ بتایا
اندھیرا گھٹایا ۔ اجالا بڑھایا
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
لدے قافلوں کے بھی منزل میں ڈیرے
کسانوں کے ہل چل پڑے منہ سویرے
چلے جال کندھے پہ لے کر مچھیرے
دلدر ہوئے دور آنے سے میرے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
بگل اور طنبور سنکھ اور نوبت
بجانے لگے اپنی اپنی سبھی گت
چلی توپ بھی دن سے حضرت سلامت
نہیں خوب غفلت ۔ نہیں خوب غفلت
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
لو ہشیار ہو جاؤ اور آنکھ کھولو
نہ لو کروٹیں اور نہ بستر ٹٹولو
خدا کو کرو یاد اور منہ سے بولو
بس اب خیر سے اٹھ کے منہ ہاتھ دھو لو
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
بڑی دھوم سے آئی میری سواری
جہاں میں ہوا اب میرا حکم جاری
ستارے چھپے رات اندھیری سدھاری
دکھائی دئے باغ اور کھیت کیاری
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
میں پورب سے پچھم پہ کرتی ہوں دھاوا
زمیں کے کرہ پر لگاتی ہوں کاوا
میں طے کر کے آئی ہوں چین اور جاوہ
نہیں کہتی کچھ تم سے اس کے علاوہ
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
 
بشکریہ اپنی ہی محفل اور خصوصا ً برادر نایاب ۔
غالبا" چوتھی جماعت کی نظم تھی۔ ہیٹز آفف ٹو اسمعیل میرٹھی
صبح کی آمد
خبر دن کے آنے کی میں لا رہی ہوں
اجالا زمانہ میں پھیلا رہی ہوں
بہار اپنی مشرق سے دکھلا رہی ہوں
پکارے گلے صاف چلا رہی ہوں
اٹھو سونے والو کہ میں آرہی ہوں
میں سب کاربہوار کے ساتھ آئی
میں رفتار و گفتار کے ساتھ آئی
میں باجوں کی جھنکار کے ساتھ آئی
میں چڑیوں کی چہکار کے ساتھ آئی
اٹھو سونے والو کہ میں آرہی ہوں
اذاں پر اذاں مرغ دینے لگا ہے
خوشی سے ہر اک جانور بولتا ہے
درختوں کے اوپر عجب چہچہا ہے
سہانا ہے وقت اور ٹھنڈی ہوا ہے
اٹھو سونے والو کہ میں آرہی ہوں
یہ چڑیاں جو پیڑوں پہ ہیں غل مچاتی
ادھر سے ادھر اڑ کے ہیں آتی جاتی
دموں کو ہلاتی پروں کو پھلاتی
میری آمد آمد کے ہیں گیت گاتی
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
جو طوطے نے باغوں میں ٹیں ٹیں مچائی
تو بلبل بھی گلشن میں ہے چہچہائی
اور اونچی منڈیروں پہ شاما بھی گائی
میں سو سو طرح سے دی رہی ہوں دہائی
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
ہر ایک باغ کو میں نے مہکا دیا ہے
نسیم اور صبا کو بھی لہکا دیا ہے
چمن سرخ پھولوں سے دہکا دیا ہے
مگر نیند نے تم کو بہکا دیا ہے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
ہوئی مجھ سے رونق پہاڑ اور بن میں
ہر ایک ملک میں دیس میں ہر وطن میں
کھلاتی ہوئی پھول آئی چمن میں
بجھاتی چلی شمع کو انجمن میں
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
جو اس وقت جنگل میں بوٹی جڑی ہے
سو وہ نولکھا ہار پہنے کھڑی ہے
کہ پچھلے کی ٹھنڈک سے شبنم پڑی ہے
عجب یہ سماں ہے عجب یہ گھڑی ہے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
ہرن چونک اٹھے چوکڑی بھر رہے ہیں
کلولیں ہرے کھیت میں کر رہے ہیں
ندی کے کنارے کھڑے چر رہے ہیں
غرض میرے جلوہ پہ سب مر رہے ہیں
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
میں تاروں کی چھاں آن پہونچی یہاں تک
زمیں سے ہے جلوہ مرا آسماں تک
مجھے پاؤ گے دیکھتے ہو جہاں تک
کرو گے بھلا کاہلی تم کہاں تک
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
پجاری کو مندر کے میں نے جگایا
موذن کو مسجد کے میں نے اٹھایا
بھٹکتے مسافر کو رستہ بتایا
اندھیرا گھٹایا ۔ اجالا بڑھایا
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
لدے قافلوں کے بھی منزل میں ڈیرے
کسانوں کے ہل چل پڑے منہ سویرے
چلے جال کندھے پہ لے کر مچھیرے
دلدر ہوئے دور آنے سے میرے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
بگل اور طنبور سنکھ اور نوبت
بجانے لگے اپنی اپنی سبھی گت
چلی توپ بھی دن سے حضرت سلامت
نہیں خوب غفلت ۔ نہیں خوب غفلت
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
لو ہشیار ہو جاؤ اور آنکھ کھولو
نہ لو کروٹیں اور نہ بستر ٹٹولو
خدا کو کرو یاد اور منہ سے بولو
بس اب خیر سے اٹھ کے منہ ہاتھ دھو لو
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
بڑی دھوم سے آئی میری سواری
جہاں میں ہوا اب میرا حکم جاری
ستارے چھپے رات اندھیری سدھاری
دکھائی دئے باغ اور کھیت کیاری
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
میں پورب سے پچھم پہ کرتی ہوں دھاوا
زمیں کے کرہ پر لگاتی ہوں کاوا
میں طے کر کے آئی ہوں چین اور جاوہ
نہیں کہتی کچھ تم سے اس کے علاوہ
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
زندہ باد جناب زندہ باد :)
کیا خوب نظم ہے
اس کے کافی اشعار مجھے یاد ہیں
شریک محفل کرنے کا شکریہ
شاد و آباد رہیں
 

محمداحمد

لائبریرین
بشکریہ اپنی ہی محفل اور خصوصا ً برادر نایاب ۔
غالبا" چوتھی جماعت کی نظم تھی۔ ہیٹز آف ٹو اسمعیل میرٹھی
صبح کی آمد
خبر دن کے آنے کی میں لا رہی ہوں
اجالا زمانہ میں پھیلا رہی ہوں
بہار اپنی مشرق سے دکھلا رہی ہوں
پکارے گلے صاف چلا رہی ہوں



واہ واہ واہ عاطف بھائی خوش کر دیا۔۔۔۔!

نصاب میں تو بہت کم اشعار تھے لیکن یہاں تو بہت بڑی نظم ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ایک نظم اور بھی تھی جو مجھے بہت پسند تھی لیکن افسوس کہ اب صرف پہلا شعر ہی یاد ہے۔
اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
کیا کسی کو یاد ہے یہ نظم؟؟؟
 
ایک نظم اور بھی تھی جو مجھے بہت پسند تھی لیکن افسوس کہ اب صرف پہلا شعر ہی یاد ہے۔
اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
کیا کسی کو یاد ہے یہ نظم؟؟؟
اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
جو عمر کو مفت گنوائےگا​
وہ آخر کو پچھتائےگا​
کچھ بیٹھے ہاتھ نہ آئے گا​
جو ڈھونڈے گا وہ پائے گا​
اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے​
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے​
اتنی ہی یاد ہے جناب :)
 
یہ بھی ہمارے نصاب میں تھی یاد نہیں کون سی کلاس میں پڑھی تھی :)
ہے کام کے وقت کام اچھا​
اور کھیل کے وقت کھیل زیبا​
جب کام کا وقت ہو کرو کام​
بھولے سے بھی کھیل کا نہ لو نام​
ہاں کھیل کے وقت خوب کھیلو​
کوندو پھاندو کہ ڈنڈ پیلو​
خوش رہنے کا ہے یہی طریقہ​
ہر بات کا سیکھیئے سلیقہ​
اپنی ہمت سے کام کرنا​
مشکل ہو تو چاہیے نہ ڈرنا​
جو کچھ ہو سو اپنے دم قدم سے​
کیا کام ہے غیر کے کرم سے​
مت چھوڑیو کام کو ادھورا​
بے کار ہے جو ہوا نہ پورا​
ہر وقت میں صرف ایک ہی کام​
پا سکتا ہے بہتری سے انجام​
جب کام میں کام اور چھیڑا​
دونوں میں ہی پڑ گیا بکھیڑا​
جو وقت گزر گیا اکارت​
افسوس ہوا خزانہ غارت​
ہے کام کے وقت کام اچھا​
اور کھیل کے وقت کھیل زیبا​
اسمٰعیل میرٹھی
نایاب بھیا یہ آپ کی ہی عنایت ہے :)
محفل نےآپ نے جو کلیات میرٹھی شریک کی ہے
ادھر سے ہی کاپی کی ہے
 

نایاب

لائبریرین
پہلی جماعت میں علامہ صاحب کی اس دعا سے شاعری کے جہاں سے واقفیت ہوئی ۔۔۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری. زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
دور دنیا کا میرے دم سے اندھیرا ہو جاے. ہر جگہ میرے چمکنے سےاجالا ہو جاے

جتنے عرصے کو میں اپنی سکول کی زندگی قرار دے سکتا ہوں ۔ اس میں درج ذیل نظم میری پسندیدہ ترین رہتے مجھے راہ دکھاتی رہی ۔۔۔۔۔۔۔
آدمی نامہ
نظیرؔ اکبر آبادی

دنیا میں بادشاہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی
اور مفلس و گدا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
زردار، بے نوا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
نعمت جو کھا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
ٹکڑے جو مانگتا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

ابدال و قُطب و غوث و وَلی آدمی ہو
مُنکِر بھی آدمی ہوئے اور کُفر کے بھرے
کیا کیا کرشمے ، کشف و کرامات کے کئیے
حتیٰ کے اپنے زہد و ریاضت کے زور سے
خالق سے جا ملا ہے ، سو ہے وہ بھی آدمی

فرعون نے کیا تھا جو دعویٰ خدائی کا
شدّاد بھی بہشت بنا کر ہوا خدا
نمرود بھی خدا ہی کہاتا تھا بر ملا
یہ بات ہے سمجھنے کی، آگے کہوں میں کیا
یاں تک جو ہو چکا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی


یاں آدمی ہی نار ہے، اور آدمی ہی نور
یاں آدمی ہی پاس ہے، اور آدمی ہی دور
کُل آدمی کا حُسن و قبح میں ہے یاں ظہور
شیطان بھی آدمی ہے، جو کرتا ہے مکر و زُور
اور ہادی رہنما ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

مسجد بھی آدمی نے بنائی ہے یاں میاں
بنتے ہیں آدمی ہی، امام اور خطبہ خواں
پڑھتے ہیں آدمی ہی، قرآن اور نماز، یاں
اور آدمی ہی اُن کی چُراتے ہیں جوتیاں
جو اُن کو تاڑتا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

یاں آدمی پہ جان کو مارے ہے آدمی
اور آدمی ہی تیغ سے مارے ہے آدمی
پگڑی بھی آدمی کی اُتارے ہے آدمی
چِلّا کے آدمی کو پُکارے ہے آدمی
اور سُن کے دوڑتا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

ناچے ہے آدمی ہی، بجا تالیوں کو یار
اور آدمی ہی ڈالے ہے اپنی ازار اُتار
ننگا کھڑا ، اُچھلتا ہے، ہو کر ذلیل و خوار
سب آدمی ہی ہنستے ہیں ، دیکھ اُس کو بار بار
اور وہ جو مسخرا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
چلتا ہے آدمی ہی، مسافر ہو، لے کے مال
اور آدمی ہی مارے ہے، پھانسی گلے میں ڈال
یاں آدمی ہی صید ہے ، اور آدمی ہی جال
سچّا بھی آدمی ہی، نکلتا ہے میرے لال
اور جھوٹھ کا بھرا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

یاں آدمی ہی شادی ہے، اور آدمی بیاہ
قاضی وکیل آدمی، اور آدمی گواہ
تاشے بجاتے آدمی چلتے ہیں، خوامخواہ
دوڑے ہیں آدمی ہی مشعالیں جلا کے واہ
اور بیاہنے چڑھا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

یاں آدمی نقیب ہو، بولے ہے بار بار
اور آدمی ہی پیادے ہیں، اور آدمی سوار
حُقہ ، صُراحی، جوتیاں، دوڑیں بغل میں مار
کاندھے پہ رکھ کے پالکی، ہیں آدمی کہار
اور اُس پہ جو چڑھا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

بیٹھے ہیں آدمی ہی، دکانیں لگا لگا
کہتا ہے کوئی لو، کوئی کہتا ہے، لا رے لا
اور آدمی ہی پھرتے ہیں، سر رکھ کے خوانچہ
کس کس طرح سے بیچیں ہیں، چیزیں بنا بنا
اور مول لے رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
طبلے ، منجیرے، دائرے، سارنگیاں بجا
گاتے ہیں آدمی ہی ہر اک طرح جا بجا
اُن کو بھی آدمی ہی نچاتے ہیں گت لگا
وہ آدمی ہی ناچیں ہیں، اور دیکھو یہ مزا
جو ناچ دیکھتا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

یاں آدمی ہی، لعل و جواہر ہے، بے بہا
اور آدمی ہی خاک سے بد تر ہی ہو گیا
کالا بھی آدمی ہے ، اور اُلٹا ہے جُوں توا
گورا بھی آدمی ہے کہ ٹُکڑا سا چاند کا
بد شکل و بد نُما ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

اک آدمی ہیں جن کی، یہ کُچھ زرق برق ہیں
روپے کے اُن کے پائوں ہیں، سونے کے فرق ہں
جھمکے تمام غرب سے لے ، تا بہ شرق ہیں
کمخواب، تاش، شال، دوشالوں میں غرق ہیں
اور چیتھڑوں لگا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

اک ایسے ہیں کہ، جن کے بِچھے ہیں نئے پلنگ
پھولوں کی سیج اُن پہ جَھمکتی ہے تازہ رنگ
سوتے ہیں لپٹے چھاتی سے ، معشوق ، شوخ و شنگ
سو سو طرح سے عیش کے کرتے ہیں رنگ ڈھنگ
اور خاک میں پڑا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
حیراں ہُوں یارو، دیکھو تو، کیسا یہ سوانگ ہے
یاں آدمی ہی چور ہے، اور آپ ہی تھانگ ہے
ہے چھینا جھپٹی، اور کہیں مانگ تانگ ہے
دیکھا تو آدمی ہی یہاں مثلِ رانگ ہے
فولاد سے گھڑا ہے ، سو ہے وہ بھی آدمی

مرنے میں آدمی ہی ، کفن کرتے ہیں تیار
نہلا دُھلا اُٹھاتےہیں، کاندھے پہ کر سوار
کلمہ بھی پڑھتے جاتے ہیں، روتے ہیں زار و زار
سب آدمی ہی کرتے ہیں، مردے کا کاروبار
اور وہ جو مر گیا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

اشراف اور کمینے سے، لے شاہ تا وزیر
ہیں آدمی ہی صاحبِ عزّت بھی، اور حقیر
یاں آدمی مرید ہیں، اور آدمی ہی ہیر
اچّھا بھی آدمی ہی کہاتا ہے اے نظیرؔ
اور سب میں جو بُرا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
 

محمداحمد

لائبریرین
نایاب بھائی زبردست سے زیادہ اگر کوئی ریٹنگ محفل میں ہوتی تو وہ بھی آپ کے لئے ہوتی آج۔۔۔۔۔!

اللہ آپ کو خوش رکھے اور آپ سے راضی ہو جائے۔

محفل میں اسمعیل میرٹھی کا کلام دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اور یہ آپ کی محنت کا ثمر ہے۔
 
پہلی جماعت میں علامہ صاحب کی اس دعا سے شاعری کے جہاں سے واقفیت ہوئی ۔۔۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری. زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
دور دنیا کا میرے دم سے اندھیرا ہو جاے. ہر جگہ میرے چمکنے سےاجالا ہو جاے

جتنے عرصے کو میں اپنی سکول کی زندگی قرار دے سکتا ہوں ۔ اس میں درج ذیل نظم میری پسندیدہ ترین رہتے مجھے راہ دکھاتی رہی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
آدمی نامہ
نظیرؔ اکبر آبادی

دنیا میں بادشاہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی
اور مفلس و گدا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
زردار، بے نوا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
نعمت جو کھا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
ٹکڑے جو مانگتا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

ابدال و قُطب و غوث و وَلی آدمی ہو
مُنکِر بھی آدمی ہوئے اور کُفر کے بھرے
کیا کیا کرشمے ، کشف و کرامات کے کئیے
حتیٰ کے اپنے زہد و ریاضت کے زور سے
خالق سے جا ملا ہے ، سو ہے وہ بھی آدمی

فرعون نے کیا تھا جو دعویٰ خدائی کا
شدّاد بھی بہشت بنا کر ہوا خدا
نمرود بھی خدا ہی کہاتا تھا بر ملا
یہ بات ہے سمجھنے کی، آگے کہوں میں کیا
یاں تک جو ہو چکا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی


یاں آدمی ہی نار ہے، اور آدمی ہی نور
یاں آدمی ہی پاس ہے، اور آدمی ہی دور
کُل آدمی کا حُسن و قبح میں ہے یاں ظہور
شیطان بھی آدمی ہے، جو کرتا ہے مکر و زُور
اور ہادی رہنما ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

مسجد بھی آدمی نے بنائی ہے یاں میاں
بنتے ہیں آدمی ہی، امام اور خطبہ خواں
پڑھتے ہیں آدمی ہی، قرآن اور نماز، یاں
اور آدمی ہی اُن کی چُراتے ہیں جوتیاں
جو اُن کو تاڑتا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

یاں آدمی پہ جان کو مارے ہے آدمی
اور آدمی ہی تیغ سے مارے ہے آدمی
پگڑی بھی آدمی کی اُتارے ہے آدمی
چِلّا کے آدمی کو پُکارے ہے آدمی
اور سُن کے دوڑتا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

ناچے ہے آدمی ہی، بجا تالیوں کو یار
اور آدمی ہی ڈالے ہے اپنی ازار اُتار
ننگا کھڑا ، اُچھلتا ہے، ہو کر ذلیل و خوار
سب آدمی ہی ہنستے ہیں ، دیکھ اُس کو بار بار
اور وہ جو مسخرا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
چلتا ہے آدمی ہی، مسافر ہو، لے کے مال
اور آدمی ہی مارے ہے، پھانسی گلے میں ڈال
یاں آدمی ہی صید ہے ، اور آدمی ہی جال
سچّا بھی آدمی ہی، نکلتا ہے میرے لال
اور جھوٹھ کا بھرا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

یاں آدمی ہی شادی ہے، اور آدمی بیاہ
قاضی وکیل آدمی، اور آدمی گواہ
تاشے بجاتے آدمی چلتے ہیں، خوامخواہ
دوڑے ہیں آدمی ہی مشعالیں جلا کے واہ
اور بیاہنے چڑھا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

یاں آدمی نقیب ہو، بولے ہے بار بار
اور آدمی ہی پیادے ہیں، اور آدمی سوار
حُقہ ، صُراحی، جوتیاں، دوڑیں بغل میں مار
کاندھے پہ رکھ کے پالکی، ہیں آدمی کہار
اور اُس پہ جو چڑھا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

بیٹھے ہیں آدمی ہی، دکانیں لگا لگا
کہتا ہے کوئی لو، کوئی کہتا ہے، لا رے لا
اور آدمی ہی پھرتے ہیں، سر رکھ کے خوانچہ
کس کس طرح سے بیچیں ہیں، چیزیں بنا بنا
اور مول لے رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
طبلے ، منجیرے، دائرے، سارنگیاں بجا
گاتے ہیں آدمی ہی ہر اک طرح جا بجا
اُن کو بھی آدمی ہی نچاتے ہیں گت لگا
وہ آدمی ہی ناچیں ہیں، اور دیکھو یہ مزا
جو ناچ دیکھتا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

یاں آدمی ہی، لعل و جواہر ہے، بے بہا
اور آدمی ہی خاک سے بد تر ہی ہو گیا
کالا بھی آدمی ہے ، اور اُلٹا ہے جُوں توا
گورا بھی آدمی ہے کہ ٹُکڑا سا چاند کا
بد شکل و بد نُما ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

اک آدمی ہیں جن کی، یہ کُچھ زرق برق ہیں
روپے کے اُن کے پائوں ہیں، سونے کے فرق ہں
جھمکے تمام غرب سے لے ، تا بہ شرق ہیں
کمخواب، تاش، شال، دوشالوں میں غرق ہیں
اور چیتھڑوں لگا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

اک ایسے ہیں کہ، جن کے بِچھے ہیں نئے پلنگ
پھولوں کی سیج اُن پہ جَھمکتی ہے تازہ رنگ
سوتے ہیں لپٹے چھاتی سے ، معشوق ، شوخ و شنگ
سو سو طرح سے عیش کے کرتے ہیں رنگ ڈھنگ
اور خاک میں پڑا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
حیراں ہُوں یارو، دیکھو تو، کیسا یہ سوانگ ہے
یاں آدمی ہی چور ہے، اور آپ ہی تھانگ ہے
ہے چھینا جھپٹی، اور کہیں مانگ تانگ ہے
دیکھا تو آدمی ہی یہاں مثلِ رانگ ہے
فولاد سے گھڑا ہے ، سو ہے وہ بھی آدمی

مرنے میں آدمی ہی ، کفن کرتے ہیں تیار
نہلا دُھلا اُٹھاتےہیں، کاندھے پہ کر سوار
کلمہ بھی پڑھتے جاتے ہیں، روتے ہیں زار و زار
سب آدمی ہی کرتے ہیں، مردے کا کاروبار
اور وہ جو مر گیا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

اشراف اور کمینے سے، لے شاہ تا وزیر
ہیں آدمی ہی صاحبِ عزّت بھی، اور حقیر
یاں آدمی مرید ہیں، اور آدمی ہی ہیر
اچّھا بھی آدمی ہی کہاتا ہے اے نظیرؔ
اور سب میں جو بُرا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
سدابہار کلام :)
جزاک اللہ شریک محفل کرنے کے لئے
 

نایاب

لائبریرین
نایاب بھائی زبردست سے زیادہ اگر کوئی ریٹنگ محفل میں ہوتی تو وہ بھی آپ کے لئے ہوتی آج۔۔۔ ۔۔!

اللہ آپ کو خوش رکھے اور آپ سے راضی ہو جائے۔

محفل میں اسمعیل میرٹھی کا کلام دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اور یہ آپ کی محنت کا ثمر ہے۔
آمین ثم آمین
اللہ آپ کو بہترین جزا سے نوازے آمین

محترم بھائی کیا یہ آدمی نامہ "
نظیرؔ اکبر آبادی " مرحوم کا کلام نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟​
 

محمداحمد

لائبریرین
آمین ثم آمین
اللہ آپ کو بہترین جزا سے نوازے آمین

محترم بھائی کیا یہ آدمی نامہ "
نظیرؔ اکبر آبادی " مرحوم کا کلام نہیں ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟​

یہ تو یقیناً نظیر اکبر آبادی کا ہی ہے۔ میری مراد اس ای بک سے تھی جو اسمعیل میرٹھی کی ہے اور آپ نے محفل میں ٹائپ کی ہے۔
 
Top