اسکول لائف کی کوئی نصابی نظم شئیر کریں

یہ بھی ہمارے نصاب میں تھی یاد نہیں کون سی کلاس میں پڑھی تھی :)
ہے کام کے وقت کام اچھا​
اور کھیل کے وقت کھیل زیبا​
جب کام کا وقت ہو کرو کام​
بھولے سے بھی کھیل کا نہ لو نام​
ہاں کھیل کے وقت خوب کھیلو​
کوندو پھاندو کہ ڈنڈ پیلو​
خوش رہنے کا ہے یہی طریقہ​
ہر بات کا سیکھیئے سلیقہ​
اپنی ہمت سے کام کرنا​
مشکل ہو تو چاہیے نہ ڈرنا​
جو کچھ ہو سو اپنے دم قدم سے​
کیا کام ہے غیر کے کرم سے​
مت چھوڑیو کام کو ادھورا​
بے کار ہے جو ہوا نہ پورا​
ہر وقت میں صرف ایک ہی کام​
پا سکتا ہے بہتری سے انجام​
جب کام میں کام اور چھیڑا​
دونوں میں ہی پڑ گیا بکھیڑا​
جو وقت گزر گیا اکارت​
افسوس ہوا خزانہ غارت​
ہے کام کے وقت کام اچھا​
اور کھیل کے وقت کھیل زیبا​
اسمٰعیل میرٹھی
 

محمداحمد

لائبریرین
کچھ نظمیں جو یاد ہیں وہ تو پوسٹ ہو گئیں ہیں۔ کچھ ٹھیک سے یاد نہیں۔

ایک نظم جو لکھنے بیٹھا تو پوری ہو ہی گئ۔ :)
محسن، طلعت، نور الٰہی
آپس میں ہیں تینوں بھائی
پڑھنا لکھنا کام ہے اُن کا
ہُشیاروں میں نام ہے اُن کا
وقت پہ کھانا، وقت پہ سونا
وقت پہ کھیل سے فارغ ہونا
جھوٹ سے نفرت کرتے ہیں وہ
سچی بات پہ مرتے ہیں وہ
منہ نہ کبھی بے موقع کھولیں
کوئی پُکارے تو "جی" بولیں
چھوٹے بڑے ہیں سب خوش اُن سے
واقف ہیں وہ پیار کے گُن سے
 
کچھ نظمیں جو یاد ہیں وہ تو پوسٹ ہو گئیں ہیں۔ کچھ ٹھیک سے یاد نہیں۔

ایک نظم جو لکھنے بیٹھا تو پوری ہو ہی گئ۔ :)
محسن، طلعت، نور الٰہی
آپس میں ہیں تینوں بھائی
پڑھنا لکھنا کام ہے اُن کا
ہُشیاروں میں نام ہے اُن کا
وقت پہ کھانا، وقت پہ سونا
وقت پہ کھیل سے فارغ ہونا
جھوٹ سے نفرت کرتے ہیں وہ
سچی بات پہ مرتے ہیں وہ
منہ نہ کبھی بے موقع کھولیں
کوئی پُکارے تو "جی" بولیں
چھوٹے بڑے ہیں سب خوش اُن سے
واقف ہیں وہ پیار کے گُن سے
کیا کہنے جناب
ہمیں بھی ذرا ذرا یاد ہے
یہ بھی نصاب میں شامل تھی :)
شریک محفل کرنے کا شکریہ
شاد و آباد رہیں
 

محمداحمد

لائبریرین
اسمعیل میرٹھی کی ایک نظم یاد آئی جو ذرا سی "گوگلنگ" سے مل گئی۔ شاید تیسری یا چوتھی کلاس کے اردو نصاب میں شامل تھی یہ نظم۔ :)
برسات
وہ دیکھو اُٹھی کالی کالی گھٹا
ہے چاروں طرف چھانے والی گھٹا
گھٹا کے جو آنے کی آہٹ ہوئی
ہوا میں بھی اِک سنسناہٹ ہوئی
گھٹا آن کر مینھ جو برسا گئی
تو بے جان مٹّی میں جان آگئی
زمیں سبزے سے لہلہانے لگی
کِسانوں کی محنت ٹھِکانے لگی
ہر اک پیڑ کا اک نیا ڈھنگ ہے
ہر اک پھول کا اک نیا رنگ ہے
ہزاروں پھدکنے لگے جانور
نِکل آئے گویا کہ مِٹّی کے پر
جہاں کل تھا میدان چٹیل پڑا
وہاں آج ہے گھاس کا بن کھڑا
یہ دو دن میں کیا ماجرا ہوگیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہوگیا
اسماعیل میرٹھی
 

محمداحمد

لائبریرین
گوگل سے پتہ چلا کہ محفل میں کلیاتِ اسمعیل میرٹھی (یا اُس کا جزوی حصہ) موجود ہے ۔ یہاں دیکھیے۔

یہاں سے معروف نظمیں جو نصاب میں شامل رہی ہیں وہ ہم اس لڑی میں شامل کر سکتے ہیں۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
جب میں بہت چھوٹی تھی اور اسکول نہیں جاتی تھی تو امی مجھے یہ سناتی تھیں۔۔۔ ۔
ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی
خالہ اُس کی لکڑی لائی
پھوپھی لائی دیا سلائی
امی جان نے آگ جلائی
ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی
دیگچی، چمچہ، نوکر لائے
بھائی چاول شکّر لائے
بہنیں لائیں دودھ ملائی
ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی
ابا نے دی ایک اکنی
خالو نے دی ڈیڑھ دونیّ
ٹوٹ بٹوٹ نے آدھی پائی
ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی
جوں ہی دسترخوان لگایا
گاؤں کا گاؤں دوڑا آیا
ساری خلقت دوڑی آئی
ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی
مینڈک بھی ٹرّاتے آئے
چوہے شور مچاتے آئے
بلّی گانا گاتی آئی
ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی
کوّے آئے کیں کیں کرتے
طوطے آئے ٹیں ٹیں کرتے
بُلبل چونچ ہلاتی آئی
ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی
دھوبی، کنجڑا، نائی آیا
پنساری، حلوائی آیا
سب نے آکر دھوم مچائی
ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی
گاؤں بھر میں ہوئی لڑائی
کھیر کسی کے ہاتھ نہ آئی
میرے اللہ تری دہائی
ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی
از صوفی غلام مصطفیٰ تبسم
بہت اچھی ہے ملائکہ
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
میری امی کا نام بھی ثریا ہے نا تو امی بھی مجھے بچپن میں اور ابو بھی یہ رات میں سناتے تھے۔۔۔ ۔۔کیونکہ میں ہی ثریا کی گڑیا ہوں:heehee: اور میں یہ سوچتی تھی کی میرے پاس بھی ایک دن ضرور پری آئے گی۔۔۔ ۔:biggrin:

ثریّا کی گڑیا

سُنو اِک مزے کی کہانی سنو
کہانی ہماری زبانی سنو
ثریا کی گڑیا تھی چھوٹی بہت
نہ دبلی بہت اور نہ موٹی بہت
جو دیکھو تو ننھی سی گڑیا تھی وہ
مگر اِک شرارت کی پڑیا تھی وہ
جو سوتی تو دن رات سوتی تھی وہ
جو روتی تو دن رات روتی تھی وہ
نہ امّی کے ساتھ اور نہ بھیّا کے ساتھ
وہ ہر وقت رہتی ثریّا کے ساتھ
ثریّا نے اِک دن یہ اُس سے کہا
مِری ننھی گڑیا یہاں بیٹھ جا!
بلایا ہے امّی نے آتی ہوں میں
کھٹولی میں تجھ کو سلاتی ہوں میں
وہ نادان گڑیا خفا ہو گئی
وہ روئی وہ چلّائی اور سو گئی
اچانک وہاں اِک پری آگئی
کھُلی آنکھ گڑیا کی گھبرا گئی
تو بولی پری مسکراتی ہوئی
سنہری پروں کو ہلاتی ہوئی
"اِدھر آؤ تم مجھ سے باتیں کرو
میں نازک پری ہوں نہ مجھ سے ڈرو"
وہ گڑیا مگر اور بھی ڈر گئی
لگی چیخنے "ہائے میں مر گئی
مِری پیاری آپا بچا لو مجھے
کسی کوٹھڑی میں چھُپا لو مجھے"
ثریّا نے آ کر اٹھایا اُسے
اٹھا کر گلے سے لگایا اُسے
گلے سے لگاتے ہی چُپ ہو گئی
وہ چُپ ہو گئی اور پھر سو گئی
ثریا کو دیکھا ، پری اڑ گئی
جدھر سے تھی آئی اُدھر مڑ گئی

(صوفی تبسّم)
:) :) :)
یہ والی بھی بہت اچھی ہے
 
اسمعیل میرٹھی کی ایک نظم یاد آئی جو ذرا سی "گوگلنگ" سے مل گئی۔ شاید تیسری یا چوتھی کلاس کے اردو نصاب میں شامل تھی یہ نظم۔ :)
برسات
وہ دیکھو اُٹھی کالی کالی گھٹا
ہے چاروں طرف چھانے والی گھٹا
گھٹا کے جو آنے کی آہٹ ہوئی
ہوا میں بھی اِک سنسناہٹ ہوئی
گھٹا آن کر مینھ جو برسا گئی
تو بے جان مٹّی میں جان آگئی
زمیں سبزے سے لہلہانے لگی
کِسانوں کی محنت ٹھِکانے لگی
ہر اک پیڑ کا اک نیا ڈھنگ ہے
ہر اک پھول کا اک نیا رنگ ہے
ہزاروں پھدکنے لگے جانور
نِکل آئے گویا کہ مِٹّی کے پر
جہاں کل تھا میدان چٹیل پڑا
وہاں آج ہے گھاس کا بن کھڑا
یہ دو دن میں کیا ماجرا ہوگیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہوگیا
اسماعیل میرٹھی
زبردست جناب آخری شعر تو ذد زبان عام ہے :)
نظیر اکبر آبادی کی ایک نظم ”برسات کی بہاریں“ بھی پڑھی تھی
تلاش کے باوجود نہیں مل رہی
 

محمداحمد

لائبریرین
ایک اور نظم بہت اچھی تھی لیکن صرف پہلا شعر ہی یاد آ رہا ہے۔

اے نونہال بچوں محنت سے کام کرنا
محنت کے بل پہ ساری دنیا کو رام کرنا
محنت سے چل رہے ہیں دنیا کے کارخانے
محنت سے مل رے ہیں ہر قوم کو خزانے

لکھتے لکھتے دوسرا شعر بھی یاد آگیا۔ :)
 
ایک اور نظم بہت اچھی تھی لیکن صرف پہلا شعر ہی یاد آ رہا ہے۔

اے نونہال بچوں محنت سے کام کرنا
محنت کے بل پہ ساری دنیا کو رام کرنا
محنت سے چل رہے ہیں دنیا کے کارخانے
محنت سے مل رے ہیں ہر قوم کو خزانے

لکھتے لکھتے دوسرا شعر بھی یاد آگیا۔ :)
لگتا ہے سب کو اپنا اپنا بچپن یاد آ رہا ہے :)
 

محمداحمد

لائبریرین
لگتا ہے سب کو اپنا اپنا بچپن یاد آ رہا ہے :)


مجھے بچپن سے ہی کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا، جب سلیبس کی کتابیں ملتی تھیں، سب سے پہلے نظمیں پڑھ لیتے تھے اس کے علاوہ کوئی کہانی یا ڈرامہ ہوتا تو وہ بھی پڑھائے جانے سے پہلے ہی پڑھنے کی کوشش کرتے تھے۔ واقعی کیا بات تھی بچپن کی۔
عجیب لطف تھا نادانیوں کے عالم میں​
سمجھ میں آئیں تو باتوں کا وہ مزہ بھی گیا​
 
اِس ہات دے اُس ہات لے
دنیا عجب بازار ہے کچھ جنس یاں کی ساتھ لے
نیکی کا بدلہ نیک ہے بد سے بدی کی بات لے
میوہ کھلا میوہ ملے پھل پھول دے پھل پات لے
آرام دے آرام لے دُکھ درد دے آفات لے
کلجُگ نہیں کرجگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے اِس ہات دے اُس ہات لے
کانٹا کسی کے مت لگا گو مثل گل پھولا ہے تو
وہ تیرے حق میں تیر ہے کس بات پر بھولا ہے تو
مت آگ میں ڈال اور کو پھر گھانس کا پولا ہے تو
سن رکھ یہ نکتہ بے خبر کس بات پر بھولا ہے تو
کلجُگ نہیں کرجگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے اِس ہات دے اُس ہات لے
جو اور کو پھل دیوے گا وہ بھی سدا پھل پاوے گا
گیہوں سے گیہوں، جَو سے جَو، چاول سے چاول پاوے گا
جو آج دیوے گا یہاں ویسا وہ کل واں پاوے گا
کل دیوے گا کل پاوے گا کلپاوے گا کل پاوے گا
کلجُگ نہیں کرجگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے اِس ہات دے اُس ہات لے
جو چاہے لے چل اس گھڑی سب جنس یاں تیار ہے
آرام میں آرام ہے، آزار میں آزار ہے
دنیا نہ جان اس کو میاں دریا کی یہ منجدھار ہے
اوروں کا بیڑا پار کر تیرا بھی بیڑا پار ہے
کلجُگ نہیں کرجگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے اِس ہات دے اُس ہات لے
تو اور کی تعریف کر، تجھ کو ثنا خوانی ملے
کر مشکل آساں اور کی تجھ کو بھی آسانی ملے
تو اور کو مہمان کر تجھ کو بھی مہمانی ملے
روٹی کھلا روٹی ملے، پانی پلا پانی ملے
کلجُگ نہیں کرجگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے اِس ہات دے اُس ہات لے
کرچُک جو کچھ کرنا ہو اب یہ دم تو کوئی آن ہے
نقصان میں نقصان ہے احسان میں احسان ہے
تہمت میں یاں تہمت لگے طوفان میں طوفان ہے
رحمان کو رحمان ہے شیطان کو شیطان ہے
کلجُگ نہیں کرجگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے اِس ہات دے اُس ہات لے
یاں زہر دے تو زہر لے شکّر میں شکّر دیکھ لے
نیکوں کو نیکی کا مزا موذی کو ٹکر دیکھ لے
موتی دے موتی ملے پتھر میں پتھر دیکھ لے
گر تجھ کو یہ باور نہیں تو تو بھی کر کر دیکھ لے
کلجُگ نہیں کرجگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے اِس ہات دے اُس ہات لے
غفلت کی یہ جاگہ نہیں یاں صاحب ادراک رہ
دل شاد رکھ دل شاد رہ، غمناک رکھ غمناک رہ
ہر حال میں تو بھی نظیر اب ہر قدم کی خاک رہ
یہ وہ مکاں ہے او میاں یاں پاک رہ بیباک رہ
کلجُگ نہیں کرجگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے اِس ہات دے اُس ہات لے
نظیر اکبر آبادی
 
مجھے بچپن سے ہی کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا، جب سلیبس کی کتابیں ملتی تھیں، سب سے پہلے نظمیں پڑھ لیتے تھے اس کے علاوہ کوئی کہانی یا ڈرامہ ہوتا تو وہ بھی پڑھائے جانے سے پہلے ہی پڑھنے کی کوشش کرتے تھے۔ واقعی کیا بات تھی بچپن کی۔
عجیب لطف تھا نادانیوں کے عالم میں​
سمجھ میں آئیں تو باتوں کا وہ مزہ بھی گیا​
جب سب کچھ کھو جاتا ہے
تب پتہ چلتا ہے بچپن کیا ہوتا ہے :)
 

محمداحمد

لائبریرین
حمد
یارب تو ہے سب کا آقا
سب کا مالک سب کا داتا
تونے کیا انسان کو پیدا
تونے کیا حیوان کو پیدا
پھول اور پودے، چاند اور تارے
تونے کیے ہیں پیدا سارے
راتیں دیں آرام کو تو نے
بخشے ہیں دن کام کو تونے
ہم پر بھی اب رحمت کردے
علم سے یارب دامن بھر دے


یہ حمد شاید دوسری جماعت کی اردو کی کتاب میں تھی۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
ایک اور نظم بہت اچھی تھی لیکن صرف پہلا شعر ہی یاد آ رہا ہے۔

اے نونہال بچوں محنت سے کام کرنا
محنت کے بل پہ ساری دنیا کو رام کرنا
محنت سے چل رہے ہیں دنیا کے کارخانے
محنت سے مل رے ہیں ہر قوم کو خزانے

لکھتے لکھتے دوسرا شعر بھی یاد آگیا۔ :)
جی بھیاااااا
یہ ہم بچپن میں بہت سنا اور پڑھا کرتے تھے :)
 
حمد
یارب تو ہے سب کا آقا
سب کا مالک سب کا داتا
تونے کیا انسان کو پیدا
تونے کیا حیوان کو پیدا
پھول اور پودے، چاند اور تارے
تونے کیے ہیں پیدا سارے
راتیں دیں آرام کو تو نے
بخشے ہیں دن کام کو تونے
ہم پر بھی اب رحمت کردے
علم سے یارب دامن بھر دے


یہ حمد شاید دوسری جماعت کی اردو کی کتاب میں تھی۔
کچھ کچھ یاد پڑتا ہے دوسری یا تیسری جماعت مین تھی :)
 
Top