مہمان اس ہفتے کے مہمان "سید شہزاد ناصر"

نیرنگ خیال

لائبریرین
پرنالہ وہیں گر رہا ہے

پرنالہ وہیں گر رہا ہے

پرنالہ وہیں گر رہا ہے

پرنالہ وہیں گر رہا ہے

جتنے پرنالے آپ نے گرا دیے ہیں۔۔۔ راہ سے گزرنے والے تو ڈوب گئے ہوں گے۔۔۔ :p
 
جتنے پرنالے آپ نے گرا دیے ہیں۔۔۔ راہ سے گزرنے والے تو ڈوب گئے ہوں گے۔۔۔ :p
پانی نہیں جناب ذوالقرنین، پرنالہ گر رہا ہے۔ گرنے والا تھا کسی کیل کھنگی سے اٹک گیا، شاہ جی کو لگتا ہے اب گرا کہ اب گرا، سو وہ یہی کہہ رہے ہیں "گر رہا ہے"۔
 
غالباً درست املا ”مولیٰ“ ہے
مالک و مولیٰ عزوجل! آپ کو بھی خوش رکھے۔
اصلاً ’’مَوْلٰی‘‘ ہے جیسے آپ نے لکھا، اردو میں عرصۂ دراز سے ’’مولا‘‘ بھی معروف ہے۔
ہاں عزوجل کی درست عربی املا ’’اَعَزّ‘‘ و ’’اَجَلّ‘‘ ہے۔ باب اَفعَل۔
مثال: وَ اَعَزُّ وَ اَجَلُّ وَ اَہَمُّ وَ اَتَمُّ وَ اَعْظَمُ وَ اَکْبَرُ
 
آخری تدوین:

خرم انصاری

محفلین
اصلاً ’’مَوْلٰی‘‘ ہے جیسے آپ نے لکھا، اردو میں عرصۂ دراز سے ’’مولا‘‘ بھی معروف ہے۔
ہاں عزوجل کی درست عربی املا ’’اَعَزّ‘‘ و ’’اَجَلّ‘‘ ہے۔ باب اَفعَل۔
مثال: وَ اَعَزُّ وَ اَجَلُّ وَ اَہَمُّ وَ اَتَمُّ وَ اَعْظَمُ وَ اَکْبَرُ
بجا فرمایا اَعَزَّ و اَجَلَّ بروزن اَفْعَلَ باب افعال سے نیز اَعَزُّ و اَجَلُّ بروزن اَفْعَلُ بصیغہ اسم تفضیل بہرصورت ان کا معنی درست ٹھہرے گا مگر اس عاجز کی رائے میں اسے بجائے مزید فیہ کے مجرد اور بجائے اسم تفضیل کے فعل سے لینا انسب ہے کہ اس طرح لفظ میں کسی تعلیل کی ضرورت نہ پڑے گی۔ تینوں صورتوں میں معنی:
  1. جو بلند وبرتر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عزوجل۔۔۔۔۔مجرد اور فعل۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس صورت میں لفظی ومعنوی کسی تعلیل وتاویل کی ضرورت نہیں۔
  2. جو سب سے بلند وبرتر ہے۔۔۔۔عزوجل ۔۔۔۔۔اسم تفصیل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس صورت میں لفظی تعلیل ضروری ہو گی۔ عربی میں اس کی ایک مثال ذہن میں آ تو رہی ہے جیسے لفظ ”خیر“ اصل میں ”اخیر“ بروزن افعل تھا۔
  3. جو بلند وبرتر بناتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔عزوجل۔۔۔۔۔مزید فیہ، باب افعال۔۔۔۔اس صورت میں بھی لفظی تعلیل ضروری ہے اور باب افعال کے فعل ماضی، صیغہ واحد کا ہمزہ حذف کرنے کی کوئی مثال ذہن میں نہیں۔
”بلند وبرتر“ ایک معنی بطور وضاحت درج کیا لغت میں اور بھی معانی ہوں گے لیکن اصل چیز وہی کہ افعال میں آ کر متعدی ہو جائیں گے اور لفظی تعلیل بھی کرنا ہو گی اور تفضیل میں فقط لفظی تعلیل کرنا ہو گی جبکہ مجرد سے لینے میں معنی بھی لازم کا رہے گا جو اس مقام پر زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے اور لفظی تعلیل بھی نہ کرنا پڑے گی۔ واللہ ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم
معروض: بندہ بشر ہے، سہو ونسیان کا امکان ہے۔
 
بجا فرمایا اَعَزَّ و اَجَلَّ بروزن اَفْعَلَ باب افعال سے نیز اَعَزُّ و اَجَلُّ بروزن اَفْعَلُ بصیغہ اسم تفضیل بہرصورت ان کا معنی درست ٹھہرے گا مگر اس عاجز کی رائے میں اسے بجائے مزید فیہ کے مجرد اور بجائے اسم تفضیل کے فعل سے لینا انسب ہے کہ اس طرح لفظ میں کسی تعلیل کی ضرورت نہ پڑے گی۔ تینوں صورتوں میں معنی:
  1. جو بلند وبرتر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عزوجل۔۔۔۔۔مجرد اور فعل۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس صورت میں لفظی ومعنوی کسی تعلیل وتاویل کی ضرورت نہیں۔
  2. جو سب سے بلند وبرتر ہے۔۔۔۔عزوجل ۔۔۔۔۔اسم تفصیل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس صورت میں لفظی تعلیل ضروری ہو گی۔ عربی میں اس کی ایک مثال ذہن میں آ تو رہی ہے جیسے لفظ ”خیر“ اصل میں ”اخیر“ بروزن افعل تھا۔
  3. جو بلند وبرتر بناتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔عزوجل۔۔۔۔۔مزید فیہ، باب افعال۔۔۔۔اس صورت میں بھی لفظی تعلیل ضروری ہے اور باب افعال کے فعل ماضی، صیغہ واحد کا ہمزہ حذف کرنے کی کوئی مثال ذہن میں نہیں۔
”بلند وبرتر“ ایک معنی بطور وضاحت درج کیا لغت میں اور بھی معانی ہوں گے لیکن اصل چیز وہی کہ افعال میں آ کر متعدی ہو جائیں گے اور لفظی تعلیل بھی کرنا ہو گی اور تفضیل میں فقط لفظی تعلیل کرنا ہو گی جبکہ مجرد سے لینے میں معنی بھی لازم کا رہے گا جو اس مقام پر زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے اور لفظی تعلیل بھی نہ کرنا پڑے گی۔ واللہ ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم
معروض: بندہ بشر ہے، سہو ونسیان کا امکان ہے۔
یہاں بات سیدھی سیدھی اسم صفت اور اس کے درجہ تفضیل کی تھی۔
بہرکیف، معذرت خواہ ہوں کہ آپ کے لئے ناگواری کا سبب بنا؛ آئندہ شکایت نہیں ہو گی۔
 
آخری تدوین:

خرم انصاری

محفلین
یہاں بات سیدھی سیدھی اسم صفت اور اس کے درجہ تفضیل کی تھی۔
لیکن اس سے اسم صفت تو ”عزیز“ بروزنِ فعیل ہو گا۔
بہرکیف، معذرت خواہ ہوں کہ آپ کے لئے ناگواری کا سبب بنا؛
آپ نے شرمندہ کیا معذررت کا کہہ کر مجھے کچھ ناگوار نہیں گزرا البتہ اگر آپ پر میرا کچھ کہنا گراں گزرا تو برائے کرم معاف فرما دیجئے۔
آئندہ شکایت نہیں ہو گی۔
شکایت تو پہلے تھی نہ اب ۔۔۔ البتہ اس طرح آپ پھر ہمیں اندھیروں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیں گے اور یہ بات یقیناً آپ کو بھی پسند نہ آئے گی۔

جہاں تک بحث کا تعلق ہے تو بذاتِ خود یہ کوئی بُری شے تو نہیں بلکہ بہت لحاظ سے اس کی اہمیت مسلم ہے البتہ فریقین کا رویہ، حق بات سے عناد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ اس سے منفی نتائج برآمد کرتا ہے۔ اس عاجز کے اپنے اساتذہ کے ساتھ بعض دفعہ کئی کئی گھنٹے کسی مسئلے پر بحث میں گزر جاتے ہیں اور بہت الجھی گتھیاں سلجھتی ہیں لیکن کبھی ایک دوسرے کے بارے میں دل میں کدورت وبدگمانی نہ لائے۔ قطعی امکان ہے کہ انتخابِ الفاظ نے کوئی ایسا لفظ استعمال ہو گیا ہو جو مبارک خاطر کے لیے بارِ گراں واقع ہوا ہو اس کے لیے ایک بار پھر معافی کا خواستگار ہوں امید ہے کہ طفلانہ خطا سمجھتے ہوئے درگزر فرمائیں گے اور یہ آس کبھی ٹوٹنے نہ دیں گے کیونکہ آس اور آسی کا بڑا گہرا رشتہ ہے۔ خوش و خرم رہنے کی دعا۔
خوش وخرم میں واؤ کو باء سے بدل کر پڑھئے
 
Top