زندگی بھر نہ ہوا ختم قیامت کا عذاب
ہم نے ہر سانس میں برپا نیا محشر دیکھا
اتنا بے حس کہ پگھلتا ہی نہ تھا باتوں سے
آدمی تھا کہ تراشا ہوا پتھر دیکھا
( محسن نقوی)
ضبط کا شوق بھی ہے عہد کا پیماں بھی ہے
عہد و پیماں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
ضبط اتنا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا
اور سکوں ایسا کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
وحشتوں کی ویرانی کچھ یوں بھی گھر کر آتی ہے
بارش کی رم جھم میں دل بوجھل بوجھل رہتا ہے
یادوں کے جنگل کی بند کھڑکی بھی کھلتی ہے
عجب دکھوں کے میلے میں ایک شورسا برپا رہتا ہے