بہت خوباب کہ ہوتا ہی نہیں میرا گزارا ان پر
چاہیے ہیں مجھے اس بار نئے چاروں طرف
آسماں پر کوئی تصویر بناتا ہوں، ظفر
کہ رہے ایک طرف اور لگے چاروں طرف
ظفر اقبال
امید وصل نے دھوکے دئیے ہیں اس قدر حسرت
کہ اس کافر کی ‘ہاں’ بھی اب ‘نہیں’ معلوم ہوتی ہے
چراغ حسن حسرت
اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے کتنی دور بسائ ہیں بستیاں
فراق گو رکھپوری
اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن
بھولتا ہی نہیں عالم تیری انگڑائ کا
عزیز لکھنوی
ہم نے پانچ لکھ دیئے
abdul.rouf620
بہت کمالبھری برسات میں پیہم جدائی کے تصور سے
وہ مل کر اشک برسانا نہ تم بھولے نہ ہم بھولے
کنولؔ ڈبائیوی