حسان خان
لائبریرین
ساجد بھائی، مرض کی تشخیص تو آپ نے کر لی، اب دوا پر بھی بات کر لیتے ہیں تاکہ کچھ نتیجہ نکل جائے۔ پہلے میں کچھ مختصراَ عرض کرتا ہوں۔
میری نظر میں سندھ کا سندھی مہاجر مسئلہ اسی وقت حل ہوگا جب دونوں اطراف کے لوگ قوم پرستی کو ترک کر دیں گے (ایم کیو ایم باضابطہ طور پر تو یہ کام کر چکی ہے، لیکن مہاجر قوم پرستی عوام میں زندہ ہے)، کیونکہ آبادیوں کے ایک دوسرے میں ضم ہونے کی اولین شرط یہ ہے کہ پیار محبت اور بھائی چارے کی فضا برقرار رہے۔ آپ ڈنڈے کے زور پر تو مجھے کبھی مجبور نہیں کر سکتے کہ میں خود کو سندھی کہلواؤں یا سندھی ثقافت کو اپناؤں۔ اگر مجھے سندھیانا ہے تو سب سے پہلے تو مجھ سے بیگانگی کے احساس کو نکالنا پڑے گا۔ اور یہ چیز نفرت انگیز قوم پرستی سے تو کبھی نہیں ہو سکے گیی۔
سندھی قوم پرستوں کو عملی ہو کر یہ سوچنا پڑے گا کہ مہاجر آبادی اب سندھ کا ناگزیر حصہ ہے اور اس کے برابر کے حقوق ہیں۔ اب چاہے انہیں پسند ہو یا نہ ہو، مہاجروں سے طاقت کے زور پر بھی چھٹکارا حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا جلد یا بدیر، چاہتے ہوئے یا با دلِ ناخواستہ مہاجروں کو سمونا پڑے گا۔ کیونکہ اگر ایسا نہ کیا تو سندھ کے لیے ہی سب سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ کیونکہ ایسے میں آپ کسی غیر سندھی سے اس کی توقع نہیں کر سکتے کہ وہ ثانوی درجے کا شہری ہونا بھی منظور کرے، اور پھر بھی سندھ سے وفادار رہے اور سندھ سے الگ ہونے کی باتیں نہ کرے۔ اور یہ اگر قوم پرست اپنی تحریک کامیاب کرا کر سندھ کو خدانخواستہ پاکستان سے الگ کر لیتے ہیں تو یہ کس بنیاد پر غیر سندھیوں کو سندھ 'ماتا' کے حصے بخرے کرنے سے روک سکیں گے؟ you can't have your cake and eat it too
دوسری طرف مہاجر قوم پرستوں کو بھی اپنا رویہ ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے باپ دادا یہاں کسی مہاجرستان کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے لیے آئے تھے۔ اس لیے یہ اُن کا مقدس فرض ہے کہ پاکستانیت کو ہر چیز پر ترجیح دیں۔ نیز، مہاجروں میں جو تہذیبی غرور موجود ہے، اسے سب سے پہلے ترک کر دینے کی ضرورت ہے۔ (مہاجروں کے ذہن میں یہ بات گھسی ہوئی ہے کہ مہاجروں کے علاوہ سب غیر مہذب ہیں اور ان سے کمتر ہیں۔) کیونکہ یہی رویہ تو دوسری جانب کی قوم پرستی کو تقویت بخشتا ہے۔ نہ تو سندھی مہاجر سے کمتر ہیں، نہ ہی سندھی زبان و ثقافت کسی بھی طور سے اردو زبان و ثقافت سے کمتر ہے۔ لہذا مہاجر اگر اپنے ملک پاکستان سے محبت کرتے ہیں، تو اُنہیں پاکستان کی خاطر سندھی زبان و ثقافت کو عزت دینی ہوگی، سندھ کو اپنا وطن تسلیم کرنا پڑے گا اور اگر وہ سندھی کو بھی اپنی دوسری صوبائی زبان کے طور پر اپنا لیتے ہیں تو نور علیٰ نور۔ یہاں المیہ ہے کہ مہاجروں کو سندھی زبان تیسری سے نویں تک رٹائی تو جاتی ہے لیکن ایک فیصد بھی پڑھائی نہیں جاتی، نتیجتاَ غیر سندھی زندگی بھر سندھی زبان و ثقافت سے بیگانہ رہتے ہیں۔ تعلیمی نظام میں بہتری سے یہ مسئلہ آسانی سے حل ہو سکتا ہے۔ لیکن بات پھر وہی ہے کہ یہ سب کچھ ڈنڈے کے زور پر تو قطعی نہیں ہو سکتا۔
میری نظر میں سندھ کا سندھی مہاجر مسئلہ اسی وقت حل ہوگا جب دونوں اطراف کے لوگ قوم پرستی کو ترک کر دیں گے (ایم کیو ایم باضابطہ طور پر تو یہ کام کر چکی ہے، لیکن مہاجر قوم پرستی عوام میں زندہ ہے)، کیونکہ آبادیوں کے ایک دوسرے میں ضم ہونے کی اولین شرط یہ ہے کہ پیار محبت اور بھائی چارے کی فضا برقرار رہے۔ آپ ڈنڈے کے زور پر تو مجھے کبھی مجبور نہیں کر سکتے کہ میں خود کو سندھی کہلواؤں یا سندھی ثقافت کو اپناؤں۔ اگر مجھے سندھیانا ہے تو سب سے پہلے تو مجھ سے بیگانگی کے احساس کو نکالنا پڑے گا۔ اور یہ چیز نفرت انگیز قوم پرستی سے تو کبھی نہیں ہو سکے گیی۔
سندھی قوم پرستوں کو عملی ہو کر یہ سوچنا پڑے گا کہ مہاجر آبادی اب سندھ کا ناگزیر حصہ ہے اور اس کے برابر کے حقوق ہیں۔ اب چاہے انہیں پسند ہو یا نہ ہو، مہاجروں سے طاقت کے زور پر بھی چھٹکارا حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا جلد یا بدیر، چاہتے ہوئے یا با دلِ ناخواستہ مہاجروں کو سمونا پڑے گا۔ کیونکہ اگر ایسا نہ کیا تو سندھ کے لیے ہی سب سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ کیونکہ ایسے میں آپ کسی غیر سندھی سے اس کی توقع نہیں کر سکتے کہ وہ ثانوی درجے کا شہری ہونا بھی منظور کرے، اور پھر بھی سندھ سے وفادار رہے اور سندھ سے الگ ہونے کی باتیں نہ کرے۔ اور یہ اگر قوم پرست اپنی تحریک کامیاب کرا کر سندھ کو خدانخواستہ پاکستان سے الگ کر لیتے ہیں تو یہ کس بنیاد پر غیر سندھیوں کو سندھ 'ماتا' کے حصے بخرے کرنے سے روک سکیں گے؟ you can't have your cake and eat it too
دوسری طرف مہاجر قوم پرستوں کو بھی اپنا رویہ ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے باپ دادا یہاں کسی مہاجرستان کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے لیے آئے تھے۔ اس لیے یہ اُن کا مقدس فرض ہے کہ پاکستانیت کو ہر چیز پر ترجیح دیں۔ نیز، مہاجروں میں جو تہذیبی غرور موجود ہے، اسے سب سے پہلے ترک کر دینے کی ضرورت ہے۔ (مہاجروں کے ذہن میں یہ بات گھسی ہوئی ہے کہ مہاجروں کے علاوہ سب غیر مہذب ہیں اور ان سے کمتر ہیں۔) کیونکہ یہی رویہ تو دوسری جانب کی قوم پرستی کو تقویت بخشتا ہے۔ نہ تو سندھی مہاجر سے کمتر ہیں، نہ ہی سندھی زبان و ثقافت کسی بھی طور سے اردو زبان و ثقافت سے کمتر ہے۔ لہذا مہاجر اگر اپنے ملک پاکستان سے محبت کرتے ہیں، تو اُنہیں پاکستان کی خاطر سندھی زبان و ثقافت کو عزت دینی ہوگی، سندھ کو اپنا وطن تسلیم کرنا پڑے گا اور اگر وہ سندھی کو بھی اپنی دوسری صوبائی زبان کے طور پر اپنا لیتے ہیں تو نور علیٰ نور۔ یہاں المیہ ہے کہ مہاجروں کو سندھی زبان تیسری سے نویں تک رٹائی تو جاتی ہے لیکن ایک فیصد بھی پڑھائی نہیں جاتی، نتیجتاَ غیر سندھی زندگی بھر سندھی زبان و ثقافت سے بیگانہ رہتے ہیں۔ تعلیمی نظام میں بہتری سے یہ مسئلہ آسانی سے حل ہو سکتا ہے۔ لیکن بات پھر وہی ہے کہ یہ سب کچھ ڈنڈے کے زور پر تو قطعی نہیں ہو سکتا۔