حسان خان
لائبریرین
قتل و غارت کا سلسلہ جاری تھا۔کچھ بتا سکتے ہیں کہ تقسیم پاکستان کے وقت پنجاب کے بارڈر کی حالت کیا تھی؟۔
قتل و غارت کا سلسلہ جاری تھا۔کچھ بتا سکتے ہیں کہ تقسیم پاکستان کے وقت پنجاب کے بارڈر کی حالت کیا تھی؟۔
امین بھیا ، یہ جھگڑے تو اب بھی موجود ہیں۔ ہمیں ان میں پڑے بغیر پیار اور محبت سے حقائق کی طرف جانا ہے۔
ساجد بھائی پنجاب کے بارڈر کی حالت بہت ہی ابتر تھی۔۔چلئے حسان بھائی ، اس سے آگے چلتے ہیں۔ آپ ماشاء اللہ کافی علم رکھتے ہیں کچھ بتا سکتے ہیں کہ تقسیم پاکستان کے وقت پنجاب کے بارڈر کی حالت کیا تھی؟۔
الٹا کہہ گئے حضرت، سب سے زیادہ جانی نقصان مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کا ہوا تھا۔سب سے زیادہ نقصان مشرقی ہندوستان کے مسلمانوں کا ہوا اور بعد میں پنجاب کے مسلمانوں کا۔۔
اللہ آپ کا بھلا کرے۔ اب میں اپنے کاشفی برادر سے کہوں گا کہ ملاحظہ فرمائیں کہ ہم پاکستانی قوم کی حیثیت سے یہاں آئے تھے نا کہ اپنی اپنی قوم کی پہچان سے۔ اور اگر ہمیں کوئی فرد یا گروہ ایک قوم بننے سے روکتا ہے تو اس کو اپنا خیر خواہ مت جانو اور نہ ہی خود کو الگ الگ قوموں میں شمار کرو۔پاکستان ہندوستانی مسلمانوں کی جداگانہ قومیت کے نام پر بنا تھا، اور سارے لوگوں نے اسی لیے ہجرت کی تھی۔
ہجرت کرنے والوں میں تقریباَ ہندوستان کے تقریباَ ہر صوبے کے لوگ شامل تھے۔ مشرقی پنجاب سے تو مسلمان تقریباَ سارے ہی پاکستان آ گئے تھے۔
اللہ آپ کا بھلا کرے۔ اب میں اپنے کاشفی برادر سے کہوں گا کہ ملاحظہ فرمائیں کہ ہم پاکستانی قوم کی حیثیت سے یہاں آئے تھے نا کہ اپنی اپنی قوم کی پہچان سے۔ اور اگر ہمیں کوئی فرد یا گروہ ایک قوم بننے سے روکتا ہے تو اس کو اپنا خیر خواہ مت جانو اور نہ ہی خود کو الگ الگ قوموں میں شمار کرو۔
جی بالکل درست فرمایا ۔ سب سے زیادہ مہاجر پنجاب سے تعلق رکھتے تھے اور اس حال میں لاہور کے بارڈر پر پہنچے کہ ٹرینوں کے دروازوں سے ان کے لاشوں کا خون بہہ رہا تھا۔
----
اب آپ کو ایک معلوماتی بات بتاؤں کہ ہمیں بارڈر پر روٹی اور کھانا یہاں کے مقامی یعنی ”مٹی کے بیٹوں“ نے دیا لیکن کچھ نا خلف بیٹوں نے آپ لوگوں کی طرح ہمیں”مہاجر“اور ”شہدے پنائی“ بھی کہا۔ جس کا مطلب بنتا ہے حقیر پناہ گزین۔
لیکن ہمارے اجداد نے اس نام کو قبول نہ کیا بلکہ جب بھی انہیں یہ کہا جاتا وہ اسے اپنے لئے گالی کے برابر سمجھتے۔
مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کا نقصاں ہوا تھا اس میں کوئی شک نہیں۔۔لیکن مشرقی ہندوستان کے مسلمان سب پسے گئے۔۔تقسیمِ ہندوستان کے وقت بھی اور تقسیمِ ہندوستان کے بعد بھی۔۔۔الٹا کہہ گئے حضرت، سب سے زیادہ جانی نقصان مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کا ہوا تھا۔
ساجد بھائی، میں خود مہاجر قوم پرستی کو رد کر کے پاکستانی قوم پرستی کو قبول کرتا ہوں، کیونکہ پاکستانیت پر کسی اور چیز کو ترجیح دے کر میں اُن لاکھوں لوگوں کے خون کا مذاق نہیں اڑانا چاہتا جو پاکستان کے لیے گھر سے نکلے تھے، لیکن سرحد سے پہلے ہی فسادات کا شکار ہو کر خالق سے جا ملے۔اللہ آپ کا بھلا کرے۔ اب میں اپنے کاشفی برادر سے کہوں گا کہ ملاحظہ فرمائیں کہ ہم پاکستانی قوم کی حیثیت سے یہاں آئے تھے نا کہ اپنی اپنی قوم کی پہچان سے۔ اور اگر ہمیں کوئی فرد یا گروہ ایک قوم بننے سے روکتا ہے تو اس کو اپنا خیر خواہ مت جانو اور نہ ہی خود کو الگ الگ قوموں میں شمار کرو۔
اب آپ کو ایک معلوماتی بات بتاؤں کہ ہمیں بارڈر پر روٹی اور کھانا یہاں کے مقامی یعنی ”مٹی کے بیٹوں“ نے دیا لیکن کچھ نا خلف بیٹوں نے آپ لوگوں کی طرح ہمیں”مہاجر“اور ”شہدے پنائی“ بھی کہا۔ جس کا مطلب بنتا ہے حقیر پناہ گزین۔
لیکن ہمارے اجداد نے اس نام کو قبول نہ کیا بلکہ جب بھی انہیں یہ کہا جاتا وہ اسے اپنے لئے گالی کے برابر سمجھتے۔
اب تصور کیجئے کہ پنجاب جو تقسیم پاکستان مین دو حصوں میں بٹا ، جس کے سب سے زیادہ لوگ دونوں اطراف قتل ہوئے ، جس کی سب سے زیادہ عزتیں پامال ہوئیں اور جہاں ان کو مقامی افراد نے پھولوں کی طرح رکھا وہیں بہت سارے ان کو دن رات مہاجر اور پناہ گزین کہنےکے علاوہ نفرت کا نشانہ بھی بناتے رہے اس پنجاب کے ایک بھی فرد کو ان کا دیا ہوا نام قبول نہ کیا بلکہ ان پر اس قدر اثر چھوڑا کہ آج سوائے دور دراز دیہات کے شہری علاقوں میں آپ مقامی اور ہجرت کر کے آنے والوں میں فرق محسوس نہیں کر سکتے۔
اب تصور کیجئے کہ پنجاب جو تقسیم پاکستان مین دو حصوں میں بٹا ، جس کے سب سے زیادہ لوگ دونوں اطراف قتل ہوئے ، جس کی سب سے زیادہ عزتیں پامال ہوئیں اور جہاں ان کو مقامی افراد نے پھولوں کی طرح رکھا وہیں بہت سارے ان کو دن رات مہاجر اور پناہ گزین کہنےکے علاوہ نفرت کا نشانہ بھی بناتے رہے اس پنجاب کے ایک بھی فرد کو ان کا دیا ہوا نام قبول نہ کیا بلکہ ان پر اس قدر اثر چھوڑا کہ آج سوائے دور دراز دیہات کے شہری علاقوں میں آپ مقامی اور ہجرت کر کے آنے والوں میں فرق محسوس نہیں کر سکتے۔
آپ کبھی میرے پاس تشریف لائیں تو میں اپ کو خانیوال ، جھنگ ، لاہور اور چند دیگر شہروں کے اردو سپیکنگ بھائیوں سے ملواؤں گا اور آپ فرق دیکھ سکیں گے کہ سندھ میں یہ مسئلہ کتنا شدید ہے اور پنجاب میں نہ ہونے کے برابر۔میرے ناناجان کا خاندان روہتک کا اردو بولنے والا خاندان ہے۔ اور اب پاکستانی پنجاب کے مختلف شہروں میں آباد ہے۔ مگر ناناجان کے بقول ہجرت کے بعد انہیں اردو بولنے کی وجہ سے پنجاب میں سخت تعصب کا سامنا تھا جو کہ ابھی بھی ختم نہیں ہوا ہے۔
اب تصور کیجئے کہ پنجاب جو تقسیم پاکستان مین دو حصوں میں بٹا ، جس کے سب سے زیادہ لوگ دونوں اطراف قتل ہوئے ، جس کی سب سے زیادہ عزتیں پامال ہوئیں اور جہاں ان کو مقامی افراد نے پھولوں کی طرح رکھا وہیں بہت سارے ان کو دن رات مہاجر اور پناہ گزین کہنےکے علاوہ نفرت کا نشانہ بھی بناتے رہے اس پنجاب کے ایک بھی فرد کو ان کا دیا ہوا نام قبول نہ کیا بلکہ ان پر اس قدر اثر چھوڑا کہ آج سوائے دور دراز دیہات کے شہری علاقوں میں آپ مقامی اور ہجرت کر کے آنے والوں میں فرق محسوس نہیں کر سکتے۔
مبالغہ ہوگیا ساجد بھائی۔۔۔
پنجاب لوٹا لیکن اتنا نہیں جتنا مشرقی ہندوستان کے مسلمان لوٹے گئے۔۔۔
پنجاب کی کہانی مختلف ہے۔۔اور سندھ کی کہانی مختلف ہے۔۔
پنجاب میں پنجابی اسپیکنگ ادھر اُدھر ہوئے۔ سندھ کی طرف اردو اسپیکنگ کو دھکیلا گیا۔ اس میں پنجاب کے لوگوں کا قصور نہیں۔۔پنجاب کے وڈیرہ شاہی لوگوں کا قصور ہے۔۔
جی حسان بھائی ، آپ بالکل درست پہنچے۔ سندھ میں بھی عام مہاجر یا سندھی قصور وار نہیں بلکہ جی ایم سید جیسی ذہنیت ہے۔ ورنہ وہ سندھ جو صدیوں سے بلوچوں کو قبول کرتا رہا اور باب الاسلام تھا 1947 کے بعد مہاجروں اور مسلمانوں کے لئے تنگ کیوں ہو گیا؟۔لیکن پنجاب کی اکثریت نے انہیں رد نہیں کیا، نہ ہی ان کو ایجنڈا بنا کر کسی مقامی قوم پرست پارٹی نے سیاست کی۔
جبکہ یہاں کی اکثریت نے بیگانہ مان کر رد کر دیا اور سائیں جی ایم سید اپنی تصنیفات میں مہاجروں کو کوستے رہے۔
امین بھائی ، امرتسر کی پنجابی اور یہاں کی مقامی پنجابی میں کافی زیادہ فرق ہے اور تو اور کھانے پینے کی عادات ، بود و باش ، شادی بیاہ کی رسوم اور ذرائع روزگار میں بھی بہت تفاوت ہے۔ اور سندھ کے علاوہ اردو سپیکنگ بھائی پنجاب میں بھی آباد ہوئے اور اسی کا ایک لازمی حصہ سمجھے جاتے ہیں۔غالباً پاکستانی پنجاب میں ہجرت کر کے آنے والوں کی اکثریت پنجابی ہی تھی۔ کراچی میں یہ معاملہ نہیں تھا۔ کراچی سندھیوں اور بلوچوں کا تھا اور یہاں آنے والوں نے اردو ہی بولی۔ گو کہ کراچی ہمیشہ سے بمبئی کے لوگوں سے بھرا رہا مگر بمبئی کے علاوہ دوسرے علاقوں سے آنے والوں کو کراچی اور سندھ کے دوسرے شہروں میں پاکستانی نہیں سمجھا گیا محض اس لیے کہ وہ سندھی زبان اور ثقافت سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔
آپ کی بات میں سمجھ رہا ہوں امید ہے آپ بھی میری بات سمجھ رہے ہونگے۔۔