ذَرا [ذَرا] (عربی)
--------------------------------------------------------------------------------
ذَرا
عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم 'ذرّہ' کی تصحیف ہے (ہ ہذف کر کے ا لگانے سے بنا)۔ اردو میں اپنے اصل معنوں کے ساتھ بطور صفت نیز بطور متعلق استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے 1809ء کو "دیوان جُرأت" میں مستعمل ملتا ہے۔
صفت مقداری
1. تھوڑا، بہت کم۔
خدا جانے کس نے سکھایا ہے تم کو
بہت بھول جانا ذرا یاد رکھنا ( 1873ء، کلیاتِ قدر، 128 )
2. کچھ، کسی قدر۔
"میرے نزدیک تم ذرا نیک ہو مگر اتنے نہیں جتنا میں نیک چاہتی ہوں۔" ( 1940ء، ساغرِ محبت، 21 )
3. مطلقاً، بالکل، ہرگز۔
ترے ستم کی تو پروا نہیں مگر ظالم
عدو کی بات ذرا میں نہیں اٹھانے کا ( 1886ء، دیوانِ سخن، 52 )
4. مہربانی سے، زحمت نہ ہو تو۔
غیر سے لے کے اجازت کبھی اے جانِ مراد
سوئے غم خانۂ عاشق بھی ذرا ہو جانا ( 1942ء، سنگ و خِشت، 28 )
5. بارے، خیر سے۔
آزردہ دل تھے زندگی، سست رو سے ہم
آئے غزال شب تو طبیعت ذرا کُھلی ( 1968ء، غزال و غزل، 75 )
6. بھلا، خبردار۔
جفا کرتے ہیں وہ جس دم وفا کہتی ہے یہ مجھ سے
گرے تم میری نظروں سے اگر آنسو ذرا نکلے ( 1836ء، ریاض البحر، 221 )
7. تھوڑی دیر کو، دم بھر کو، کوئی دم۔
موت رُخصت ہوئی وہ صبح کا تارا چمکا
اب سنبھلنے دے ذرا اے شبِ ہجراں مجھ کو ( 1919ء، درشہوار، بیخود، 75 )