زبان عام یا مشہور ہونے والے اشعار میں سادہ اور زود فہم الفاظ کے ساتھ ساتھ ایک ایسا خیال کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہےکہ
جس کو سمجھنے کے لئے ذہن کو کسی واسطے یا واسطوں سے نہیں گزرنا پڑے ، یعنی جو بلا واسطہ ہماری سمجھدانی ( اگر ہے ) میں آجائے
مثال کے طور پر یہ شعر :
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روٹی
اُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلادو
کتنی آسانی سے انسانی قلب ذہن پر اثر کرنے والا شعر ہے کہ خود اگانے والا اگر بھوکا رہے تو ایسی روٹی کو کیا فائدہ ،
جلادو
اور اگانے والے کو نہ ملنا یا اس کا بھوکا رہنا ، کسی اور ، جس کے پاس گندم کی مکمل اجا داری ہے کو سنگدل اور نا انصاف
بھی دکھاتا ہے یا ظاہر کرتا ہے کہ شیئر نہیں کرتا ۔۔ پس ہمارے معاشرے کے توازن میں واضح فرق کی وجہ سے بھی ہر شخص اپنی حق تلفی میں
اس یا ایسے اشعار سے رغبت یا انسیت رکھتا ہے ،یا ایسے اشعار اسے لا شعوری اٹریکٹ کرتےہیں کہ ان ہی میں انھیں پناہ ملتی ہے ، اسے ذہنی گوشۂ آفیت قبول کرکے، اس سے ایک قسم کی شادمانی یا تسکین محسوس کرتے ہیں
شعر میں ربط بھی زیادہ الفاظ کا محتاج نہیں
میّسر نہ ہو روٹی
تو گندم کو جلادو
الله الله خیر صلیٰ