عرفان علوی
محفلین
روفی بھائی ، سلام عرض ہے !تنقید کا پہلا دور انتہائی خوبصورت رہا۔ اساتذہ کی محفل میں بیٹھ کر ہمیں معلوم ہوا کہ دراصل شعر کہتے کس کو ہیں اور خیالات کی عکسبندی کیونکر ممکن ہے ۔امید ہے یہ سلسلہ یونہی رواں دواں رہے گا۔ اور شرکائے لڑی کا بھی بے حد شکریہ جنہوں نے اپنی خوبصورت باتوں اور ریٹنگز سے ماحول کو گرمائے رکھا۔
جاسمن آپا کا ازحد شکریہ جنہوں نے یہ خوبصورت سلسلہ شروع کیا اور اس سلسلے کو مزید خوبصورتی یوں عطاء فرمائی کہ اس سلسلے کو استادِ محترم جناب اعجاز عبید کے نام سے منسوب کیا۔ ظہیراحمدظہیر ، عرفان علوی اور سید عاطف علی کا بھی ازحد شکریہ جنہوں نے اس سلسلے کو اپنی سخن دانی سے خوبصورت بنایا۔ امید ہے کہ احباب اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت اس سلسلے کو مہیا کرتے رہیں گے۔ مجھے امید ہے کہ ہمارے باقی شعراء دوست بھی اپنی اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت اس سلسلے کو ضرور عطاء فرمائیں گے۔
نئے سلسلے کے لیے میں اپنی ایک حقیر سی کاوش پیش کرنا چاہوں گا۔
شکوہ ہے مرے لب پہ جو اک تیرہ شبی کا
ہے دہر میں باعث وہ مری کم لقبی کا
پانی کو ترستا ہو جوں گم گشتہِ صحرا
یوں تجھ سے تعلق ہے مری تشنہ لبی کا
پھر میرا جفا جُو لگا مَلنے کفِ افسوس
دیکھا جو نظارہ سا مری جاں بلبی کا
ہائے جو محبت کی زباں سے نہیں واقف
لاحق یہ مجھے عشق ہوا کیسے غبی کا
تو جو نہ میسر ہو اجالوں میں تو اے دوست
ٹوٹے نہ کبھی زور مری تیرہ شبی کا
آپ کی غزل چسپاں ہونے كے فوراََ بعد دیکھی تھی ، لیکن مصروفیت کی وجہ سے جلد کچھ عرض نہیں کر سکا . کل یہاں آیا تو دیکھا کہ بزم میں کچھ بد مزگی دَر آئی ہے . حالانکہ اِس موضوع پر بہت کچھ کہا جا چکا ہے اور امید ہے کہ آئندہ ہَم اِس طرح كے حالات سے دو چار نہیں ہونگے ، تاہم اِس ضمن میں چند باتیں کہنا چاہتا ہوں .
ہَم سب جانتے ہیں کہ تحریر میں كلام کی ساری خصوصیات نہیں آ سکتیں . اِس لیے ضروری ہے کہ تحریر کو بے حد دوستانہ رکھا جائے اور اس میں ایسی کوئی بات نہ ہو جو کسی کی دِل آزاری کا سبب بنے . میں نے یاسر بھائی کا مراسلہ جب پہلی بار پڑھا تھا تو وہ مجھے صرف ایک ہلکی پھلکی مزاحیہ تحریر معلوم ہوا تھا . لیکن ظہیر بھائی كے خطوط پڑھنے كے بعد جب دوبارہ پڑھا تو احساس ہوا کہ اس میں واقعی ان کی دِل آزاری کا سامان ہے . میری ناچیز رائے میں مزاح میں احتیاط کی ضرورت ہے ، خاص طور پر تب جب کہ وہ ماضی میں مشکلات پیدا کر چکا ہو . میرا خیال ہے کہ زیادہ تر احباب کی اِس بزم میں حاضِری کا بنیادی مقصد اپنی اور دیگر احباب کی دِل جوئی ہے . اَدَبی گفتگو اِس مقصد كے حصول کا ذریعہ ہے . اِس امر میں اگر کچھ سیکھنے کو مل جائے تو یہ ہمارے لیے اور زیادہ خوشی کا باعث ہوتا ہے . میں خود کو اِس زمرے میں شمار کرتا ہوں . محترم اعجاز صاحب اور ظہیر بھائی جیسے لوگ ایک عظیم تر مقصد كے تحت یہاں تشریف لاتے ہیں ، اور وہ ہے ادب کی خدمت . یہ لوگ اپنا قیمتی وقت صرف کر كے اپنے علم کی دولت ہمیں عنایت فرماتے ہیں ، اور اِس كے عوض کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتے . ہمارا فرض ہے کہ تبادلۂ خیال میں ہَم اِن مقاصد کو مد نظر رکھیں .
اور آئیے اب چلتے ہیں آپ کی غزل کی جانب، اِس امید كے ساتھ کہ بزم میں وہ مذاکرات پِھر شروع ہونگے جن كے لیے اِس بزم کا انعقاد کیا گیا تھا . بھائی ، آپ نے صرف پانچ عدد اشعار عنایت فرما کر تنقید کا میدان پہلے ہی تنگ کر دیا ہے . اب ہَم آپ کی ٹانگ کھینچیں بھی تو کتنی ؟ مذاق بر طرف ، پہلے تو میں آپ کو دوسرے ، چوتھے اور پانچویں شعر پر داد دینا چاہتا ہوں جو مجھے پسند آئے . بقیہ دو اشعار پر چند باتیں عرض ہیں .
پہلے شعر میں مجھے دو مسئلے نظر آئے . اول تو لفظ ’کم لقبی‘ عجیب لگا . میں نے یہ لفظ پہلے نہیں دیکھا . لقب کا مطلب ہے ’ایسا نام جو کسی صفت سے متعلق ہو .‘ اِس بنا پر ’کم لقبی‘ کا مطلب ہوا ’کسی شخص میں صفات کا کم ہونا .‘ مجھے نہیں لگتا یہ آپ کا موقف ہے . کہیں آپ ’کم نامی‘ تو نہیں کہنا چاہ رہے ہیں ؟ اگر ہاں، تو ’کم لقبی‘ اس کا بَدَل نہیں ہے . دوم یہ کہ اگر ’کم نامی‘ ہی مراد ہے تو دونوں مصرعوں کا ربط کم اَز کم مجھ پر واضح نہیں ہوا . تیرہ شبی کا شکوہ کسی کی کم نامی کا باعث کیسے ہو سکتا ہے ؟
تیسرے شعر کا مفہوم مجھ پر فوراََ واضح نہیں ہوا . ذرا غور کرنے پر سمجھ میں آیا کہ شاید آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ جفا جو کو اِس بات کا افسوس ہے کہ جان باقی کیسے رہ گئی . اگر یہی مراد ہے تو خیال صفائی سے ادا نہیں ہوا . ’جاں بلب ہونا‘ اور ’جان باقی ہونا‘ میں باریک ، لیکن اہم فرق ہے . شکار كے جاں بلب ہونے پر تو جفا جو کو خوش ہونا چاہیے . نیز یہ کہ دوسرے مصرعے میں لفظ ’سا‘ کی ضرورت نہیں ہے ، لہٰذا یہ حشو میں شمار ہو گا .
آپ كے سخن میں مسلسل نکھار آ رہا ہے . مبارک ہو . اللہ کرے زورِ بیاں اور زیادہ ( آمین . )