الف عین اسٹوڈیو-2 (شاعری)

تنقید کا پہلا دور انتہائی خوبصورت رہا۔ اساتذہ کی محفل میں بیٹھ کر ہمیں معلوم ہوا کہ دراصل شعر کہتے کس کو ہیں اور خیالات کی عکسبندی کیونکر ممکن ہے ۔امید ہے یہ سلسلہ یونہی رواں دواں رہے گا۔ اور شرکائے لڑی کا بھی بے حد شکریہ جنہوں نے اپنی خوبصورت باتوں اور ریٹنگز سے ماحول کو گرمائے رکھا۔
جاسمن آپا کا ازحد شکریہ جنہوں نے یہ خوبصورت سلسلہ شروع کیا اور اس سلسلے کو مزید خوبصورتی یوں عطاء فرمائی کہ اس سلسلے کو استادِ محترم جناب اعجاز عبید کے نام سے منسوب کیا۔ ظہیراحمدظہیر ، عرفان علوی اور سید عاطف علی کا بھی ازحد شکریہ جنہوں نے اس سلسلے کو اپنی سخن دانی سے خوبصورت بنایا۔ امید ہے کہ احباب اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت اس سلسلے کو مہیا کرتے رہیں گے۔ مجھے امید ہے کہ ہمارے باقی شعراء دوست بھی اپنی اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت اس سلسلے کو ضرور عطاء فرمائیں گے۔

نئے سلسلے کے لیے میں اپنی ایک حقیر سی کاوش پیش کرنا چاہوں گا۔

شکوہ ہے مرے لب پہ جو اک تیرہ شبی کا
ہے دہر میں باعث وہ مری کم لقبی کا

پانی کو ترستا ہو جوں گم گشتہِ صحرا
یوں تجھ سے تعلق ہے مری تشنہ لبی کا

پھر میرا جفا جُو لگا مَلنے کفِ افسوس
دیکھا جو نظارہ سا مری جاں بلبی کا

ہائے جو محبت کی زباں سے نہیں واقف
لاحق یہ مجھے عشق ہوا کیسے غبی کا

تو جو نہ میسر ہو اجالوں میں تو اے دوست
ٹوٹے نہ کبھی زور مری تیرہ شبی کا
روفی بھائی ، سلام عرض ہے !
آپ کی غزل چسپاں ہونے كے فوراََ بعد دیکھی تھی ، لیکن مصروفیت کی وجہ سے جلد کچھ عرض نہیں کر سکا . کل یہاں آیا تو دیکھا کہ بزم میں کچھ بد مزگی دَر آئی ہے . حالانکہ اِس موضوع پر بہت کچھ کہا جا چکا ہے اور امید ہے کہ آئندہ ہَم اِس طرح كے حالات سے دو چار نہیں ہونگے ، تاہم اِس ضمن میں چند باتیں کہنا چاہتا ہوں .
ہَم سب جانتے ہیں کہ تحریر میں كلام کی ساری خصوصیات نہیں آ سکتیں . اِس لیے ضروری ہے کہ تحریر کو بے حد دوستانہ رکھا جائے اور اس میں ایسی کوئی بات نہ ہو جو کسی کی دِل آزاری کا سبب بنے . میں نے یاسر بھائی کا مراسلہ جب پہلی بار پڑھا تھا تو وہ مجھے صرف ایک ہلکی پھلکی مزاحیہ تحریر معلوم ہوا تھا . لیکن ظہیر بھائی كے خطوط پڑھنے كے بعد جب دوبارہ پڑھا تو احساس ہوا کہ اس میں واقعی ان کی دِل آزاری کا سامان ہے . میری ناچیز رائے میں مزاح میں احتیاط کی ضرورت ہے ، خاص طور پر تب جب کہ وہ ماضی میں مشکلات پیدا کر چکا ہو . میرا خیال ہے کہ زیادہ تر احباب کی اِس بزم میں حاضِری کا بنیادی مقصد اپنی اور دیگر احباب کی دِل جوئی ہے . اَدَبی گفتگو اِس مقصد كے حصول کا ذریعہ ہے . اِس امر میں اگر کچھ سیکھنے کو مل جائے تو یہ ہمارے لیے اور زیادہ خوشی کا باعث ہوتا ہے . میں خود کو اِس زمرے میں شمار کرتا ہوں . محترم اعجاز صاحب اور ظہیر بھائی جیسے لوگ ایک عظیم تر مقصد كے تحت یہاں تشریف لاتے ہیں ، اور وہ ہے ادب کی خدمت . یہ لوگ اپنا قیمتی وقت صرف کر كے اپنے علم کی دولت ہمیں عنایت فرماتے ہیں ، اور اِس كے عوض کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتے . ہمارا فرض ہے کہ تبادلۂ خیال میں ہَم اِن مقاصد کو مد نظر رکھیں .
اور آئیے اب چلتے ہیں آپ کی غزل کی جانب، اِس امید كے ساتھ کہ بزم میں وہ مذاکرات پِھر شروع ہونگے جن كے لیے اِس بزم کا انعقاد کیا گیا تھا . بھائی ، آپ نے صرف پانچ عدد اشعار عنایت فرما کر تنقید کا میدان پہلے ہی تنگ کر دیا ہے . اب ہَم آپ کی ٹانگ کھینچیں بھی تو کتنی ؟ :) مذاق بر طرف ، پہلے تو میں آپ کو دوسرے ، چوتھے اور پانچویں شعر پر داد دینا چاہتا ہوں جو مجھے پسند آئے . بقیہ دو اشعار پر چند باتیں عرض ہیں .
پہلے شعر میں مجھے دو مسئلے نظر آئے . اول تو لفظ ’کم لقبی‘ عجیب لگا . میں نے یہ لفظ پہلے نہیں دیکھا . لقب کا مطلب ہے ’ایسا نام جو کسی صفت سے متعلق ہو .‘ اِس بنا پر ’کم لقبی‘ کا مطلب ہوا ’کسی شخص میں صفات کا کم ہونا .‘ مجھے نہیں لگتا یہ آپ کا موقف ہے . کہیں آپ ’کم نامی‘ تو نہیں کہنا چاہ رہے ہیں ؟ اگر ہاں، تو ’کم لقبی‘ اس کا بَدَل نہیں ہے . دوم یہ کہ اگر ’کم نامی‘ ہی مراد ہے تو دونوں مصرعوں کا ربط کم اَز کم مجھ پر واضح نہیں ہوا . تیرہ شبی کا شکوہ کسی کی کم نامی کا باعث کیسے ہو سکتا ہے ؟
تیسرے شعر کا مفہوم مجھ پر فوراََ واضح نہیں ہوا . ذرا غور کرنے پر سمجھ میں آیا کہ شاید آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ جفا جو کو اِس بات کا افسوس ہے کہ جان باقی کیسے رہ گئی . اگر یہی مراد ہے تو خیال صفائی سے ادا نہیں ہوا . ’جاں بلب ہونا‘ اور ’جان باقی ہونا‘ میں باریک ، لیکن اہم فرق ہے . شکار كے جاں بلب ہونے پر تو جفا جو کو خوش ہونا چاہیے . نیز یہ کہ دوسرے مصرعے میں لفظ ’سا‘ کی ضرورت نہیں ہے ، لہٰذا یہ حشو میں شمار ہو گا .
آپ كے سخن میں مسلسل نکھار آ رہا ہے . مبارک ہو . اللہ کرے زورِ بیاں اور زیادہ ( آمین . )
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
لاریب اخلاص ، حسنِ ظن اور کلماتِ تحسین کے لیے بہت شکریہ! بخدا میں استاد نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ میں اردو شعر و ادب کا ایک طالب علم ہوں ۔ جو کچھ میں نے کتابوں اور اپنے استادوں سے حاصل کیا اسے آگے تک پہنچانے کی ایک سعی کرتا ہوں اور اس کوشش میں خود بہت کچھ حاصل بھی کرتا ہوں ۔ اردو محفل سیکھنے سکھانے کی ایک جگہ ہے ۔ سنجیدہ ادبی گفتگو میں استفادہ ہمیشہ دوطرفہ ہوتا ہے ۔ آپ اس دھاگے میں تشریف لائیں ، بہت خوشی ہوئی ۔ اگر آپ غزل کے کسی شعر پر اپنی وقیع رائے کا اظہار بھی فرمائیں تو اور اچھا ہوگا۔
مگرسر ہم آپ کو استاد مانتے ہیں کیوں کہ آپ سے لفظوں کو کہاں کیسے لکھنا بولنا سیکھا ہے بلکہ سیکھ رہے ہیں بہت کم لوگ ہوتے جنہیں پڑھ کر سن کر سب یاداشت میں محفوظ ہوتا جاتا ہے۔ سلامتی کی دعائیں!
غزل بارے رائے اور ہم اللہ اللہ!
بس اتنا کر سکتے ہیں کہ جو دل کو خوب لگے اس پہ لکھ دیتی ہوں چاہے ایک لفظ ہی ہو۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اور میں بہت اچھے سے میزبان کے فرائض بھی نہیں نبھا پا رہی۔۔۔ کئی چیزوں پہ سرسری گزر جاتی ہوں کہ کچھ دنوں سے بہت مصروفیات ہیں نوکری کی، گھر کی، سنجیدہ چیزوں کے لیے زیادہ غورو فکر اور وقت کی، تروتازہ دماغ کی ضرورت ہوتی ہے اور میں اپنے لیے اکثر "تھکے ہوئے لوگ" کا صیغہ استعمال کرتی ہوں۔ اوپر سے محمد پولیس کے تین ڈنڈے کھا کے آ گیا ہے۔ الحمدللہ خیریت رہی۔
بس ان وجوہات کی بنا پہ بھی میں نے اچھی میزبانی نہیں کی۔ یا شاید اس قسم کے دھاگے کی میزبانی میرے لیول سے اوپر ہے۔
انتہائی غیر متفق! خصوصاً آپ کے آخری جملے سے کوئی بھی اتفاق نہیں کرے گا ۔
ظاہر ہے کہ آپ تمام لوگ ملازمتیں بھی کرتے ہیں ، اپنی اپنی گھریلو ذمہ داریاں بھی نبھاتے ہیں ، دنیا کے اور سینکڑوں مسائل ہیں کہ جن سے آدمی کو دن رات الجھنا پڑتا ہے۔ ان سب کے باوجود اگر آپ تمام مدیران اور منتظمین حضرات یہاں محفل میں رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں اور حتی المقدور اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں تو یہ بڑی بات ہے ۔ میں اپ کو بہت کریڈٹ دیتا ہوں ۔ آپ بہت اچھے طریقے سے میزبانی کررہی ہیں ۔ اللّٰہ کریم آپ کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے ، وقت اور توانائی میں برکت عطا فرمائے ۔
کہ حقہ کئی دن سے تازہ نہیں کروایا ہے اور تمباکو بھی ملاوٹ والا لگ رہا ہے ۔ ہر کش کے بعد صرف آٹھ منٹ تک کھانسی آتی ہے

محمد کے بارے میں خبر پڑھ کر افسوس ہوا ۔ اللّٰہ ان ظالموں کو ہدایت دے ۔ امید ہے کہ برخوردار خیریت سے ہونگے ۔ آپ کا مراسلہ پڑھ کر پہلی بات جو ذہن میں گونجی وہ چالیس سال پرانا ایک مصرع کہ"پولیس کا ہے ڈنڈا ، کمر آپ کی" ۔ ہے تو مزاحیہ سی بات لیکن کس قدر افسوسناک بھی ہے کہ چالیس سال بعد بھی پولیس کی روش میں کوئی فرق نہیں آیا ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جناب عبدالرؤف صاحب ، اپنی غزل پر نقد و نظر کا موقع دینے کے لیے آپ کا شکریہ! امید ہے کہ ان اشعار کے توسط سے ہونے والی گفتگو حسبِ سابق آپ کے علاوہ اور بہت سارے قارئین کے لیے سود مند ثابت ہوگی ۔ براہِ کرم اس گفتگو کو مثبت انداز میں لیجئے گا۔ اگر میرے کسی تبصرے میں کہیں کوئی تلخی ترشی نظر آئے تو میں اس نادانستہ غلطی کے لیے آپ سے پیشگی معذرت خواہ ہوں ۔ میں آج ایک دو اشعار پر اپنی ناقص رائے پیش کرتا ہوں ۔ پھر کسی روز بشرطِ فرصت دیگر اشعار پر بھی بات کرنے کی کوشش کروں گا۔ ان شاء اللّٰہ العزیز۔
شکوہ ہے مرے لب پہ جو اک تیرہ شبی کا
ہے دہر میں باعث وہ مری کم لقبی کا

مطلع کے بارے میں عرفان علوی بھائی نے کم لقبی کے استعمال اور شعر کی دو لختی پر پہلے ہی بات کردی ہے ۔ شعر کا مضمون خلافِ حقیقت اور غیر معقول ہے ۔ جیسا کہ عرفان بھائی نے نشاندہی کی کہ بدنامی یا رسوائی تو کسی برے کام کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ تیرہ شبی کا شکوہ دنیا میں بدنامی کا باعث کیسے بن سکتا ہے؟! اس شعر کے مضمون کو دوبارہ سے سوچنے کی ضرورت ہے۔

یہ شعر اگرچہ ٹھیک نہیں ہے لیکن پھر بھی اس کے توسط سے ایک دو عمومی پہلوؤں پر مفید نکات بیان کیے جاسکتے ہیں ۔ پہلی بات تو یہ کہ کم لقبی بمعنی بدنامی یا کم نامی ایک شاذ لفظ ہے ، شاید ہی کہیں شعر و نثر میں نظر آتا ہے۔ غریب اور شاذ الفاظ کے استعمال سے ابلاغ متاثر ہوتا ہے اور یہ شعر کے معائب میں شمار کیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قافیے کی تنگی کی وجہ سے بعض اوقات اس طرح کا کوئی غیر مستعمل لفظ شعر میں لانا پڑجاتا ہے ۔ایسی صورت میں عام قاعدہ یہ ہے کہ پھر شعر کا مضمون اور بقیہ شعر کے محاسن اس قدر اعلیٰ ہونے چاہئیں کہ وہ اس عیب پر حاوی ہوجائیں ۔ لیکن ایسی کوئی بات اس شعر میں نظر نہیں آتی ۔ چنانچہ بہتر ہے کہ اسے دوبارہ کہا جائے ۔
دوسرا نکتہ تعقید سے متعلق ہے۔ عروضی پابندیوں کی وجہ سے شعر میں تعقیدِ لفظی ( یعنی لفظوں کا اپنے اصل مقام سے آگے پیچھے ہوجانا) ایک عام سی بات ہے۔ لیکن کوشش یہی ہونی چاہیے کہ ترتیبِ الفاظ جس قدر ہوسکے نثر کے قریب ہو۔ نثر میں الفاط کی ترتیب فطری اور رواں ہوتی ہے اور بغیر ذہن لڑائے فوراً قاری کی سمجھ میں آجاتی ہے ۔ کافر مومنؔ کا ضرب المثل شعر ہے:
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
اس کے مصرع اول کواگر یوں کہا جائے : پاس تم ہوتے ہو مرے گویا ۔۔۔۔۔ یا ۔۔۔۔۔۔ہوتے ہو تم مرے پاس گویا ۔۔۔۔۔ یا ۔۔۔۔۔۔ پاس ہوتے ہو تم مرے گویا
تو شعر کا قتل ہوجائے گا۔ اسی طرح اگرمصرع ثانی کو یوں کہا جائے: دوسرا جب کوئی نہیں ہوتا ۔۔۔۔یا۔۔۔۔۔۔۔ جب نہیں کوئی دوسرا ہوتا
تو اس صورت میں بھی شعر دھڑام سے نیچے گر پڑے گا ۔
لیکن مومنؔ کے شعر میں الفاظ کی ترتیب نثر کے عین مطابق ہے ۔ اسی وجہ سے شعر میں بے انتہا روانی اور اثر ہے ۔ اس کے مصرع اول میں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ تم مرے پاس کی بندش میں اگرچہ عیب تنافر ہے لیکن مومنؔ نے الفاظ کی نثری ترتیب کو برقرار رکھتے ہوئے قرات کی روانی کو عیب تنافر پر ترجیح دی ۔ اس سے یہ فرق ظاہر ہوتا ہے کہ روانی کا ٹوٹنا عیبِ تنافر سے زیادہ بڑا سقم ہے اور شعر کو بری طرح متاثر کرتا ہے ۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا عروضی پابندیوں کی وجہ سے شعر میں لفظی تعقید سے مکمل نجات پانا اکثر ناممکن ہوتا ہے ۔ لفظی تعقیدسے بچنا ممکن نہ ہو تو پھر کوشش یہ کرنی چاہیے کہ تعقید کم سے کم ہو ، معنوی تعقید نہ پیدا ہونے پائے ، تعقید کی وجہ سے کوئی ناگوار یا مضحکہ خیز بندش وجود میں نہ آئے۔ معنوی تعقید سے مراد ایسی لفظی ترتیب ہے کہ جس سے قاری کے ذہن میں مطلوبہ معنی کے بجائے کچھ اور معنی پہنچنےہونے کا امکان ہو۔ آپ کے مطلع کے مصرع اول میں تعقید ہے ۔اس کی نثر تو یہ ہوگی کہ مرے لب پر تیرہ شبی کا جو اک شکوہ ہے لیکن زمین کی پابندی کی وجہ سے تیرہ شبی کا ٹکڑا آخر میں رکھنا پڑرہا ہے مصرع کی موجودہ بندش میں "اک" کا لفط تیرہ شبی سے پہلے آرہا ہے جبکہ اس لفظ کا اصل موصوف شکوہ ہے یعنی اسے شکوہ سے پہلے آنا چاہیے۔ اک تیرہ شبی کی جو بندش پیدا ہورہی ہے وہ ٹھیک نہیں کیونکہ تیرہ شبی کوئی قابلِ شمار شے نہیں ہے ۔ الفاظ کے ردو بدل سے اس تعقید کو کم کیا جاسکتا ہے ۔ مثلاً ۔۔۔۔شکوہ ہے لبوں پر جو مرے تیرہ شبی کا ۔ اس طرح سے نہ صرف تعقید کم ہوگئی بلکہ اک کے زائد لفظ بھی نجات مل گئی۔
اسی طرح مصرعِ ثانی ہے دہر میں باعث وہ مری کم لقبی کا بھی بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ دہر سے بہتر لفظ دنیا ہے ۔ اگر عروضی پابندی آڑے نہ آرہی ہو تو عام فہم اور کثیرالاستعمال لفظ استعمال کرنا چاہیے کہ اس سے ابلاغ بہتر ہوتا ہے۔ اس مصرع کو اگر دنیا میں ہے باعث وہ مری کم لقبی کا کہا جائے تو زیادہ رواں لگتا ہے۔

عبدالرؤف ، اس مطلع کو درست کرنا تو آپ ہی کا کام ہے ۔ میں دو تین فی البدیہہ مصرع آپ کو دے رہا ہوں ۔ ان مصرعوں میں حسبِ خواہش ردو بدل کرکے اگر ان پر گرہ لگا کر مطلع بنا سکیں تو آپ کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔

چرچا ہےزمانے میں مری بے ادبی کا
میں ماننے والا ہوں رسولِ عربی کا
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
پانی کو ترستا ہو جوں گم گشتہِ صحرا
یوں تجھ سے تعلق ہے مری تشنہ لبی کا

یہ شعر اچھا ہے ۔ بیانیہ صاف اور واضح ہے۔ مضمون بھی پوری طرح سے ادا ہوگیا ہے لیکن ان تمام خوبیوں کے باوجود یہ شعر صرف اس لیے قابلِ قبول نہیں کہ اسے جوں کے متروک لفظ نے کرکرا بلکہ خراب کردیا ہے ۔ سن 2023 کی شاعری میں جوں کے استعمال کی کوئی گنجائش نہیں الّا یہ کہ اس سے مراد ایک ننھا منا سا جانور ہو۔ جو لفظ اب متروک ہوگئے ہیں اور صرف قدیم اور ابتدائی اردو میں ہی نظر آتے ہیں انہیں آج کے قاری کے لیے استعمال کرنے کی کوئی وجہ میری سمجھ میں تو نہیں آتی۔ پیروڈی یا مزاحیہ شاعری میں کسی طرح کوئی گنجائش پیدا کرلی جائے تو وہ الگ بات ہے لیکن یہ لفظ سنجیدہ شاعری کا نہیں۔ غزل کی زبان تو اور بھی فصاحت و نفاست کی متقاضی ہے۔ ایسا لفظ شعر میں لانے سے اس شعر کو ترک کردینا بہتر ہے کہ جو قاری کے ذوق پر گراں گزرے۔ آج کا قاری تو شاید اس لفظ کے معنی سے واقف بھی نہیں ہوگا۔ جن لوگوں کی نظر سے قدیم شعر و ادب گزرا ہے وہی اس لفظ سے واقف ہیں ۔ میری رائے میں کچھ غور و فکر کے بعد مصرع اول کی زلف اس طرح سنواری جاسکتی ہے کہ اس میں جوں نہ ڈالنی پڑے۔ اگر مصرع توڑ کر دوبارہ بھی کہنا پڑے تو کوئی حرج نہیں لیکن اس شعر کو جوں سے پاک کرنا ضروری ہے ۔
دوسری بات یہ کہ گم گشتہِ نہیں بلکہ گم گشتۂ درست املا ہے۔ جس فارسی لفظ کے آخر میں ہائے مختفی ہوتی ہے اس کی اضافت کو کسرہ کے بجائے ہمزہ لگا کر ظاہر کیا جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
عرفان علوی ، ظہیراحمدظہیر آپ دونوں کے مشورے اور وضاحت نہایت خوبصورت ہیں ۔ آپ دونوں کا بہت شکریہ۔ استاد صاحب نے بھی پہلے "کم لقبی" پر توجہ دلائی تھی لیکن میں اپنی سستی یا مصروفیت کے باعث اس پر مزید کوشش نہ کر سکا تھا۔ بہرحال اب اس پر مزید کچھ غور و فکر کر کے پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
 

جاسمن

لائبریرین
انتہائی غیر متفق! خصوصاً آپ کے آخری جملے سے کوئی بھی اتفاق نہیں کرے گا ۔
ظاہر ہے کہ آپ تمام لوگ ملازمتیں بھی کرتے ہیں ، اپنی اپنی گھریلو ذمہ داریاں بھی نبھاتے ہیں ، دنیا کے اور سینکڑوں مسائل ہیں کہ جن سے آدمی کو دن رات الجھنا پڑتا ہے۔ ان سب کے باوجود اگر آپ تمام مدیران اور منتظمین حضرات یہاں محفل میں رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں اور حتی المقدور اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں تو یہ بڑی بات ہے ۔ میں اپ کو بہت کریڈٹ دیتا ہوں ۔ آپ بہت اچھے طریقے سے میزبانی کررہی ہیں ۔ اللّٰہ کریم آپ کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے ، وقت اور توانائی میں برکت عطا فرمائے ۔
کہ حقہ کئی دن سے تازہ نہیں کروایا ہے اور تمباکو بھی ملاوٹ والا لگ رہا ہے ۔ ہر کش کے بعد صرف آٹھ منٹ تک کھانسی آتی ہے

محمد کے بارے میں خبر پڑھ کر افسوس ہوا ۔ اللّٰہ ان ظالموں کو ہدایت دے ۔ امید ہے کہ برخوردار خیریت سے ہونگے ۔ آپ کا مراسلہ پڑھ کر پہلی بات جو ذہن میں گونجی وہ چالیس سال پرانا ایک مصرع کہ"پولیس کا ہے ڈنڈا ، کمر آپ کی" ۔ ہے تو مزاحیہ سی بات لیکن کس قدر افسوسناک بھی ہے کہ چالیس سال بعد بھی پولیس کی روش میں کوئی فرق نہیں آیا ۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا ۔
اس خوش گمانی پہ ممنون وغیرہ ہوں۔
محمد خیریت سے۔ الحمدللہ۔
 

جاسمن

لائبریرین
عاطف بھائی! کافی سوچ و بچار کی تھی کہ شاعری کے لیے الف عین اسٹوڈیو 1 اور نثر کے لیے الف عین اسٹوڈیو 2 شروع کریں۔
نیز ہر کلام کے لیے علیحدہ لڑی ہو یا ایک ہی لڑی میں ایک کلام ختم شد کر کے دوسرا کلام شروع کریں ۔
علیحدہ علیحدہ لڑیاں بکھر جانے کا خدشہ تھا/ہے۔ اسی لیے علیحدہ زمرے کے بارے میں بھی سوچ تھی۔
اب اگر اسے اسٹوڈیو 2 کر دیں تو جو نثر کے لیے "الف عین اسٹوڈیو 2" سوچا ہوا ہے، اس کا کیا؟

اسے ہم "الف عین نثری اسٹوڈیو" یا کوئی اور نام بھی دے سکتے ہیں۔

کیوں کہ دونوں سٹوڈیوز میں کچھ سلسلہ وار اقساط ہو جانے کی امید ہے اس لیے سلسلے کی ہر کڑی کا الگ نمبر مجھے مناسب لگا تجویز بھی اسی لیے کیا ۔
جہاں تک ون اور ٹو کا تعلق ہے تو ہم اسے ۔ نظم اور نثر کا نام دے کے سلسلہ جاری رکھ سکتے ہیں ۔
جیسے الف عین سٹوڈیو شاعری۔ اور الف عین سٹوڈیو نثر ۔
خیر یہ کوئی ضروری نہیں بس تجویز ہے ۔
ظہیر بھائی!!!!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
خواہر محترم ، میں توسید عاطف اور عبدالرؤف صاحبان کی ان تجاویز پر پہلے ہی متفق کی ریٹنگ دے کر اپنی رائے دے چکا ہوں ۔ لیکن پسِ پردہ کام تو ظاہر ہے کہ آپ ہی کو کرنا ہے اس لیے جو آپ کی سہولت ہو وہ کیجیے ۔ میری رائے میں اگر ہر ماہ نئے کلام کے لیے نیا اسٹوڈیو شروع کیا جائے تو خلط مبحث کے امکانات کم ہوجائیں گے ۔ باقی تکنیکی پہلوؤں کو آپ مدیر حضرات زیادہ بہتر جانتے ہیں ۔
 

جاسمن

لائبریرین
الف عین اسٹوڈیو-1 الحمدللہ کامیاب رہا۔ اردو محفل فورم پہ یہ اپنی نوعیت کی پہلی تنقیدی نشست تھی۔
اب ہم دوسری تنقیدی نشست شروع کرنے لگے ہیں جس میں جناب محمد عبدالرؤوف اپنا کلام پیش کریں گے۔
ہم جناب

محمد عبدالرؤوف

کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی غزل تنقیدی جائزہ کے لیے پیش کریں۔​

جناب محمد عبدالرؤوف !​

 
یہ شعر اچھا ہے ۔ بیانیہ صاف اور واضح ہے۔ مضمون بھی پوری طرح سے ادا ہوگیا ہے لیکن ان تمام خوبیوں کے باوجود یہ شعر صرف اس لیے قابلِ قبول نہیں کہ اسے جوں کے متروک لفظ نے کرکرا بلکہ خراب کردیا ہے ۔ سن 2023 کی شاعری میں جوں کے استعمال کی کوئی گنجائش نہیں الّا یہ کہ اس سے مراد ایک ننھا منا سا جانور ہو۔ جو لفظ اب متروک ہوگئے ہیں اور صرف قدیم اور ابتدائی اردو میں ہی نظر آتے ہیں انہیں آج کے قاری کے لیے استعمال کرنے کی کوئی وجہ میری سمجھ میں تو نہیں آتی۔ پیروڈی یا مزاحیہ شاعری میں کسی طرح کوئی گنجائش پیدا کرلی جائے تو وہ الگ بات ہے لیکن یہ لفظ سنجیدہ شاعری کا نہیں۔ غزل کی زبان تو اور بھی فصاحت و نفاست کی متقاضی ہے۔ ایسا لفظ شعر میں لانے سے اس شعر کو ترک کردینا بہتر ہے کہ جو قاری کے ذوق پر گراں گزرے۔ آج کا قاری تو شاید اس لفظ کے معنی سے واقف بھی نہیں ہوگا۔ جن لوگوں کی نظر سے قدیم شعر و ادب گزرا ہے وہی اس لفظ سے واقف ہیں ۔ میری رائے میں کچھ غور و فکر کے بعد مصرع اول کی زلف اس طرح سنواری جاسکتی ہے کہ اس میں جوں نہ ڈالنی پڑے۔ اگر مصرع توڑ کر دوبارہ بھی کہنا پڑے تو کوئی حرج نہیں لیکن اس شعر کو جوں سے پاک کرنا ضروری ہے ۔
دوسری بات یہ کہ گم گشتہِ نہیں بلکہ گم گشتۂ درست املا ہے۔ جس فارسی لفظ کے آخر میں ہائے مختفی ہوتی ہے اس کی اضافت کو کسرہ کے بجائے ہمزہ لگا کر ظاہر کیا جاتا ہے۔
ظہیر بھائی ، لفظ ’جوں‘ کی بابَت آپ کا قول بجا ہے . اِس ضمن میں ایک سوال ہے . اِس لفظ کی ایک اور مکتوبی شکل ہے ’جیوں‘ جو وزن میں ’جوں‘ كے برابر ہی ہے . جیسا آپ نے فرمایا ، ’جوں‘ تو دورِ حاضر كے شعرا كے سَر سے صاف ہو چکی ہے ، :) لیکن ’جیوں‘ آج بھی مستعمل ہے ، مثلاً :
ساحل پہ جیوں ہی پاؤں رکھا ریگ زار نے
پانی میں جتنے دفن تھے دریا اچھل پڑے (شہباز شمسی)
آپ کی اِس بارے میں کیا رائے ہے ؟ کیا ’جیوں‘ قابل قبول ہے ؟
 
ظہیر بھائی ، لفظ ’جوں‘ کی بابَت آپ کا قول بجا ہے . اِس ضمن میں ایک سوال ہے . اِس لفظ کی ایک اور مکتوبی شکل ہے ’جیوں‘ جو وزن میں ’جوں‘ كے برابر ہی ہے . جیسا آپ نے فرمایا ، ’جوں‘ تو دورِ حاضر كے شعرا كے سَر سے صاف ہو چکی ہے ، :) لیکن ’جیوں‘ آج بھی مستعمل ہے ، مثلاً :
ساحل پہ جیوں ہی پاؤں رکھا ریگ زار نے
پانی میں جتنے دفن تھے دریا اچھل پڑے (شہباز شمسی)
آپ کی اِس بارے میں کیا رائے ہے ؟ کیا ’جیوں‘ قابل قبول ہے ؟
اسے شاید جونہی لکھنا بہتر ہو. جونہی کے معنی ہیں جیسے ہی اور یہ عام زبان میں مستعمل ہے. اس کا جوں بمعنی مانند سے کوئی خاص تعلق غالباً نہیں.
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جیوں تو جوں سے بھی زیادہ متروک شکل معلوم ہوتی ہے ۔ جوں تو پھر بھی قابل قبول ہوسکتا ہے ۔
مولوی اسمعیل میرٹھی نے بچوں کے لیے بہت منظومات کا ذخیرہ دیا ۔ ہم نے بھی ایک اسکول میں ایک معروف نظم جگنو اور بچہ پڑھی تھی ۔
یہ قدرت کی کاری گری ہے جناب کہ ذرے کو چمکائے جوں آفتاب
 
اسے شاید جونہی لکھنا بہتر ہو. جونہی کے معنی ہیں جیسے ہی اور یہ عام زبان میں مستعمل ہے. اس کا جوں بمعنی مانند سے کوئی خاص تعلق غالباً نہیں.
ریحان صاحب ، آپ نے بجا فرمایا . جو مثال میں نے دی ہے اس میں ’مانند‘ والا ’جیوں‘ نہیں ہے . لیکن عبارت مجھے ’جونہی‘ کی بہ نسبت ’جیوں ہی‘ کی زیادہ بھلی لگتی ہے . نہ جانے کیوں مجھے یہاں نون غنہ كے لیے نقطہ کا استعمال کچھ جچتا نہیں .

جہاں تک ’جیوں‘ كے بمعنی ’مانند‘ استعمال کا سوال ہے ، تو اس کی بھی مثالیں ملتی ہیں ، جیسے :
وہ مری راہ جنوں میں یوں نمودار ہوا
جیوں کسی تیر کے رستے میں سر آتا ہے کوئی (سلمان خیال)

اِس كے علاوہ ’جیوں جیوں‘ اور ’جیوں کا تیوں‘ میں بھی ’جیوں‘ نظر آتا ہے ، مثلاً :
تمہارے جسم نے پہلو بہ پہلو جس کو لکھا تھا
وہ سلوٹ جیوں کی تیوں اب بھی مرے بستر پہ رکھی ہے (ضیا ضمیر)
بڑا گھاٹے کا سودا ہے صداؔ یہ سانس لینا بھی
بڑھے ہے عمر جیوں جیوں، زندگی کم ہوتی جاتی ہے (صدا انبالوی)
یہ تمام شعرا دور حاضر كے شعرا ہیں . جیسا میں نے پہلے عرض کیا ، مجھے آج کل کی شاعری میں ’جوں‘ نہیں نظر آتا لیکن ’جیوں‘ اب بھی گاہے گاہے مل جاتا ہے . واللہ اَعلَمُ بالصَّواب .
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی ، لفظ ’جوں‘ کی بابَت آپ کا قول بجا ہے . اِس ضمن میں ایک سوال ہے . اِس لفظ کی ایک اور مکتوبی شکل ہے ’جیوں‘ جو وزن میں ’جوں‘ كے برابر ہی ہے . جیسا آپ نے فرمایا ، ’جوں‘ تو دورِ حاضر كے شعرا كے سَر سے صاف ہو چکی ہے ، :) لیکن ’جیوں‘ آج بھی مستعمل ہے ، مثلاً :
ساحل پہ جیوں ہی پاؤں رکھا ریگ زار نے
پانی میں جتنے دفن تھے دریا اچھل پڑے (شہباز شمسی)
آپ کی اِس بارے میں کیا رائے ہے ؟ کیا ’جیوں‘ قابل قبول ہے ؟
عرفان بھائی ، جیسا کہ ریحان نے نشاندہی کی ، شہباز شمسی صاحب کے شعر میں ٹائپو ہے۔ جونہی اور جوں ہی دونوں طرح سے لکھا جاتا ہے ۔آپ جانتے ہی ہیں کہ یہ لفظ تو عام مستعمل ہے ۔

جوں اور جیوں ایک ہی لفظ کے دونوں املا قدیم اردو میں رائج تھے لیکن اب دونوں ہی متروک ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی کتاب "قدیم اردو کی لغت" میں دونوں الفاظ درج کیے ہیں۔
ڈاکٹر خالد حسن (جو لندن اسکول آف اوریئنٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز کے پروفیسر تھے) کی کتاب "لغت متروکاتِ زبان اردو" کے شروع میں متروک الفاظ کی تعریف ، تاریخ اور ارتقا کے بارے میں کئی لسانیاتی محققین کے گراں قدر مضامین بھی شامل ہیں۔ ان میں متروک لفظ کی ایک سادہ سی تعریف یہ دی گئی ہے: "متروک الفاظ سے مراد ایسے الفاظ ہوتے ہیں جو بتدریج اپنی کثافت اور پیچیدگی یا دیگر عوامل کے سبب بول چال سے غائب ہوجاتے ہیں اور نسبتاً آسان اور سلیس الفاظ ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔"
اردو زبان کے انتہائی بڑے عالم اور لسانیاتی محقق پنڈت کیفی کے مطابق "متروک وہ لفظ یا ترکیب ہے جوکسی وقت ایک زبان میں بغیر کسی قید یا تخصیص کے مستعمل ہو لیکن پھر اس کا استعمال بالکل ترک یا اس کے ایک مختص معنی میں ترک کردیا گیا ہو۔"
ظاہر ہے کہ جوں یا جیوں اب بول چال میں بالکل بھی استعمال نہیں ہوتا اس لیے یہ لفظ عوام یا عام قاری کے لیےغیر مانوس (چنانچہ بے معنی) ہے۔ متروک لفظ کا استعمال ابلاغ کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے چنانچہ اس سے پرہیز ضروری ہے۔ بالکل ہی متروک لفظ کا استعمال میری نظر میں ایسا ہی ہے جیسا کہ اپنے شعر میں جاپانی یا جرمن زبان کا لفظ استعمال کرنا۔:)
اب اس نکتے پر کئی ضمنی سوالات اٹھ سکتے ہیں۔ چونکہ موقع بھی ہے اور لڑی کی مناسبت سے محل بھی اس لیے طوالت کے لیے پیشگی معذرت چاہتے ہوئے ان سوالات پر بات کرنا بہتر ہوگا ۔ :) پہلا سوال تو یہ ہے کہ اگر کوئی لفظ متروک ہوچکا ہے تو کیوں پھر اب بھی وہ لفظ کسی کسی عصری تحریر (شعر یا نثر) میں نظر آجاتا ہے؟ دوسرا سوال یہ کہ کیا کسی متروک لفظ کو آج اپنی تحریر میں استعمال کرنا منع ہے؟ تیسرا سوال یہ کہ کیا ان مردہ لفظوں کو پھر سے زندگی بخشی جاسکتی ہے؟ وغیرہ وغیرہ
پہلی بات تو یہ کہ کوئی بھی لفظ یکلخت یا اچانک نہیں مرتا ، ایڑیاں رگڑ رگڑ کر آہستہ آہستہ مرتا ہے اور لفظ کے مرنے کا یہ عمل کئی دہائیوں بلکہ صدیوں پر محیط ہوسکتا ہے۔ زبان ایک جیتی جاگتی زندہ شے ہے۔ یہ اپنے بولنے والوں کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی ہے۔ وقت کے بدلتے تقاضوں کے تحت اس میں پرانے لفظ یا پرانے معانی رفتہ رفتہ غائب ہوجاتے ہیں اور نئے لفظ اور معانی بتدریج اس میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔ مرنے کے بعد متروک لفظ اگرچہ عام بول چال کے منظر نامے سے غائب ہوجاتا ہے لیکن اس مرحوم لفظ کی یاد باقی رہتی ہے۔ بزرگوں کے زیرِ استعمال رہنے والے یہ مرحوم لفظ شعرا و ادبا کے ذہنوں میں ایک یاد کی صورت زندہ رہتے ہیں۔ چنانچہ ان متروک لفظوں کے دوبارہ استعمال کا امکان ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ کبھی کبھی یوں ہوتا ہے کہ کوئی شاعر وزن کی مجبوری کے تحت کوئی متروک لفظ استعمال کربیٹھتا ہے۔ بعض اوقات کوئی شاعر یا نثر نگار شعوری طور پر اپنی تحریر میں قدیم اسلوب اختیار کرتے ہوئے کچھ متروک الفاظ یا متروک معانی لے آتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ دیکھیے کہ موجودہ اردو کا لفظ "سے" کئی صدیوں پر محیط ارتقائی سفر طے کرتے ہوئے ستے ، ستیں ، سوں اور سیں کی صورتیں بدلتا ہوا آج ہماری زبانوں پر "سے" کی شکل میں رائج ہے۔ اب ایسا ہوسکتا ہے کہ کسی ایک خاص طرز کی نظم یا نثر پارے میں کوئی مصنف "سے" کے بجائے سوں یا سیں استعمال کرلے لیکن اس خاص استثنا کو مثال بناکر عام استعمال کے لیے دلیل نہیں بنایا جاسکتا۔ عام قاری تو سیں اور سوں کی تاریخ سے واقف نہیں ، قارئین کا ایک مخصوص طبقہ ہی ان متروک صورتوں کو سمجھ سکتا ہے۔ چنانچہ مطلقاً یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ ان متروکات کا استعمال منع ہے لیکن ایسی کوششوں کو بے سود جانتے ہوئے ان کی حوصلہ شکنی تو کی جاسکتی ہے۔ آسان اور عام فہم لفظی متبادل کے موجود ہوتے ہوئے کسی متروک لفظ کے استعمال کی کوئی بہت ہی معقول وجہ ہونی چاہیے ورنہ ایسی کوئی کوشش میری رائے میں ابلاغ کی خودکشی کے مترادف ہے۔

اب رہا یہ سوال کہ آیا کسی متروک لفظ کو دوبارہ سے رائج کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ بات یہ ہے کہ نہ صرف الفاظ بلکہ پوری کی پوری زبانیں بھی عدم استعمال کی وجہ سے مرجاتی ہیں ، صفحۂ دنیا سے غائب ہوجاتی ہیں۔ ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں۔ کچھ زبانیں خود بخود مرجاتی ہیں اور بعض کو ماردیا جاتا ہے۔ دنیا میں کتنی ہی زبانیں استعمار کے ہاتھوں ماری جاچکی ہیں ۔ بعض زبانوں کے رسم الخط قتل کردیے گئے ، بعض کو جڑ سے ہی مٹادیا گیا۔ زبانوں کے مرنے کا مسئلہ ایک الگ ہی موضوع ہے۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں۔ اردو میں ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کتنے عام مستعمل الفاظ کی جگہ انگریزی کے متبادلات نے ہتھیالی۔ بات وہی ہے کہ زبان اپنے بولنے والوں اور استعمال کرنے والوں کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ ہم اگر اپنی گفتگو میں اردو الفاظ کے موجود ہوتے ہوئے انگریزی متبادلات استعمال کرتے رہے تو عین ممکن ہے کہ دو تین نسلوں کے بعد موجودہ اردو کے ہزاروں الفاظ متروک ہوجائیں۔ اب اس صورتحال کے معکوس کو دیکھیں تو یہ بھی ممکن ہے کہ کثیر پیمانے پر مسلسل استعمال سے کسی متروک لفظ کو اس کے پرانے معنی یا کسی نئے معنی کے ساتھ زندہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ لیکن کسی متروک لفظ کو زندہ کرنے کی کوشش تب ہی معقول کہلائے گی جب یا تو اس کا کوئی متبادل پیدا نہ ہوا ہو یا پھر اس متروک لفظ کو کسی نئے معنوں میں استعمال کرنے کی کوئی ضرورت پیش آرہی ہو۔ ورنہ جو لفظ رفتہ رفتہ اپنی موت آپ مرگیا ہو اس کے احیا سے کیا فائدہ ۔ (اسرائیل میں عبرانی زبان کا احیا اس بات کا ثبوت ہے کہ نہ صرف مردہ لفظ بلکہ مردہ زبان کو بھی باقاعدہ منصوبہ بندی اور کوشش سے دوبارہ زندہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن عبرانی کے اس احیا کے پیچھے یہودیوں کی مذہبی اور ثقافتی ضروریات کارفرما تھیں) ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جیوں تو جوں سے بھی زیادہ متروک شکل معلوم ہوتی ہے ۔ جوں تو پھر بھی قابل قبول ہوسکتا ہے ۔
مولوی اسمعیل میرٹھی نے بچوں کے لیے بہت منظومات کا ذخیرہ دیا ۔ ہم نے بھی ایک اسکول میں ایک معروف نظم جگنو اور بچہ پڑھی تھی ۔
یہ قدرت کی کاری گری ہے جناب کہ ذرے کو چمکائے جوں آفتاب
عاطف بھائی ، جیسا کہ اوپر لکھا کہ کوئی بھی لفظ آہستہ آہستہ متروک ہوتا ہے۔قلی قطب شاہ اور ولی دکنی کے زمانے میں جوں اور جیوں مین اسٹریم اردو یعنی روزمرہ گفتگو کا حصہ تھے چنانچہ اس دور اور اس کے فوراً بعد کے شعرا کے ہاں یہ الفاظ بکثرت نظر آتے ہیں ۔ لیکن اس کے بعد بتدریج اس کا استعمال کم ہوتے ہوتے بیسویں صدی کے شروع میں آکر ختم ہوگیا ۔ اسماعیل میرٹھی کی اکثر شاعری انیسویں صدی کے آخر کی ہے ۔ چنانچہ ان کے ہاں بعض جگہوں پر وزن کی مجبوری کی وجہ سے جوں کا استعمال نظر آئے گا۔ لیکن اکثر جگہوں پر جوں کے بجائے جیسے یا جس طرح ملتا ہے۔ان کی نثر میں جوں کا استعمال مجھے یاد نہیں آتا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
عاطف بھائی ، جیسا کہ اوپر لکھا کہ کوئی بھی لفظ آہستہ آہستہ متروک ہوتا ہے۔قلی قطب شاہ اور ولی دکنی کے زمانے میں جوں اور جیوں مین اسٹریم اردو یعنی روزمرہ گفتگو کا حصہ تھے چنانچہ اس دور اور اس کے فوراً بعد کے شعرا کے ہاں یہ الفاظ بکثرت نظر آتے ہیں ۔ لیکن اس کے بعد بتدریج اس کا استعمال کم ہوتے ہوتے بیسویں صدی کے شروع میں آکر ختم ہوگیا ۔ اسماعیل میرٹھی کی اکثر شاعری انیسویں صدی کے آخر کی ہے ۔ چنانچہ ان کے ہاں بعض جگہوں پر وزن کی مجبوری کی وجہ سے جوں کا استعمال نظر آئے گا۔ لیکن اکثر جگہوں پر جوں کے بجائے جیسے یا جس طرح ملتا ہے۔ان کی نثر میں جوں کا استعمال مجھے یاد نہیں آتا۔
لیکن ظہیر بھائی جوں کا توں جیسا روز مرہ آج بھی ہر درجے کی زبان کا بالکل معروف اور عام مستعمل حصہ ہے ۔اور اس میں جوں کے لفظ میں کوئی اور معنوی پہلو نہیں وہی لفظ ہے ۔ سو اس کے متروک ہونے میں کچھ کلام ہو سکتا ہے ۔ اس روز مرہ کے سہارے ابھی یہ لفظ اور جیے گا ۔ :)
 

علی وقار

محفلین
لیکن ظہیر بھائی جوں کا توں جیسا روز مرہ آج بھی ہر درجے کی زبان کا بالکل معروف اور عام مستعمل حصہ ہے ۔اور اس میں جوں کے لفظ میں کوئی اور معنوی پہلو نہیں وہی لفظ ہے ۔ سو اس کے متروک ہونے میں کچھ کلام ہو سکتا ہے ۔ اس روز مرہ کے سہارے ابھی یہ لفظ اور جیے گا ۔ :)
ٰجوں جوں ٰ بھی ابھی مستعمل ہے یعنی اس لفظ نے کہیں نہ کہیں اپنے جینے کا سامان کر رکھا ہے۔
 
Top