الف عین اسٹوڈیو-2 (شاعری)

پھر میرا جفا جُو لگا مَلنے کفِ افسوس
دیکھا جو نظارہ سا مری جاں بلبی کا
اس شعر میں حشو و زوائد کے بارے میں اساتذہ و ماہرین کی کیا رائے ہے؟
مجھے تو پہلے مصرعے میں ’’پھر‘‘ اور دوسرے میں ’’سا‘‘ بھرتی کے معلوم ہوتے ہیں، اور وہ بھی شعر کا مزا کرکرا کرنے کی حد تک ۔۔۔ پہلے مصرعے میں تعقید لفظی بھی بہت کھٹک رہی ہے جبکہ آسانی سے ان سقموں کو دور کیا جاسکتا ہے۔ مثلا
ملتا ہے جفا جو بھی مرا اب کفِ افسوس
کچھ ایسا نظارہ تھا مری جاں بلبی کا ۔۔۔

ہائے جو محبت کی زباں سے نہیں واقف
لاحق یہ مجھے عشق ہوا کیسے غبی کا
اس شعر کے معنی کا ابلاغ بھی مجھ تک نہ ہو سکا ۔۔۔ شاید ۔۔۔ غالبا شاعر کی مراد یہاں یہ ہے کہ وہ کسی ایسے احمق سے دل لگا بیٹھے ہیں جو محبت کی زبان نہیں سمجھتا!
تاہم اس صورت میں جب تک دوسرے مصرعے میں غبی کی تخصیص نہیں کی جاتی، معنی میں ابہام رہتا ہے کہ کس کی طرف اشارہ ہے۔ اس کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں ’’کیسے‘‘ کا لفظ تخصیص کے لیے ہی آیا ہے ۔۔۔ مگر میرا جواب الجواب یہ ہوگا کہ کیسے تو خود ذو معنی ہے اور قاری کو شائبہ ہو سکتا ہے کہ شاید یہاں کیسے، کس طرح کے معنی میں استعمال ہوا ہو ۔۔۔
میرے کہنے کا مقصد محض یہ ہے کہ عبارت کو جتنا صاف اور بے غبار رکھا جا سکتا ہو، رکھنا چاہیے ۔۔۔جبکہ کوئی ضرورت شعری بھی ابہام کی وجہ نہ بن رہی ہو۔
ویسے پہلے مصرعے میں محبت کی زباں کے بجائے دل کی زباں، نظروں کی زباں، خاموشی کی زباں وغیرہ زیادہ بہتر تاثر چھوڑ سکتے تھے میرے خیال میں ۔۔۔ ہائے بھی بھرتی کا لگتا ہے۔

تو جو نہ میسر ہو اجالوں میں تو اے دوست
ٹوٹے نہ کبھی زور مری تیرہ شبی کا
مطلب دن میں دوست کی جو معیت میسر آتی ہے، اس کا خیال رات کی تاریکیوں کا سد باب کر نے کا سامان ہے؟؟؟ مجھے لگتا ہے کہ یہ چھلانگ ’’مگس کو باغ میں جانے نہ دیجیو‘‘ سے تھوڑی ہی چھوٹی ہوگی :)
جو کو کھینچنے کے بجائے گر کہہ لیں تو مصرع زیادہ رواں نہیں ہوجائےگا؟ اے دوست کے بجائے ہمدم کہیں تو؟؟؟

عبدالرؤوف بھائی، آپ نے زمین ایسی چنی کہ اس میں کاشتکاری کے مواقع محدود تھے ۔۔۔ مجھے قوافی کی یکسانیت بہت محسوس ہوئی ۔۔۔
یہ کچھ منتشر خیالات جلدی جلدی قلم برداشتہ کیے ہیں ۔۔۔ کہیں کوئی بات تلخ محسوس ہوئی ہو تو پیشگی معذرت۔

دعاگو،
راحلؔ
 
لیکن ظہیر بھائی جوں کا توں جیسا روز مرہ آج بھی ہر درجے کی زبان کا بالکل معروف اور عام مستعمل حصہ ہے ۔اور اس میں جوں کے لفظ میں کوئی اور معنوی پہلو نہیں وہی لفظ ہے ۔ سو اس کے متروک ہونے میں کچھ کلام ہو سکتا ہے ۔ اس روز مرہ کے سہارے ابھی یہ لفظ اور جیے گا ۔ :)
متروکات کے باب میں اگرچہ میں نے بسا اوقات دریدہ دہنی کا ارتکاب کرتے ہوئے ظہیر بھائی سے اختلاف کی جسارت کی ہے ۔۔۔ مگر شعر مذکورہ کے تناظر میں ان کی رائے صائب معلوم ہوتی ہے کہ اب لفظ جوں بمعنی مثل یا مانند مفرد کہیں استعمال نہیں ہوتا۔۔۔ سو قوی امکان ہے کہ یہاں اکثر قاری اس کو جونہی پر قیاس کریں گے اور شعر کا مفہوم الجھ کر رہ جائے گا۔ ۔۔
 
جیوں تو جوں سے بھی زیادہ متروک شکل معلوم ہوتی ہے ۔ جوں تو پھر بھی قابل قبول ہوسکتا ہے ۔
مولوی اسمعیل میرٹھی نے بچوں کے لیے بہت منظومات کا ذخیرہ دیا ۔ ہم نے بھی ایک اسکول میں ایک معروف نظم جگنو اور بچہ پڑھی تھی ۔
یہ قدرت کی کاری گری ہے جناب کہ ذرے کو چمکائے جوں آفتاب
عاطف بھائی ، آپ كے اِس قول میں وزن ہے کہ ’جیوں‘ شاید ’جوں‘ سے بھی زیادہ متروک ہے . چند لغات ، جیسے مولوی عبدالحق اور فیروز الغات ، میں صرف ’جوں‘ ہے ، ’جیوں‘ نہیں ہے . دیگر لغات ، جیسے آن لائن اُرْدُو لغت ، میں دونوں شکلیں موجود ہیں . بہر حال ، جیسا میں نے عرض کیا ، مجھے ادھر ’جیوں‘ کئی بار نظر آیا ہے . معلوم نہیں کہ یہ اِس شکل کو زندہ کرنے کی دانستہ کوشش کا نتیجہ ہے یا کتابت کی غلطی کا .
 
عرفان بھائی ، جیسا کہ ریحان نے نشاندہی کی ، شہباز شمسی صاحب کے شعر میں ٹائپو ہے۔ جونہی اور جوں ہی دونوں طرح سے لکھا جاتا ہے ۔آپ جانتے ہی ہیں کہ یہ لفظ تو عام مستعمل ہے ۔

جوں اور جیوں ایک ہی لفظ کے دونوں املا قدیم اردو میں رائج تھے لیکن اب دونوں ہی متروک ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی کتاب "قدیم اردو کی لغت" میں دونوں الفاظ درج کیے ہیں۔
ڈاکٹر خالد حسن (جو لندن اسکول آف اوریئنٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز کے پروفیسر تھے) کی کتاب "لغت متروکاتِ زبان اردو" کے شروع میں متروک الفاظ کی تعریف ، تاریخ اور ارتقا کے بارے میں کئی لسانیاتی محققین کے گراں قدر مضامین بھی شامل ہیں۔ ان میں متروک لفظ کی ایک سادہ سی تعریف یہ دی گئی ہے: "متروک الفاظ سے مراد ایسے الفاظ ہوتے ہیں جو بتدریج اپنی کثافت اور پیچیدگی یا دیگر عوامل کے سبب بول چال سے غائب ہوجاتے ہیں اور نسبتاً آسان اور سلیس الفاظ ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔"
اردو زبان کے انتہائی بڑے عالم اور لسانیاتی محقق پنڈت کیفی کے مطابق "متروک وہ لفظ یا ترکیب ہے جوکسی وقت ایک زبان میں بغیر کسی قید یا تخصیص کے مستعمل ہو لیکن پھر اس کا استعمال بالکل ترک یا اس کے ایک مختص معنی میں ترک کردیا گیا ہو۔"
ظاہر ہے کہ جوں یا جیوں اب بول چال میں بالکل بھی استعمال نہیں ہوتا اس لیے یہ لفظ عوام یا عام قاری کے لیےغیر مانوس (چنانچہ بے معنی) ہے۔ متروک لفظ کا استعمال ابلاغ کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے چنانچہ اس سے پرہیز ضروری ہے۔ بالکل ہی متروک لفظ کا استعمال میری نظر میں ایسا ہی ہے جیسا کہ اپنے شعر میں جاپانی یا جرمن زبان کا لفظ استعمال کرنا۔:)
اب اس نکتے پر کئی ضمنی سوالات اٹھ سکتے ہیں۔ چونکہ موقع بھی ہے اور لڑی کی مناسبت سے محل بھی اس لیے طوالت کے لیے پیشگی معذرت چاہتے ہوئے ان سوالات پر بات کرنا بہتر ہوگا ۔ :) پہلا سوال تو یہ ہے کہ اگر کوئی لفظ متروک ہوچکا ہے تو کیوں پھر اب بھی وہ لفظ کسی کسی عصری تحریر (شعر یا نثر) میں نظر آجاتا ہے؟ دوسرا سوال یہ کہ کیا کسی متروک لفظ کو آج اپنی تحریر میں استعمال کرنا منع ہے؟ تیسرا سوال یہ کہ کیا ان مردہ لفظوں کو پھر سے زندگی بخشی جاسکتی ہے؟ وغیرہ وغیرہ
پہلی بات تو یہ کہ کوئی بھی لفظ یکلخت یا اچانک نہیں مرتا ، ایڑیاں رگڑ رگڑ کر آہستہ آہستہ مرتا ہے اور لفظ کے مرنے کا یہ عمل کئی دہائیوں بلکہ صدیوں پر محیط ہوسکتا ہے۔ زبان ایک جیتی جاگتی زندہ شے ہے۔ یہ اپنے بولنے والوں کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی ہے۔ وقت کے بدلتے تقاضوں کے تحت اس میں پرانے لفظ یا پرانے معانی رفتہ رفتہ غائب ہوجاتے ہیں اور نئے لفظ اور معانی بتدریج اس میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔ مرنے کے بعد متروک لفظ اگرچہ عام بول چال کے منظر نامے سے غائب ہوجاتا ہے لیکن اس مرحوم لفظ کی یاد باقی رہتی ہے۔ بزرگوں کے زیرِ استعمال رہنے والے یہ مرحوم لفظ شعرا و ادبا کے ذہنوں میں ایک یاد کی صورت زندہ رہتے ہیں۔ چنانچہ ان متروک لفظوں کے دوبارہ استعمال کا امکان ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ کبھی کبھی یوں ہوتا ہے کہ کوئی شاعر وزن کی مجبوری کے تحت کوئی متروک لفظ استعمال کربیٹھتا ہے۔ بعض اوقات کوئی شاعر یا نثر نگار شعوری طور پر اپنی تحریر میں قدیم اسلوب اختیار کرتے ہوئے کچھ متروک الفاظ یا متروک معانی لے آتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ دیکھیے کہ موجودہ اردو کا لفظ "سے" کئی صدیوں پر محیط ارتقائی سفر طے کرتے ہوئے ستے ، ستیں ، سوں اور سیں کی صورتیں بدلتا ہوا آج ہماری زبانوں پر "سے" کی شکل میں رائج ہے۔ اب ایسا ہوسکتا ہے کہ کسی ایک خاص طرز کی نظم یا نثر پارے میں کوئی مصنف "سے" کے بجائے سوں یا سیں استعمال کرلے لیکن اس خاص استثنا کو مثال بناکر عام استعمال کے لیے دلیل نہیں بنایا جاسکتا۔ عام قاری تو سیں اور سوں کی تاریخ سے واقف نہیں ، قارئین کا ایک مخصوص طبقہ ہی ان متروک صورتوں کو سمجھ سکتا ہے۔ چنانچہ مطلقاً یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ ان متروکات کا استعمال منع ہے لیکن ایسی کوششوں کو بے سود جانتے ہوئے ان کی حوصلہ شکنی تو کی جاسکتی ہے۔ آسان اور عام فہم لفظی متبادل کے موجود ہوتے ہوئے کسی متروک لفظ کے استعمال کی کوئی بہت ہی معقول وجہ ہونی چاہیے ورنہ ایسی کوئی کوشش میری رائے میں ابلاغ کی خودکشی کے مترادف ہے۔

اب رہا یہ سوال کہ آیا کسی متروک لفظ کو دوبارہ سے رائج کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ بات یہ ہے کہ نہ صرف الفاظ بلکہ پوری کی پوری زبانیں بھی عدم استعمال کی وجہ سے مرجاتی ہیں ، صفحۂ دنیا سے غائب ہوجاتی ہیں۔ ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں۔ کچھ زبانیں خود بخود مرجاتی ہیں اور بعض کو ماردیا جاتا ہے۔ دنیا میں کتنی ہی زبانیں استعمار کے ہاتھوں ماری جاچکی ہیں ۔ بعض زبانوں کے رسم الخط قتل کردیے گئے ، بعض کو جڑ سے ہی مٹادیا گیا۔ زبانوں کے مرنے کا مسئلہ ایک الگ ہی موضوع ہے۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں۔ اردو میں ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کتنے عام مستعمل الفاظ کی جگہ انگریزی کے متبادلات نے ہتھیالی۔ بات وہی ہے کہ زبان اپنے بولنے والوں اور استعمال کرنے والوں کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ ہم اگر اپنی گفتگو میں اردو الفاظ کے موجود ہوتے ہوئے انگریزی متبادلات استعمال کرتے رہے تو عین ممکن ہے کہ دو تین نسلوں کے بعد موجودہ اردو کے ہزاروں الفاظ متروک ہوجائیں۔ اب اس صورتحال کے معکوس کو دیکھیں تو یہ بھی ممکن ہے کہ کثیر پیمانے پر مسلسل استعمال سے کسی متروک لفظ کو اس کے پرانے معنی یا کسی نئے معنی کے ساتھ زندہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ لیکن کسی متروک لفظ کو زندہ کرنے کی کوشش تب ہی معقول کہلائے گی جب یا تو اس کا کوئی متبادل پیدا نہ ہوا ہو یا پھر اس متروک لفظ کو کسی نئے معنوں میں استعمال کرنے کی کوئی ضرورت پیش آرہی ہو۔ ورنہ جو لفظ رفتہ رفتہ اپنی موت آپ مرگیا ہو اس کے احیا سے کیا فائدہ ۔ (اسرائیل میں عبرانی زبان کا احیا اس بات کا ثبوت ہے کہ نہ صرف مردہ لفظ بلکہ مردہ زبان کو بھی باقاعدہ منصوبہ بندی اور کوشش سے دوبارہ زندہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن عبرانی کے اس احیا کے پیچھے یہودیوں کی مذہبی اور ثقافتی ضروریات کارفرما تھیں) ۔
ظہیر بھائی ، تفصیلی جواب کا بہت بہت شکریہ !
 
جوں جوں میں "جوں" کو پڑھتی جا رہی ہوں، توں توں میرے سر میں جوں سیں خارش ہوئے جا رہی ہے۔
:D:D:D
جاسمن صاحبہ ، اب شاید آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ زبان میں سَر سے کہیں زیادہ جوئیں ہوتی ہیں . :) چونکہ جوؤں کو حرکت میں لانے کا قصوروار خاکسار ہے ، اگر کسی کو جوئیں پیرشان کریں تو وہ مجھے کوس سکتا ہے . :)
 

صابرہ امین

لائبریرین
اس شعر میں حشو و زوائد کے بارے میں اساتذہ و ماہرین کی کیا رائے ہے؟
یہ سوال میرا بھی ہے۔ کبھی کبھی وزن پورا کرنا محال ہو جاتا ہے۔ اتنی علمی استعداد بھی نہیں ہوتی کہ بہت اچھا متبادل سامنے لایا جا سکے۔ تو کیا اکا دکا بھرتی کے الفاظ ڈال دیے جائیں تو یہ قابلِ معافی نہیں؟ ظہیراحمدظہیر بھائی، عرفان علوی بھائی، سید عاطف علی بھائی
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
لیکن ظہیر بھائی جوں کا توں جیسا روز مرہ آج بھی ہر درجے کی زبان کا بالکل معروف اور عام مستعمل حصہ ہے ۔اور اس میں جوں کے لفظ میں کوئی اور معنوی پہلو نہیں وہی لفظ ہے ۔ سو اس کے متروک ہونے میں کچھ کلام ہو سکتا ہے ۔ اس روز مرہ کے سہارے ابھی یہ لفظ اور جیے گا ۔ :)

ٰجوں جوں ٰ بھی ابھی مستعمل ہے یعنی اس لفظ نے کہیں نہ کہیں اپنے جینے کا سامان کر رکھا ہے۔

عاطف بھائی اور علی وقار بھائی ، یا تو اس موضوع پر میرے وضاحتی مراسلے میں کچھ کمی رہ گئی یا پھر آپ حضرات نے بغور نہیں دیکھا۔ :) بات تو لفظ "جوں" کے متروک ہونے کے بارے میں ہورہی ہے ۔ جوں کا توں ، جونہی ، جوں جوں وغیرہ تراکیب کے متروک ہونے کا تو کسی نے بھی ذکر نہیں کیا ۔ یہ تراکیب تو مستعمل ہیں۔ میں نے اپنے مراسلے کے شروع میں پنڈت کیفی کے حوالے سے متروک لفظ کی تعریف اسی وجہ سے نقل کی تھی کہ بات واضح ہوجائے ۔ بہرحال ، وضاحت و صراحت سے بیان کرنے کی دوبارہ کوشش کرتا ہوں ۔

کسی لفظ کے متروک ہونے کی کئی ممکنہ صورتیں ہیں۔
اول: لفظ کے املا کا متروک ہوجانا ۔ مثلاً پہلے پانو لکھا جاتا تھا لیکن اب پاؤں لکھتے ہیں۔ اب اگر میں پانو کے متروک املا کو استعمال کروں تو قاری کی سمجھ میں نہیں آئے گا کہ یہ کون سا لفظ ہے۔
دوم: لفظ کے کسی خاص معنی کا متروک ہوجانا: مسئلۂ زیرِ بحث اس کی ایک مثال ہے۔ لفظ "جوں" بمعنی جیسے یا مانند اب متروک ہوچکا ہے لیکن ایک ننھے منے کیڑے کے نام کے طور پر اب بھی مستعمل ہے۔ اب اگر اس لفظ کو اس کے متروک معنی میں استعمال کیا جائے تو سامعین یا قارئین اس کے وہ معنی نہیں سمجھیں گے جو مصنف کو مطلوب ہیں۔
مفرد لفظ جوں کے متروک ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس لفظ پر مشتمل تراکیب یا مرکب الفاظ بھی متروک سمجھے جائیں گے ۔ ایسا نہیں ہے۔ ہر لفظ یا ترکیب کی اپنی انفرادی حیثیت ہوتی ہے۔ ایک اور مثال کے ذریعے اس بات کو واضح کرتا ہوں۔ قدیم اردو میں لفظ "غریب" کے معنی شاذ ، غیر مانوس ، اجنبی ، پردیسی وغیرہ ہوا کرتے تھے۔ انہی معنوں کے ساتھ یہ لفظ عجیب و غریب ، غریب الدیار ، غریب الوطن جیسی تراکیب کا حصہ بنا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مفرد لفظ غریب کے معنی تبدیل ہوگئے۔ پرانے معنی متروک ہوئے اور اس لفظ میں نادار اور مفلس کے نئے معنی پیدا ہوگئے۔ اب اگر میں کہوں کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے تو ہر سننے والا اس سے نئے معنی مراد لے گا۔ لیکن میں کہوں کہ پاکستان ایک عجیب و غریب ملک ہے تو اصل مطلب سمجھ میں آجائے گا کیونکہ عجیب و غریب کی ترکیب تو متروک نہیں ہوئی ، اب بھی عام استعمال میں ہے۔

سوم: کسی لفظ کا اس طرح سے معدوم ہوجانا کہ وہ تقریری یا تحریری زبان میں کہیں نظر نہ آئے یعنی کسی لفظ کا جڑ سے مٹ جانا۔ نظیر اکبر آبادی کی نظم جب لاد چلے گا بنجارہ میں اس قبیل کے بہت سارے الفاظ موجود ہیں جنہیں بغیر لغت کے جاننا اہلِ علم کے لیے بھی محال ہے۔ ایسے الفاظ کی تعداد ہزاروں میں ہے۔

چہارم: کسی لفظ کا ایک معنی چھوڑ کر دوسرے معنی اختیار کرلینا۔اس کی مثال میں لفظ "مذاق" سے دیا کرتا ہوں ۔ اصلاً اور اولاً مذاق کے معنی ذوق تھے لیکن وقت نے اسے لطیفہ بنادیا۔ اگر میں کہوں کہ راحل بھائی کا مذاق بہت اچھا ہے تو اکثر لوگ سمجھیں گے کہ وہ لطیفے اچھے سناتے ہیں یا بہت مزاحیہ آدمی ہیں۔:) لیکن اگر میں کہوں کہ شعر کے معاملے میں ان کا مذاق اچھا ہے تو پھر بھی کچھ لوگ بات سمجھ جائیں گے۔ کیونکہ مذاق کا لفظ ذوق کے معنوں میں ابھی پوری طرح مرا نہیں ہے ، بلکہ آہستہ آہستہ مرتا جارہا ہے۔ ہوسکتا ہے چند دہائیوں کے بعد ان معنوں میں پوری طرح متروک ہوجائے۔
اس آخری مثال سے ایک اور نکتہ سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ کسی لفظ کا متروک ہونا ایک بتدریج عمل ہے جو طویل عرصے پر محیط ہوتا ہے ۔ چنانچہ متروک ہونے کے بھی درجات ہوتے ہیں۔ ہم کسی متروک لفظ کے بارے میں خوب جائزہ لینے کے بعد کہہ سکتے ہیں کہ یہ لفظ بالکل متروک ہوچکا ہے ، یا یہ تقریباً متروک ہوچکا ہے یعنی عالمِ نزع میں ہے ، یا یہ کہ اس کے متروک ہونے کا عمل شروع ہوچکا ہے ، بہت حد تک متروک ہوچکا ہے ، وغیرہ وغیرہ ۔ انگریزی زبان میں ماہرین لسانیات لفظوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ کمپیوٹر نے ان کا کام بہت آسان کردیا ہے۔ اخبارات ، رسائل و جرائد اور دیگر تحریروں کو کھنگالنا آسان ہوگیا ہے۔ اب شماریات کی مدد سے بتایا جاسکتا ہے کہ کون سے الفاظ کے استعمال میں کمی آرہی ہے اور کون سے الفاظ مقبول تر ہورہے ہیں۔ کون سے الفاظ نئے معانی اختیار کررہے ہیں ۔ وغیرہ۔ لغت نویس ادارے ہر سال کے اختتام پر اس قسم کی دلچسپ شماریات شائع کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اردو الفاظ کے استعمال پر اس طرح کے شماریاتی جائزے پی ایچ ڈی کرنے والے صاحبان کی تحقیق کا موضوع بن سکتے ہیں۔ جامعات کے شعبہ اردو کو اس طرف توجہ دینا چاہیے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مجھے ادھر ’جیوں‘ کئی بار نظر آیا ہے . معلوم نہیں کہ یہ اِس شکل کو زندہ کرنے کی دانستہ کوشش کا نتیجہ ہے یا کتابت کی غلطی کا .
عرفان بھائی ، جدید شعرا کے ہاں لفظ جوں بمعنی جیسے کا استعمال مجھے شعوری کوشش سے زیادہ عجزِ کلام کا مظہر معلوم ہوتا ہے۔ اگر اس متروک لفظ کو شعوری طور پر زندہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہوتی تو اس کی مثالیں نثر میں بھی نظر آتیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ کچھ شاعر حضرات متبادل پیرایہ ڈھونڈنے کے بجائے وزن کی مجبوری کے باعث اس لفظ کو استعمال کرلیتے ہیں جیسا کہ زیرِ تبصرہ غزل میں عبدالرؤف صاحب نے کیا۔ اب اگر کسی اور فورم میں کہیں کوئی صاحب عبدالرؤف کا یہ شعر لے کر بطور مثال پیش کریں کہ دیکھئے یہ لفظ اب بھی استعمال ہوتا ہے تو اس مثال سے اس لفظ کے حق میں کوئی نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا۔
عرفان بھائی ، شعوری کوشش کے ضمن میں ایک اور بات میں کہوں گا کہ شعرا و ادبا پر زبان کی جانب سے جو چند ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان میں زبان کی حفاظت ( یعنی لسانی حفظانِ صحت) ، اس کی ترویج و ترقی ، اور اس میں نئی تراکیب و اسالیب کا اضافہ کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ بے شک زبان کسی کے بنانے سے نہیں بنتی ، یہ تو ایک فطری ، غیر ارادی ، خاموش اور سست رو عمل ہوتا ہے۔ لیکن شعرا و ادبا کسی تحریک کو شروع کرنے کا اختیار ضرور رکھتے ہیں۔ اس تحریک کا قبولِ عام پانا یا نہ پانا شاید قسمت کی بات ہے۔ ویب سائٹ کا ایک اردو متبادل ویبگاہ میں نے اپنی اس غزل میں استعمال کیا تھا۔ کچھ لوگوں کو یہ استعمال پسند بھی آیا۔ اس استعمال کے پیچھے یہ خیال کارفرما تھا کہ ویبگاہ چونکہ انگریزی اور فارسی کا مخلوط (فیوژن) لفظ ہے ا س لیے اس لفظ سےتراکیب بھی تراشی جاسکتی ہیں۔ چنانچہ میں نے ایک شعر میں ویبگاہِ زندگی کی ترکیب استعمال کی تھی۔ امید یہ ہے کہ شاید اس مثال کے بعد یہ لفظ شعر و ادب میں استعمال ہونے لگے اور رفتہ رفتہ زبان کا حصہ بن جائے ۔ اب ایسا ہوتا ہے یا نہیں یہ تو میرے پڑپوتوں سگڑپوتوں کو معلوم ہو جائے گا۔ میں تو صرف امید ہی کرسکتا ہوں۔ :)
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یہ سوال میرا بھی ہے۔ کبھی کبھی وزن پورا کرنا محال ہو جاتا ہے۔ اتنی علمی استعداد بھی نہیں ہوتی کہ بہت اچھا متبادل سامنے لایا جا سکے۔ تو کیا اکا دکا بھرتی کے الفاظ ڈال دیے جائیں تو یہ قابلِ معافی نہیں؟ ظہیراحمدظہیر بھائی، عرفان علوی بھائی، سید عاطف علی بھائی
اچھا سوال پوچھا ہے آپ نے ، خواہرم صابرہ ! میں تو گاجر کے حلوے کی توقع کررہا تھا لیکن اس بار بھی سوال کے ساتھ قدم رنجہ فرمایا ہے آپ نے ۔ خیر ، حلوہ ادھار رہا ۔ :)
پہلے آپ کے سوال کو دیکھ لیا جائے ۔ اس موضوع کے بارے میں اس سے پہلے بھی محفل کے کئی دھاگوں میں جزئیات کے ساتھ بہت کچھ تفصیل سے لکھا جاچکا ہے ۔

شعری تنقید کے ضمن میں عموماً حشو و زوائد اور بھرتی کے الفاظ کی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں ۔ ان دونوں میں ذرا فرق ہے ۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ ذرا تفصیل سے لکھ دوں ۔
حشو کے لغوی معنی ہیں ٹھونسنا۔علم الکلام کی اصطلاح میں حشو اس زائد لفظ کو کہا جاتا ہے جو عبارت کے معنی میں کوئی اضافہ نہ کرے اور جس کے حذف کرنے سے عبارت کے معنی میں کوئی فرق نہ آئے ۔ بلکہ حشو کو نکالنے سے کلام کی خوبی اور حسن میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔عام طور پر حشو کے بجائے حشو و زوائد کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ۔ عملی طور پر ان دونوں اصطلاحات سے ایک ہی بات مراد ہے ۔
میں نے اس مراسلے کی دوسری سطر میں ایک جملے کو سرخ رنگ سے اس لیے ملوّن کیا ہے کہ اس کو بطور مثال پیش کرسکوں۔ اس جملے میں متعدد الفاظ زائد ہیں یعنی یہ الفاظ جملے کے معنی میں کوئی اضافہ نہیں کرتے ۔موضوع کے بارے میں کے بجائے موضوع پر کافی ہوگا۔ جب دھاگوں کا ذکر کردیا تو محفل کے الفاظ استعمال کرنا ضروری نہیں کہ دھاگے محفل ہی کا حصہ ہیں ۔ اس سے پہلے کے بجائے صرف پہلے کہنا کافی ہوگا ۔ تفصیل کا لفظ استعمال کر لیا تو جزئیات کے ساتھ کہنے کی ضرورت نہیں ۔ بہت کچھ کے بجائے بہت کافی ہوگا۔ چنانچہ مذکورہ بالا سرخ جملے کو حشو و زوائد سے پاک کرنے کے بعد یوں لکھا جاسکتا ہے: اس موضوع پر پہلے بھی کئی دھاگوں میں تفصیل سے لکھا جاچکا ہے ۔ غور کیجیے کہ حشو و زوائد نکالنے سے جملے کے معنی میں کوئی فرق نہیں پڑا ۔ اختصار اور جامعیت نے عبارت کی خوبی میں اضافہ کردیا۔

علما نے حشو کی دو اقسام بیان کی ہیں ۔ پہلی قسم کو حشوِ ملیح کہا جاتا ہے ۔ اس کی مثال یوں ہے جیسے کسی کے نام کے آگے دعا ، تحسین، توضیح وغیرہ کے کلمات کا اضافہ کرنا ۔ مثلاً رحمۃ اللّٰہ علیہ ، رضی اللّٰہ عنہ ، شاعرِ مشرق وغیرہ ۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ حشو برا نہیں ۔ یہ حشو عام طور پر شعر میں استعمال بھی نہیں کیا جاتا البتہ نثر میں عام ملتا ہے ۔
دوسری قسم کو حشوِ قبیح کہا گیا ہے ۔ وہ کلمہ یا کلمات جو عبارت کے معانی میں کوئی اضافہ نہیں کرتے بلکہ انہیں داخلِ عبارت کرنے سے زبان و بیان کا معیار متاثر ہوتا ہے اور بعض اوقات معانی میں خلل بھی پیدا ہوجاتا ہے ۔ حشوِ قبیح کئی طرح کا ہوسکتا ہے ۔
تکرار: یعنی ہم معنی الفاظ کا استعمال ۔ مثلاً اس کی شجاعت اور دلیری کے واقعات و کہانیاں مشہور ہیں ۔ میرے دل میں اس کی بہت عزت اور احترام ہے ۔
طویل نویسی یا دراز نویسی: یعنی کسی بات کو براہِ راست اور کم الفاظ میں بیان کرنے کے بجائے الفاظ زیادہ کرنا ۔ مثلاً اس نے راستہ طے کیا کے بجائے اس نے راستے کو طے کیا ۔ آخر کار وہ مان گیا کے بجائے وہ آخر میں آکر مان گیا ۔ وغیرہ
حشوِ زائد: سنگِ حجرِ اسود ، فصلِ بہار کا موسم ، جناح کیپ ٹوپی ، آبِ زمزم کا پانی ، بمع ، بمعہ ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ حشو کی یہ قسم تو صاف ظاہر ہے اور خوش قسمتی سے عام نہیں ہے ۔ :)

بھرتی کا لفظ یا الفاظ وہ ہوتے ہیں جنہیں شاعر کسی مصرع کا وزن پورا کرنے کے لیے شامل کرتا ہے ۔ چونکہ بھرتی کا لفظ شعر کے معنی میں کوئی اضافہ نہیں کرتا اس لیے اس کو حذف کرنے سے شعر کا مفہوم متاثر نہیں ہوتا ۔لیکن یہ ممکن ہے کہ بھرتی کا لفظ ایسا ہو جو شعر کے معنی میں الجھن پیدا کردے یا بگاڑ دے۔
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ شعر کا مضمون کم الفاظ میں ادا ہوجاتا ہے لیکن وزن پورا کرنے کے لیے مصرع میں ایک دو لفظ اضافی ڈالنے پڑجاتے ہیں ۔ زبان و بیان پر قدرت ہو تو بھرتی کے الفاظ کا استعمال کم کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اچھے اساتذہ کے ہاں بھرتی کے الفاظ شاذ ونادر ہی نظر آتے ہیں ۔ کوشش کرنی چاہیے کہ بھرتی کا لفظ لانے کے بجائے مفہوم کی ادائیگی کے لیے ایسا لفظ(یا الفاظ) یا پیرایۂ اظہار استعمال کیا جائے کہ جو وزن پر پورا اترے۔ اس بات کی وضاحت کے لیے اس وقت کوئی مثال ذہن میں نہیں آرہی اور نیند میرا کالر پکڑ پکڑ کر کھینچ رہی ہے ۔ کرسی سے اٹھانا چاہتی ہے ۔ :) چنانچہ گفتگو کو یہیں ختم کرتا ہوں ۔ اگلی دفعہ نئے مراسلے میں اسی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کچھ مثالیں پیش کروں گا۔ آپ تب تک نیشنل برانڈ پراٹھوں کا کمرشل دیکھیے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
احباب’’مہم جوئیں‘‘ میں اس قدر مشغول ہوئے کہ لگتا ہے باقی اشعارجوؤں کی نذر ہو گئے :)
احسن بھائی ، اس نششست میں آپ کو شریک دیکھ کر دلی خوشی ہوئی! یہ چراغ جو آپ جلارہے ہیں دیر تک اور دور تک روشنی دیں گے۔ ان شاء اللّٰہ۔
غزل کے دیگر اشعار پر میں بھی جلد ہی بشرِ فرصت کچھ عرض کرتا ہوں ۔ ان شاء اللّٰہ ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یہ سوال میرا بھی ہے۔ کبھی کبھی وزن پورا کرنا محال ہو جاتا ہے۔ اتنی علمی استعداد بھی نہیں ہوتی کہ بہت اچھا متبادل سامنے لایا جا سکے۔ تو کیا اکا دکا بھرتی کے الفاظ ڈال دیے جائیں تو یہ قابلِ معافی نہیں؟ ظہیراحمدظہیر بھائی، عرفان علوی بھائی، سید عاطف علی بھائی
یہ سوال ایک پیچیدہ تصور کے اجمالی استفسار پر مبنی ہے جسے بیان کرنا قدرے نزاکت اور احتیاط کا متقاضی ہے ۔ اس سلسلے میں مجھے یہ بات اہم معلوم ہوتی ہے کہ وہ یہ ہے کہ اس امر کو سمجھا جائے کہ وہ جوہر دراصل ہے کیا جو کسی شعر کے خوب یا بلند ہونے میں کارفرما ہوتا ہے ۔

کوئی بھی شعر جب قاری تک پہنچتا ہے تو وہ اپنا وہ قالب لیے پہنچتا ہے جو اسے شاعر نے اپنے فکری اور لسانی عناصر سے ترتیب دے کر پیش کیا ہے ۔ اور شعر کا یہ یہ مجموعی تاثر ہی دراصل وہ جو ہر ہوتا ہے جو اس شعر کا حقیقی مقام متعین کرتا ہے ۔ اب اگر اس اجمال کی کچھ تفصیل ہم دیکھیں تو اس میں دو بنیادی جہتیں سامنے آتی ہیں ۔ ایک وہ شعری فکر یا تصور جو شاعر شاعرانہ نزاکت کے ساتھ کنسیو کرتا ہے اور دوسری یہ کہ شاعر اسی فکر یا خیال پر اپنے بیان کی قوت اور لسانی فہم کے مطابق شعر کے فیبرک کا تارو پود جوڑتا اور بنتا ہے ۔

اب اس تار و پود کو دیکھا جائے تو اس میں بھی متعدد عناصر ہوتے ہیں جنہیں برت کر شاعر اپنے شعر کے اس قالب کو اپنی بیاض کے کسی صفحے پر منتقل کرتا ہے ۔ اور اسے اپنی ایک شکل دیتا ہے ۔ اس شکل کے پیچھے کئی لفظی رعایتیں برتی جاتی ہیں کہیں روز مرہ اور محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ کسی ضرب المثل سے بیان کو تقویت پہنچائی جاتی ہے تو کہیں الفاظ کی تقدیم و تاخیر سے بیان کے پہلو تراشے جاتے ہیں۔ کہیں تشبیہات اور استعارات سے زینت بخشی جاتی ہے تو کہیں انوکھی تراکیب گھڑی جاتی ہیں ۔ کہیں جدت تو کہیں روایت کا عکس شامل کیا جاتا ہے ۔کہیں کسی تلمیح کا ذکر ہوتا ہے تو کہیں لف و نشر سے مدد لی جاتی ہے ۔ ان تمام عناصر میں شعر اور شاعر کا کمال یہ ہوتا ہے کہ یہ تمام انفرادی عناصر شاعر کے اس خیال کی نزاکت کی امانت قاری تک پہنچاتے ہیں ۔ اس میں کوئی بھی عنصر اگر مرکزی خیال کے منافی ہوا تو شعر کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے ۔

یہ بات بھی ایک مسلم حْیقت ہے کہ کوئی بہت اعلی سے اعلی شعر بھی یہ تمام خصوصیات اپنے اندر نہیں رکھ سکتا نہ ایسا عملاََ ممکن ہو تا ہے، لیکن کسی شعر کی خوبی اور کمال یہ ہے کہ شعر کے تمام
عناصر جنہیں شاعر بروئے کار لائے، وہ قاری کی فکر کو اپنے تخیل کی سمت میں لے جائیں ۔
چناں چہ ایسی بے شمار مثالیں مل سکتی ہیں کہ شعر میں کوئی خاص تخیل نہیں لیکن شاعر کے انداز بیان نے اسے اوج ثریا تک پہنچا دیا ۔

کسی شعر کے ان اجزائے ترکیبی کو اختصار کے ساتھ سمجھ کر اب ہم صابرہ امین کے سوال کو دیکھ سکتے ہیں کہ کسی " اکا دکا بھرتی" کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے یا نہیں ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ آپ جب شعر کے تخیل اور انداز اور الفاظ سے شعر کو یک جہت کر کے اگر اتنی بلندی پر لے گئے ہیں جہاں اس بھرت سے مجموعی تاثر یا اسلوب یا بیان پر کوئی کاری ضرب نہیں پڑتی تو اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن ایسا بھی ممکن ہے کہ کسی معمولی سی بھرت سے شعر کہیں کا کہیں بھی پہنچ سکتا ہے اس کا فیصلہ آپ کے فہم، ادراک اور ذوق لسانی پر منحصر ہے ۔ اس کے بغیر تمام نقش ہی ناتمام اور تمام نغمے سودائے خام ہی رہتے ہیں ۔
 

علی وقار

محفلین
اکا دکا بھرتی کے الفاظ ڈال دیے جائیں تو یہ قابلِ معافی نہیں؟
شعر میں الفاظ کی جبری بھرتی اچھے اور بڑے شاعر کے لیے ناقابل معافی ہی تصور کی جاتی ہے۔ مبتدی اور نو آموز شاعر بھرتی کے الفاظ ڈال کر اساتذہ کو ڈانٹ ڈپٹ کا موقع فراہم کرتے ہیں اس لیے ان کے لیے یہ روا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
عاطف بھائی اور علی وقار بھائی ، یا تو اس موضوع پر میرے وضاحتی مراسلے میں کچھ کمی رہ گئی یا پھر آپ حضرات نے بغور نہیں دیکھا۔ :) بات تو لفظ "جوں" کے متروک ہونے کے بارے میں ہورہی ہے ۔ جوں کا توں ، جونہی ، جوں جوں وغیرہ تراکیب کے متروک ہونے کا تو کسی نے بھی ذکر نہیں کیا ۔ یہ تراکیب تو مستعمل ہیں۔ میں نے اپنے مراسلے کے شروع میں پنڈت کیفی کے حوالے سے متروک لفظ کی تعریف اسی وجہ سے نقل کی تھی کہ بات واضح ہوجائے ۔ بہرحال ، وضاحت و صراحت سے بیان کرنے کی دوبارہ کوشش کرتا ہوں ۔

ظہیر بھائی آپ کی اس تمام وضاحت سے بالکل انکار نہیں ہو سکتا سب باتیں بالکل آسانی سے سمجھ میں آنے والی اور فطری طور پر اتنی بدیہی اور قابل قبول ہیں کہ کسی استدلال و وضاحت کی بھی ضروری نہیں ۔
جیسے غریب لفظ کے اصل معنی (اجنبی) دیگر روز مرہ جات کی بنیاد پر مکمل طور پر ابھی بھی زندہ اور واضح ہیں البتہ لفظ غریب کا مجرد استعمال بالعموم مفلس کے معنوں میں ڈھل گیا ہے ۔ اور ان کے موقوف ہونے کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آتا اسی طرح اگر جوں کو دیکھیں (سر میں نہیں شاعری میں :) ) تو صاف اور واضح تاثر یہی ابھرتا ہے جو معنی اس کے شعر میں مراد لیے جاتے ہیں ۔ شاید ہی کوئی اشعار کا ذوق رکھنے والا اس کو اجنبی محسوس کرے ۔
میرے خیال میں یہ لفظ بنیادی طور پر نثر میں استعمال ہوتا ہی نہیں ۔ ماضی بعید (کی نثر) میں شاید ہوا ہو تو بھی شاذ و نادر ہی ہو گا جبکہ شعر و شاعری میں آپ کو اس کی مثالیں نہ صرف عام بلکہ کثرت سے مل جائیں گی ۔ مجھے تو یہ لفظ بالکل اجنبی نہیں محسوس ہوتا(صرف شاعری میں )۔جبکہ عام متروک الفاظ واضح طور پر عجیب و غریب محسوس ہوتے ہیں ۔

کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جن کا استعمال کسی خاص ماحول کے لیے ہی مناسب ہو جاتا ہے ۔جیسے آپ سجن سجناں پیا وغیرہ جیسے قدیم الفاظ کو آج کے گانوں گیتوں نغموں میں فعالیت سے ہی استعمال ہوتا دیکھیں گے ۔ اس طرح کے اور بھی بہت الفاظ بھی مل جائیں گے جو صرف گانوں میں ہی مناسب لگتے ہیں ۔ کوئی محبوب کے معنوں میں ساجن نہ نثر میں استعمال کرتا ہے نہ کسی سنجیدہ غزل میں برتتا ہے۔اس لیے ہم انہیں بھی متروک بھی نہیں کہہ سکتے ۔
سودا میر اور درد وغیرہ کی زبان میں ہمیں کئی متروک الفاظ ملتے ہیں جبکہ مومن و غالب کی زبان میں شاید بہت ہی کم ہوں ۔ ان میں بھی جوں کا لفظ عام ہے ۔مولوی اسمعیل میڑھی بچوں کے شعری ادب کے مسلم الثبوت امام ہیں بیسویں صدی تک ان کی مثال بھی ہے ۔

جوں کے لفظ سے بھی کم از کم میرے ذہن میں مجموعی طور پر یہی معنوی تاثر ابھرتا ہے۔ البتہ عین ممکن ہے یہ صرف میرا ہی ذاتی تاثر ہو سکتا ہے جو محدود مطالعے اور مشاہدے کی بنا ہر ہو ۔
 
Top