محمد احسن سمیع راحلؔ
محفلین
احباب’’مہم جوئیں‘‘ میں اس قدر مشغول ہوئے کہ لگتا ہے باقی اشعارجوؤں کی نذر ہو گئے
آپ بھی غزل کی مشاطہ گری میں شرکت فرمائیں کچھ ۔احباب’’مہم جوئیں‘‘ میں اس قدر مشغول ہوئے کہ لگتا ہے باقی اشعارجوؤں کی نذر ہو گئے
اس شعر میں حشو و زوائد کے بارے میں اساتذہ و ماہرین کی کیا رائے ہے؟پھر میرا جفا جُو لگا مَلنے کفِ افسوس
دیکھا جو نظارہ سا مری جاں بلبی کا
اس شعر کے معنی کا ابلاغ بھی مجھ تک نہ ہو سکا ۔۔۔ شاید ۔۔۔ غالبا شاعر کی مراد یہاں یہ ہے کہ وہ کسی ایسے احمق سے دل لگا بیٹھے ہیں جو محبت کی زبان نہیں سمجھتا!ہائے جو محبت کی زباں سے نہیں واقف
لاحق یہ مجھے عشق ہوا کیسے غبی کا
مطلب دن میں دوست کی جو معیت میسر آتی ہے، اس کا خیال رات کی تاریکیوں کا سد باب کر نے کا سامان ہے؟؟؟ مجھے لگتا ہے کہ یہ چھلانگ ’’مگس کو باغ میں جانے نہ دیجیو‘‘ سے تھوڑی ہی چھوٹی ہوگیتو جو نہ میسر ہو اجالوں میں تو اے دوست
ٹوٹے نہ کبھی زور مری تیرہ شبی کا
متروکات کے باب میں اگرچہ میں نے بسا اوقات دریدہ دہنی کا ارتکاب کرتے ہوئے ظہیر بھائی سے اختلاف کی جسارت کی ہے ۔۔۔ مگر شعر مذکورہ کے تناظر میں ان کی رائے صائب معلوم ہوتی ہے کہ اب لفظ جوں بمعنی مثل یا مانند مفرد کہیں استعمال نہیں ہوتا۔۔۔ سو قوی امکان ہے کہ یہاں اکثر قاری اس کو جونہی پر قیاس کریں گے اور شعر کا مفہوم الجھ کر رہ جائے گا۔ ۔۔لیکن ظہیر بھائی جوں کا توں جیسا روز مرہ آج بھی ہر درجے کی زبان کا بالکل معروف اور عام مستعمل حصہ ہے ۔اور اس میں جوں کے لفظ میں کوئی اور معنوی پہلو نہیں وہی لفظ ہے ۔ سو اس کے متروک ہونے میں کچھ کلام ہو سکتا ہے ۔ اس روز مرہ کے سہارے ابھی یہ لفظ اور جیے گا ۔
مجھے آپ کے اس مراسلے کے جواب میں ظہیر بھائی کے جواب کا انتظار رہے گا۔جوں جوں میں "جوں" کو پڑھتی جا رہی ہوں، توں توں میرے سر میں جوں سیں خارش ہوئے جا رہی ہے۔
عاطف بھائی ، آپ كے اِس قول میں وزن ہے کہ ’جیوں‘ شاید ’جوں‘ سے بھی زیادہ متروک ہے . چند لغات ، جیسے مولوی عبدالحق اور فیروز الغات ، میں صرف ’جوں‘ ہے ، ’جیوں‘ نہیں ہے . دیگر لغات ، جیسے آن لائن اُرْدُو لغت ، میں دونوں شکلیں موجود ہیں . بہر حال ، جیسا میں نے عرض کیا ، مجھے ادھر ’جیوں‘ کئی بار نظر آیا ہے . معلوم نہیں کہ یہ اِس شکل کو زندہ کرنے کی دانستہ کوشش کا نتیجہ ہے یا کتابت کی غلطی کا .جیوں تو جوں سے بھی زیادہ متروک شکل معلوم ہوتی ہے ۔ جوں تو پھر بھی قابل قبول ہوسکتا ہے ۔
مولوی اسمعیل میرٹھی نے بچوں کے لیے بہت منظومات کا ذخیرہ دیا ۔ ہم نے بھی ایک اسکول میں ایک معروف نظم جگنو اور بچہ پڑھی تھی ۔
یہ قدرت کی کاری گری ہے جناب کہ ذرے کو چمکائے جوں آفتاب
ظہیر بھائی ، تفصیلی جواب کا بہت بہت شکریہ !عرفان بھائی ، جیسا کہ ریحان نے نشاندہی کی ، شہباز شمسی صاحب کے شعر میں ٹائپو ہے۔ جونہی اور جوں ہی دونوں طرح سے لکھا جاتا ہے ۔آپ جانتے ہی ہیں کہ یہ لفظ تو عام مستعمل ہے ۔
جوں اور جیوں ایک ہی لفظ کے دونوں املا قدیم اردو میں رائج تھے لیکن اب دونوں ہی متروک ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی کتاب "قدیم اردو کی لغت" میں دونوں الفاظ درج کیے ہیں۔
ڈاکٹر خالد حسن (جو لندن اسکول آف اوریئنٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز کے پروفیسر تھے) کی کتاب "لغت متروکاتِ زبان اردو" کے شروع میں متروک الفاظ کی تعریف ، تاریخ اور ارتقا کے بارے میں کئی لسانیاتی محققین کے گراں قدر مضامین بھی شامل ہیں۔ ان میں متروک لفظ کی ایک سادہ سی تعریف یہ دی گئی ہے: "متروک الفاظ سے مراد ایسے الفاظ ہوتے ہیں جو بتدریج اپنی کثافت اور پیچیدگی یا دیگر عوامل کے سبب بول چال سے غائب ہوجاتے ہیں اور نسبتاً آسان اور سلیس الفاظ ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔"
اردو زبان کے انتہائی بڑے عالم اور لسانیاتی محقق پنڈت کیفی کے مطابق "متروک وہ لفظ یا ترکیب ہے جوکسی وقت ایک زبان میں بغیر کسی قید یا تخصیص کے مستعمل ہو لیکن پھر اس کا استعمال بالکل ترک یا اس کے ایک مختص معنی میں ترک کردیا گیا ہو۔"
ظاہر ہے کہ جوں یا جیوں اب بول چال میں بالکل بھی استعمال نہیں ہوتا اس لیے یہ لفظ عوام یا عام قاری کے لیےغیر مانوس (چنانچہ بے معنی) ہے۔ متروک لفظ کا استعمال ابلاغ کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے چنانچہ اس سے پرہیز ضروری ہے۔ بالکل ہی متروک لفظ کا استعمال میری نظر میں ایسا ہی ہے جیسا کہ اپنے شعر میں جاپانی یا جرمن زبان کا لفظ استعمال کرنا۔
اب اس نکتے پر کئی ضمنی سوالات اٹھ سکتے ہیں۔ چونکہ موقع بھی ہے اور لڑی کی مناسبت سے محل بھی اس لیے طوالت کے لیے پیشگی معذرت چاہتے ہوئے ان سوالات پر بات کرنا بہتر ہوگا ۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ اگر کوئی لفظ متروک ہوچکا ہے تو کیوں پھر اب بھی وہ لفظ کسی کسی عصری تحریر (شعر یا نثر) میں نظر آجاتا ہے؟ دوسرا سوال یہ کہ کیا کسی متروک لفظ کو آج اپنی تحریر میں استعمال کرنا منع ہے؟ تیسرا سوال یہ کہ کیا ان مردہ لفظوں کو پھر سے زندگی بخشی جاسکتی ہے؟ وغیرہ وغیرہ
پہلی بات تو یہ کہ کوئی بھی لفظ یکلخت یا اچانک نہیں مرتا ، ایڑیاں رگڑ رگڑ کر آہستہ آہستہ مرتا ہے اور لفظ کے مرنے کا یہ عمل کئی دہائیوں بلکہ صدیوں پر محیط ہوسکتا ہے۔ زبان ایک جیتی جاگتی زندہ شے ہے۔ یہ اپنے بولنے والوں کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی ہے۔ وقت کے بدلتے تقاضوں کے تحت اس میں پرانے لفظ یا پرانے معانی رفتہ رفتہ غائب ہوجاتے ہیں اور نئے لفظ اور معانی بتدریج اس میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔ مرنے کے بعد متروک لفظ اگرچہ عام بول چال کے منظر نامے سے غائب ہوجاتا ہے لیکن اس مرحوم لفظ کی یاد باقی رہتی ہے۔ بزرگوں کے زیرِ استعمال رہنے والے یہ مرحوم لفظ شعرا و ادبا کے ذہنوں میں ایک یاد کی صورت زندہ رہتے ہیں۔ چنانچہ ان متروک لفظوں کے دوبارہ استعمال کا امکان ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ کبھی کبھی یوں ہوتا ہے کہ کوئی شاعر وزن کی مجبوری کے تحت کوئی متروک لفظ استعمال کربیٹھتا ہے۔ بعض اوقات کوئی شاعر یا نثر نگار شعوری طور پر اپنی تحریر میں قدیم اسلوب اختیار کرتے ہوئے کچھ متروک الفاظ یا متروک معانی لے آتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ دیکھیے کہ موجودہ اردو کا لفظ "سے" کئی صدیوں پر محیط ارتقائی سفر طے کرتے ہوئے ستے ، ستیں ، سوں اور سیں کی صورتیں بدلتا ہوا آج ہماری زبانوں پر "سے" کی شکل میں رائج ہے۔ اب ایسا ہوسکتا ہے کہ کسی ایک خاص طرز کی نظم یا نثر پارے میں کوئی مصنف "سے" کے بجائے سوں یا سیں استعمال کرلے لیکن اس خاص استثنا کو مثال بناکر عام استعمال کے لیے دلیل نہیں بنایا جاسکتا۔ عام قاری تو سیں اور سوں کی تاریخ سے واقف نہیں ، قارئین کا ایک مخصوص طبقہ ہی ان متروک صورتوں کو سمجھ سکتا ہے۔ چنانچہ مطلقاً یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ ان متروکات کا استعمال منع ہے لیکن ایسی کوششوں کو بے سود جانتے ہوئے ان کی حوصلہ شکنی تو کی جاسکتی ہے۔ آسان اور عام فہم لفظی متبادل کے موجود ہوتے ہوئے کسی متروک لفظ کے استعمال کی کوئی بہت ہی معقول وجہ ہونی چاہیے ورنہ ایسی کوئی کوشش میری رائے میں ابلاغ کی خودکشی کے مترادف ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ آیا کسی متروک لفظ کو دوبارہ سے رائج کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ بات یہ ہے کہ نہ صرف الفاظ بلکہ پوری کی پوری زبانیں بھی عدم استعمال کی وجہ سے مرجاتی ہیں ، صفحۂ دنیا سے غائب ہوجاتی ہیں۔ ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں۔ کچھ زبانیں خود بخود مرجاتی ہیں اور بعض کو ماردیا جاتا ہے۔ دنیا میں کتنی ہی زبانیں استعمار کے ہاتھوں ماری جاچکی ہیں ۔ بعض زبانوں کے رسم الخط قتل کردیے گئے ، بعض کو جڑ سے ہی مٹادیا گیا۔ زبانوں کے مرنے کا مسئلہ ایک الگ ہی موضوع ہے۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں۔ اردو میں ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کتنے عام مستعمل الفاظ کی جگہ انگریزی کے متبادلات نے ہتھیالی۔ بات وہی ہے کہ زبان اپنے بولنے والوں اور استعمال کرنے والوں کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ ہم اگر اپنی گفتگو میں اردو الفاظ کے موجود ہوتے ہوئے انگریزی متبادلات استعمال کرتے رہے تو عین ممکن ہے کہ دو تین نسلوں کے بعد موجودہ اردو کے ہزاروں الفاظ متروک ہوجائیں۔ اب اس صورتحال کے معکوس کو دیکھیں تو یہ بھی ممکن ہے کہ کثیر پیمانے پر مسلسل استعمال سے کسی متروک لفظ کو اس کے پرانے معنی یا کسی نئے معنی کے ساتھ زندہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ لیکن کسی متروک لفظ کو زندہ کرنے کی کوشش تب ہی معقول کہلائے گی جب یا تو اس کا کوئی متبادل پیدا نہ ہوا ہو یا پھر اس متروک لفظ کو کسی نئے معنوں میں استعمال کرنے کی کوئی ضرورت پیش آرہی ہو۔ ورنہ جو لفظ رفتہ رفتہ اپنی موت آپ مرگیا ہو اس کے احیا سے کیا فائدہ ۔ (اسرائیل میں عبرانی زبان کا احیا اس بات کا ثبوت ہے کہ نہ صرف مردہ لفظ بلکہ مردہ زبان کو بھی باقاعدہ منصوبہ بندی اور کوشش سے دوبارہ زندہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن عبرانی کے اس احیا کے پیچھے یہودیوں کی مذہبی اور ثقافتی ضروریات کارفرما تھیں) ۔
جاسمن صاحبہ ، اب شاید آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ زبان میں سَر سے کہیں زیادہ جوئیں ہوتی ہیں . چونکہ جوؤں کو حرکت میں لانے کا قصوروار خاکسار ہے ، اگر کسی کو جوئیں پیرشان کریں تو وہ مجھے کوس سکتا ہے .جوں جوں میں "جوں" کو پڑھتی جا رہی ہوں، توں توں میرے سر میں جوں سیں خارش ہوئے جا رہی ہے۔
یہ سوال میرا بھی ہے۔ کبھی کبھی وزن پورا کرنا محال ہو جاتا ہے۔ اتنی علمی استعداد بھی نہیں ہوتی کہ بہت اچھا متبادل سامنے لایا جا سکے۔ تو کیا اکا دکا بھرتی کے الفاظ ڈال دیے جائیں تو یہ قابلِ معافی نہیں؟ ظہیراحمدظہیر بھائی، عرفان علوی بھائی، سید عاطف علی بھائیاس شعر میں حشو و زوائد کے بارے میں اساتذہ و ماہرین کی کیا رائے ہے؟
لیکن ظہیر بھائی جوں کا توں جیسا روز مرہ آج بھی ہر درجے کی زبان کا بالکل معروف اور عام مستعمل حصہ ہے ۔اور اس میں جوں کے لفظ میں کوئی اور معنوی پہلو نہیں وہی لفظ ہے ۔ سو اس کے متروک ہونے میں کچھ کلام ہو سکتا ہے ۔ اس روز مرہ کے سہارے ابھی یہ لفظ اور جیے گا ۔
ٰجوں جوں ٰ بھی ابھی مستعمل ہے یعنی اس لفظ نے کہیں نہ کہیں اپنے جینے کا سامان کر رکھا ہے۔
یعنی آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ: جوئیں کھا گئیں تبصرے کیسے کیسےاحباب’’مہم جوئیں‘‘ میں اس قدر مشغول ہوئے کہ لگتا ہے باقی اشعارجوؤں کی نذر ہو گئے
مجھ کوں بھی سر میں یہ کھاج ہوا تھیں کبھو پھر میں اتنا مصروف ہو اکہ اب سر کھجانے کی فرصت نہیںجوں جوں میں "جوں" کو پڑھتی جا رہی ہوں، توں توں میرے سر میں جوں سیں خارش ہوئے جا رہی ہے۔
عرفان بھائی ، جدید شعرا کے ہاں لفظ جوں بمعنی جیسے کا استعمال مجھے شعوری کوشش سے زیادہ عجزِ کلام کا مظہر معلوم ہوتا ہے۔ اگر اس متروک لفظ کو شعوری طور پر زندہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہوتی تو اس کی مثالیں نثر میں بھی نظر آتیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ کچھ شاعر حضرات متبادل پیرایہ ڈھونڈنے کے بجائے وزن کی مجبوری کے باعث اس لفظ کو استعمال کرلیتے ہیں جیسا کہ زیرِ تبصرہ غزل میں عبدالرؤف صاحب نے کیا۔ اب اگر کسی اور فورم میں کہیں کوئی صاحب عبدالرؤف کا یہ شعر لے کر بطور مثال پیش کریں کہ دیکھئے یہ لفظ اب بھی استعمال ہوتا ہے تو اس مثال سے اس لفظ کے حق میں کوئی نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا۔مجھے ادھر ’جیوں‘ کئی بار نظر آیا ہے . معلوم نہیں کہ یہ اِس شکل کو زندہ کرنے کی دانستہ کوشش کا نتیجہ ہے یا کتابت کی غلطی کا .
اچھا سوال پوچھا ہے آپ نے ، خواہرم صابرہ ! میں تو گاجر کے حلوے کی توقع کررہا تھا لیکن اس بار بھی سوال کے ساتھ قدم رنجہ فرمایا ہے آپ نے ۔ خیر ، حلوہ ادھار رہا ۔یہ سوال میرا بھی ہے۔ کبھی کبھی وزن پورا کرنا محال ہو جاتا ہے۔ اتنی علمی استعداد بھی نہیں ہوتی کہ بہت اچھا متبادل سامنے لایا جا سکے۔ تو کیا اکا دکا بھرتی کے الفاظ ڈال دیے جائیں تو یہ قابلِ معافی نہیں؟ ظہیراحمدظہیر بھائی، عرفان علوی بھائی، سید عاطف علی بھائی
احسن بھائی ، اس نششست میں آپ کو شریک دیکھ کر دلی خوشی ہوئی! یہ چراغ جو آپ جلارہے ہیں دیر تک اور دور تک روشنی دیں گے۔ ان شاء اللّٰہ۔احباب’’مہم جوئیں‘‘ میں اس قدر مشغول ہوئے کہ لگتا ہے باقی اشعارجوؤں کی نذر ہو گئے
یہ سوال ایک پیچیدہ تصور کے اجمالی استفسار پر مبنی ہے جسے بیان کرنا قدرے نزاکت اور احتیاط کا متقاضی ہے ۔ اس سلسلے میں مجھے یہ بات اہم معلوم ہوتی ہے کہ وہ یہ ہے کہ اس امر کو سمجھا جائے کہ وہ جوہر دراصل ہے کیا جو کسی شعر کے خوب یا بلند ہونے میں کارفرما ہوتا ہے ۔یہ سوال میرا بھی ہے۔ کبھی کبھی وزن پورا کرنا محال ہو جاتا ہے۔ اتنی علمی استعداد بھی نہیں ہوتی کہ بہت اچھا متبادل سامنے لایا جا سکے۔ تو کیا اکا دکا بھرتی کے الفاظ ڈال دیے جائیں تو یہ قابلِ معافی نہیں؟ ظہیراحمدظہیر بھائی، عرفان علوی بھائی، سید عاطف علی بھائی
شعر میں الفاظ کی جبری بھرتی اچھے اور بڑے شاعر کے لیے ناقابل معافی ہی تصور کی جاتی ہے۔ مبتدی اور نو آموز شاعر بھرتی کے الفاظ ڈال کر اساتذہ کو ڈانٹ ڈپٹ کا موقع فراہم کرتے ہیں اس لیے ان کے لیے یہ روا ہے۔اکا دکا بھرتی کے الفاظ ڈال دیے جائیں تو یہ قابلِ معافی نہیں؟
عاطف بھائی اور علی وقار بھائی ، یا تو اس موضوع پر میرے وضاحتی مراسلے میں کچھ کمی رہ گئی یا پھر آپ حضرات نے بغور نہیں دیکھا۔ بات تو لفظ "جوں" کے متروک ہونے کے بارے میں ہورہی ہے ۔ جوں کا توں ، جونہی ، جوں جوں وغیرہ تراکیب کے متروک ہونے کا تو کسی نے بھی ذکر نہیں کیا ۔ یہ تراکیب تو مستعمل ہیں۔ میں نے اپنے مراسلے کے شروع میں پنڈت کیفی کے حوالے سے متروک لفظ کی تعریف اسی وجہ سے نقل کی تھی کہ بات واضح ہوجائے ۔ بہرحال ، وضاحت و صراحت سے بیان کرنے کی دوبارہ کوشش کرتا ہوں ۔