واہ جی واہ
ماشاءاللہ، سبحان اللہ
کیا خوب تقریب، کیا ہی خوب شخصیات
ادب، علم و روحانیت کی قدآور شخصیات
محبت ہی محبت ، علم و عمل کی روانی
وہ چند گھنٹے جو ساری زندگی یادوں کے ذخیرے میں تاحیات روشنی دیتے رہیں گے
بظاہر ایک چھوٹی سی تقریب کتنے ہم خیال اور آپس میں محبت رکھنے والے لوگوں کی قربت کا بہانہ بن گئی
کیا لکھوں کیا نا لکھوں
نا ہی اپنے اندر اتنی سکت پاتا ہوں نا ہی اتنی اوقات ہے میری
اپنے کرتوتوں اور گناہوں کے بوجھ سے پہلے سر اٹھا نہیں پاتا
کہ تقریب میں شریک ہونے والے اور نا شرکت کرسکنے والے آپ سب محفلین کی محبت کا بوجھ بھی ہے مجھ پر
کچھ میری نظر سے:
ساجد بھائی : بہترین مبصر، کائیاں، شریر اور جوانوں سے زیادہ جوان
عاطف بٹ : پڑھا لکھا ، سوچ میں گہرائی، انکھوں میں چمک رکھنےوالا اور ہر وقت موبائل اور کمپیوٹر پر کسی سے بات کرتے ہوئے
زیر لب مسکرانے والا جوان
نیرنگ خیال : ذہین، بہت پیارا، بہت ہی مخلص لڑکا، انمول خلوص کا مالک
الف نظامی : میں سمجھا کوئی بہت دبنگ قسم کا بوڑھا انسان ہوگا دھان پان سا جس میں میری دھان پان والی بات سچ نکلی بس ۔ اصل میں
نعیم اختر نظامی احترام و ادب ، محبت ، مہمانداری اور عقیدت میں گندھا ہوا خاص طرح کا عام آدمی ہے
خرم شہزاد خرم : نا کبھی اتنی بات ہوئی اور اکا دکا دھاگہ کی وجہ سے تعارف تھا ، پر جب ملاقات ہوئی تو بھی تعارف کی ضرورت نا پڑی
ان کی شریر مسکراہٹ اور شرارت بھری آنکھیں ، وہ مسکراتے ہوئے آئے اور دوستی ہوگئی
سید زبیر سرکار : مجھے لگتا تھا ان کے مراسلات پڑھ کر کے بہت ہی شفیق اور مہربان ہستی ہیں پر، جب ملا تو پتا چلا کہ ان کی محبت کے آگے
شفقت، مہربان جیسے الفاظ بہت ہیچ ہیں ۔ محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہیں شاہ جی ، میں بہت نافرمان اولاد ہوں کبھی میں ن
اپنے والد مرحوم کی بات نہیں مانی اور نا کبھی اتنا قریب رہا جب شاہ جی نے گلے لگایا تو الگ ہونے کا دل ہی نہیں کیا
اتنی محبت اُف ، بار بار ملنے کو دل چاہتا ہے شاہ جی سے
تلمیذ صاحب سرکار : پہلی بار دیکھا ، کیا نورانی چہرہ، دبنگ شخصیت، شفقت کا احساس ہوتا ہے انہیں دیکھ کر ، جب نام پتا چلا کہ بزرگوار
جناب محمد اصغر صاحب "تلمیذ" کے نام سے محفل پر ہوتے ہیں تو حیران رہ گیا اورجس محبت سےمجھے گلے لگایا
محبت دی تو اور احترام بڑھ گیا
شاکرالقادری سرکار : نام سے پہلے تعارف تھا، پھر کام کا تعارف بھی ہوگیا محفل گردی کرتے ہوئے ، کچھ پرانے محفلین سے ان کے بارے
میں سنا اور مرعوب ہونا شروع ہوگیا گاہے بگاہے ان کے مراسلات بھی پڑھے مرعوبیت بھی بڑھی لیکن کہیں دل میں
یہ احساس بھی تھا کہ ان سے کوئی نہ کوئی روحانی تعلق ضرور ہے پھر پتا چلا کہ شاکر شاہ جی سرکار کے اعزاز میں ایک
تقریب منعقد ہورہی ہے فوراً ہی مصمم ارادہ کیا کہ ضرور جاؤں گا ، تو جناب وہ دن آ گیا کہ سرکار شاکر شاہ جی سے
ملاقات ہونی تھی ، پہنچے اکادمی ادبیات وہ بھی دیر سے اندر جاتے ہی شاہ جی کی تلاش میں نظر دوڑائی اور فوراً ہی
دیدارِ یار ہوگیا اگے بڑھا اور شرکاء میں جا بیٹھا ایسی جگہ کے وہاں سے نظر پڑتی رہے اور تشنگی مٹتی رہے ، دفعتاً
شاہ جی نے دیکھا اور اپنی بولتی آنکھوں سے کہا کہ میں نے تمہیں اسی وقت پہچان لیا تھا جب تم کانفرنس ھال میں
داخل ہوئے تھے پھر کچھ وقت بعد محفل کا اختتام ہوا اور ریفریشمنٹ کے لیئے کہا گیا تو فوراً دست بوسی کے لیئے
آگے بڑھا مصافحہ کیا اور تمام مرعوبیت اڑن چھو ہوگئی اس کی جگہ عقیدت و محبت نے لے لی کہ شاہ جی میں سوائے
محبت، انکساری، عاجزی، نرمی کے میں نے کچھ اور نہیں دیکھا، تمام بیٹھے ہوئے شرکاء سے آنکھوں آنکھوں میں باتیں
کر رہیں مسکرا رہے ہیں ، سب کو برابر اہمیت دی جارہی ہے ، بالکل نہیں لگتا کہ یہی وہ شخصیت ہے جس نے اتنا
ٹیکنکل کام کیا ہے بہت ہی عام سے نظر آنے والے بہت ہی خاص ہیں سید ابرار حسین شاکر القادری سرکار
آپ سے ملاقات ہوئی دھن بھاگ ہمارے سرکار ،ایک بار ملے بار بار ملتے رہنے کی تمنا ہے ۔
تو یہ تھا کچھ میرا اپنا خیال و دل کی داستان اس تقریب میں شرکت کے حوالے سے باقی ہمارے سفر کی روداد اور تقریب کی تصاویر اور خیالات جناب
ساجد بھائی کی ذمہ داری ہے ۔