خواجہ عزیز الحسن مجذوب
56
ہر چیز میں عکس رخ زیبا نظر آیا
عالم مجھے سب جلوہ ہی جلوہ نظر آیا
تو کب کسی طالب کو سراپا نظر آیا
دیکھا تجھے اتنا جسے جتنا نظر آیا
کیں بند جب آنکھیں تو مری کھل گئیں آنکھیں
کیا تم سے کہوں پھر مجھے کیا کیا نظر آیا
جب مہر نمایاں ہوا سب چھپ گئے تارے
تو مجھ کو بھری بزم میں تنہا نظر آیا
گردوں کو بھی اب دیکھ کے ہوتی ہے تسلی
غربت میں یہی ایک شناسا نظر آیا
سب دولت کونین جو دی عشق کے بدلے
اس بھاؤ یہ سودا مجھے سستا نظر آیا
ناکام ہی تا عمر رہا طالب دیدار
ہر جلوہ ترا بعد کو پردا نظر آیا
جو دور نگاہوں سے سر عرش بریں ہے
وہ نور سر گنبد خضرا نظر آیا
مجذوبؔ کبھی سوز کبھی ساز ہے تجھ میں
تو میرؔ کبھی اور کبھی سوداؔ نظر آیا
مجذوبؔ کے جذبے کی جو سمجھے نہ حقیقت
ان عقل کے اندھوں کو یہ سودا نظر آیا